... loading ...
نوازشریف اب مستعار زمین وآسمان پھونک ڈالنے کو تیار ہیں۔ابھی ابھی ارشاد کیا کہ آصف علی زرداری کے خلاف میمو گیٹ سے مجھے دور رہناچاہئے تھا۔بجا فرمایا!نوازشریف کے لیے ماضی بوجھ بنتا جارہا ہے۔
بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی
مگر ماضی کہاں مٹتا ہے!داغستان کے نامور ادیب رسول حمزہ توف کا چمکتا فقرہ بارِ دگر عرض ہے :اگر تم ماضی کو پستول کا نشانا بناؤ گے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانا بنائے گا‘‘۔نوازشریف کی حسرتیں اُن کے مستقبل پر نحوست کا سایہ ڈال چکیں!اے کاش میں زندگی نہیں ہوسکتی۔ یہ دائرۂ آدمیت نہیں، حلقۂ شیطنت ہے۔ماضی بدلا نہیں جاسکتا۔ شاعر کو ملال ہی رہا:
حسرتِ دل نامکمل ہے کتابِ زندگی
جوڑ دے ماضی کے سب اوراق مستقبل کے ساتھ
نوازشریف کو آصف علی زرداری کے خلاف میمو گیٹ سے ہی دور نہ رہنا چاہئے تھا۔تاریخ کے بہاؤ میں بہت سے واقعات ہیں جن سے اُنہیں دور رہنا چاہئے تھا۔کیا جناب کو اپنی سیاسی پیدائش پر اعتراض نہیں۔جو جنرل جیلانی کی گود اور جنرل ضیاء کے سایۂ عاطفت میں ہوئی۔ کیا اُنہیں 1981ء میں بطور وزیرخزانہ پنجاب جھومنا چاہئے تھا، جبکہ یہ سرور بھی آمریت کے دستِ عطا کا تھا۔نوازشریف کو لگے ہاتھوں محمد خان جونیجو کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا بھی اعتراف کرلینا چاہئے۔ نوازشریف نے ملک کے دسویں وزیراعظم محمد خان جونیجو کے ساتھ بھی بہت سے ’’کارِ مسیحائی‘‘ کیے۔جنرل ضیاء کے کان محمد خان جونیجو کے خلاف مسلسل بھرے جاتے رہے۔ ایک غیر ملکی دورے سے واپسی پر محمد خان جونیجو نے جہاز کے اندر مشاورت کی۔ وہ چاہتے تھے کہ جنیوا معاہدے کے دباؤ سے کسی طرح باہر آئیںاور اُنہیں عوام فوج کے گملے میں اُگنے والا پودا نہ سمجھیں۔ جونیجو کو اوجڑی کیمپ کی تحقیقاتی رپورٹ پر اقدام کا مشورہ دیا گیا۔پہلے ہی وہ جرنیلوں کو چھوٹی گاڑیوں میں بٹھا چکے تھے۔آراء منقسم تھیں اور جونیجو نے اس حوالے سے کوئی ذہن نہیں بنایا تھا۔مگر جناب نوازشریف نے جہاز سے اُترتے ہی اپنے ’’مربیوں‘‘ کو اس کی ’’مخبری‘‘ کی کہ آپ کے خلاف اس طرح کے اقدامات اُٹھانے طے ہوئے ہیں۔جنرل ضیاء نے جونیجو کو 29؍مئی 1988ء کو برطرف کردیا ۔روایت ہے کہ بعد میں جنرل ضیاء کو بھی اس اقدام پر پچھتاوا تھا۔
آج نوازشریف جس نظام کے تسلسل کی بات کررہے ہیں اُس کے خلاف وہ کتنی ہی بار سازشوں میں شریک رہے۔ یہاں تک کہ ایک ایک کرکے تمام قد آور سیاسی رہنماؤں کو ٹھکانے لگادیا گیا۔ جونیجو کی برطرفی کے بعد نوازشریف جناب مجید نظامی مرحوم کی خدمت میں تشریف لے گئے تھے اور اپنے آئندہ سیاسی قدم کے متعلق رائے مانگی ۔ مجید نظامی کا مشورہ یہ تھا کہ تمہارے دیانت دارسیاسی لیڈر کوکرپشن کے الزام میں ہٹایا گیا ہے تو تمہیں اگلے بندوبست میں کوئی عہدہ قبول نہ کرنا چاہئے۔ نوازشریف نے فرمایا کہ اگر میں کوئی عہدہ قبول نہ کروں گا تو میری سیاست آج ہی ختم ہوجائے گی۔ وہ دوبارہ وزیراعلیٰ کے منصب کو رونق بخشنے میں لگ گئے۔ آج اُنہیں اُصولی سیاست کی ہوک اُٹھی ہے مگر تاریخ تو کچھ اور ہی کہتی ہے۔کاش نوازشریف کے کنجِ لب سے یہ فقرہ بھی پھوٹے کہ مجھے جونیجو کے خلاف سازشوں میں شریک نہ ہونا چاہئے تھا۔
پھر نوازشریف کا مسلم لیگ سے مسلم لیگ نون تک کا سفر بھی کوئی ایسا خوشگوار نہیں۔محمد خان جونیجو 16مارچ 1993کو انتقال کرگئے۔ ابھی اُن کی قبر کی مٹی گیلی تھی کہ نوازشریف نے جنرل کونسل کا اجلاس (غالباً) اسلام آباد ہوٹل میں بلاکر صدارت پرقبضہ کرلیا۔ اس اجلاس میں لڑائی بھی ہوئی۔ حامد ناصر چٹھہ اس پوری داستان کی ایک زندہ تاریخ ہے۔ نوازشریف کو کیا یہ کرنا چاہئے تھا۔اس فہرست میں بہت سے واقعات آتے ہیں مگر سامنے ایک پوری کتاب محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے کھلی ہے۔ کون ان واقعات کو ایک کالم کے تنگ دامن میں سمیٹ سکتا ہے۔ مگر وہ26؍اکتوبر 1989 ء کی تحریک عدم اعتماد۔ اگرچہ یکم نومبر کو رائے شماری میں یہ 12ووٹوں سے ناکام ہوئی۔ مگر نوازشریف نے اس تحریک میں پنجاب کارڈ چلایا ۔ آج بلوچستان میں نوازشریف کو بے وفائی کاایک زخم لگا ہے۔ تو اُن کے وزیراعظم عزت کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ مگر تب اکبر بگٹی کے ساتھ نوازشریف نے کیا کیا تھا۔عدم اعتماد کی تحریک میں اکبر بگٹی کو استعمال کیا گیا۔اورپھر اُن کے ساتھ وعدے پورے نہ کیے گئے۔ اکبر بگٹی کی نوازشریف کے متعلق رائے کوئی تاریخ کے سپرد کرے گاتو منکشف ہو گا کہ تب نوازشریف نے اُن کے ساتھ کیا ہاتھ کیا تھا۔ 1990کے انتخابات میں بگٹی کے بجائے تاج محمد جمالی کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ بلوچستان میں تب جو کچھ ہوا تھا وہ آج سے کچھ ملتا جلتا ہے۔ معلوم نہیں اس تاریخ پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نوازشریف کی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی طرح ’’عزت افزائی ‘‘ کریں گے یا نہیں۔مگر نوازشریف کو یہ ضرور کہنا چاہئے کہ اُنہیں تب یہ نہیں کرناچاہئے تھا۔
نوازشریف کے لیے ایک اور موضوع 1992 ء کا آپریشن بھی ہے جس میں اُنہیں بہت کچھ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس آپریشن میں بھی نوازشریف نے دُہرا کھیل کھیلا تھا۔ ایک طرف آپریشن شروع کیا اور دوسری طرف بانی متحدہ کو فرار کرادیا۔ عین آپریشن کے ہنگام نوازشریف نے چودھری نثار علی خان اور وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کو بانی متحدہ کی خدمت میں نائن زیرو بھیجا۔جنہوں نے بانی متحدہ کو باور کرایا کہ وہ ملک سے فرار نہ ہوئے تو اُنہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ جنرل آصف جنجوعہ کے نوازشریف سے اختلافات بھی اس مقام پر سامنے آئے تھے۔ اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل(ر) سلیم اللہ یہ پوری کہانی سناتے رہے ہیں۔ کاش چودھری نثار علی خان بھی اپنے حصے کا سچ تاریخ کے سپرد کردیں۔کیا نوازشریف کو یہ کرنا چاہئے تھا؟اس کی ایک قیمت تھی جو بعد میں کراچی چکاتا رہا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں جو صفایا ہواتھا، نوازشریف نے آکر اُن نشانہ باز قاتلوں کو رہا کردیا ۔ تب 70؍کروڑ کی لین دین کی ایک کہانی بھی زیرگردش آئی ۔ شعیب سڈل نے اس حوالے سے ایک دوبار اپنی زبان بھی کھولی ہے۔ بعدازاں گرفتار کرنے والے تمام کے تمام پولیس
افسران ایک ایک کرکے قتل کردیے گئے۔آج یہ خون نوازشریف کی آستین سے بھی ٹپکتا صاف دِکھتا ہے۔نوازشریف کو اب یہ اعتراف بھی کرلینا چاہئے کہ اُنہیں یہ سب نہیں کرناچاہئے تھا۔
وہ شریف النفس سیاست دان ایک ملال کے ساتھ اپنی قبر میں اُترا ۔نواب زادہ نصراللہ خان نے 12؍اکتوبر 1999ء کے بعد اتحادبرائے بحالی ٔ جمہوریت (اے آر ڈی)میں بے نظیربھٹو اور نوازشریف کو اکٹھا کیا۔ مگر اس اتحاد کے مقاصد سے نوازشریف نے انحراف کیا۔ تب مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان نے وہ مشہور فقرہ کہا تھاجو تاریخ میں نوازشریف کی تفہیم کے لیے دائم ایک حوالہ رہے گا کہ زندگی میں پہلی دفعہ سیاست دان کے بجائے ایک تاجر سے معاملہ کیا اور نقصان اُٹھایا۔نوازشریف نے درست کہا کہ اُنہیں میمو گیٹ سے دور رہنا چاہئے تھا۔ مگر وہ اپنی تاریخ سے کیسے دور ہوسکتے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے کیسے دور ہوسکتے ہیں۔ پان افریقن ازم کے سیاہ فام رہنما مارکس گریوی( Marcus Garvey )نے ماضی کے بار ے میں ایک زبردست بات کہہ رکھی ہے کہ
A people without the knowledge of their past history, origin and culture is like a tree without roots.
’’اپنے ماضی کی تاریخ ، اصل اور ثقافت سے ناواقف شخص بغیر جڑ کے درخت کی طرح ہے‘‘۔
نوازشریف کو اور کیا کیا نہیں کرنا چاہئے تھا،اگر وہ اپنی تاریخ، اصل اور سیاسی ثقافت کو دھیان میں رکھیںتو کسی دن احساس ہو کہ اُنہیں یہ موضوع چھیڑنا ہی نہیں چاہئے تھا۔