وجود

... loading ...

وجود

بدنصیب قوم کے مسیحا…جرنیل، جسٹس، سیاستدان؟

بدھ 28 مارچ 2018 بدنصیب قوم کے مسیحا…جرنیل، جسٹس، سیاستدان؟

جب حکمران اشرافیہ خود کرپٹ ترین ہو جب انصاف غریب کی پہنچ سے دور ہو۔ ایسے میں روزگار، صحت، تعلیم کی سہولتیں خواب خیال ہوں گی۔ جہاں انصاف بکتا ہو۔ جہاں حق لینے والوں کو جاں سے گزر جانا پڑے۔جس معاشرے کے مذہبی پیشوا حکمرانوں کے حاشیہ بردار ہوں۔ جہاں مذہب کا نام گندی سیاست کے ٹھیکے داروں کے حق میں استعمال ہوتا ہو۔حکمران اشرافیہ مافیاز کا روپ دھار چکے ہوں۔منافقت، ہوس حکمران اشرافیہ کا امتیازی نشان بن چکا ہو۔اِن حالات میں قوم ہر لمحے کسی مسیحا کی تلاش میں رہتی ہے۔حکمران اشرافیہ کی حیثیت ایک ایسے قبضہ گروپ کی بن چکی ہوتی ہے کہ ہر ہر وہ شخص جو ملک کی حالت سنوارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ایسا شخص جو قوم کے دل کی آواز بننے کی کی تگ وتاز میں ہو حکمران مافیاء ایسے شخص کے خلاف اِس بہیودگی کے ساتھ پراپیگنڈا کرتا ہے کہ اُسے غدار تک کہہ دیا جاتا ہے۔ یوں ہر ہر اُس شخص کے خلاف حکمران مافیاء مہم جوئی کرتا ہے۔ جو کسی بھی وقت اُن کے اقتدار کے لیے خطرہ بنا سکتا ہو۔پاکستانی قوم مذہب کے حوالے سے بہت حساس ہے اِس لیے جینوین مذہبی رہنمائوں کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی یہ حکمران اُنھیں اپنی جلو میں لے لیتے ہیں اور اُن کو مالی طور پر کرپٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنہیں زمین دیتے ہیں کہ وہ مدرسہ بنائیں اُن کے لیکچرز کا اہتما م کرتے ہیں تاکہ اُن کو مذہبی معاملات میں لگائے رکھیں اور اُن کی حکمرانی بلکہ سکھا شاہی سے وہ مذہبی رہنماء صرف نظر رکھیں۔ پاکستان میں یہی کچھ پچھلی سات دہائیوں سے ہوتا آرہا ہے۔

قائد اعظمؒ کی وفات اورلیاقت علی خانؒ کی شہادت کے بعد ملک کو غلام محمد، سکندر مرزا جیسے حکمرانوں نے اپنی انانیت کی بھینت چڑھادیا۔یوں مارشل کی راہ ہموار ہوئی ایوب خان نے جب اقتدار سنبھالا تو جمہور نے یہ سمجھا کہ جس مسیحا ء کا انتظار تھا اُس کا ظہور ہوگیا ہے۔ اِسی ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خلاف خوب مہم چلائی ۔ اِس دوران بھٹو کی دبنگ انٹری کے باوجود ملک کے خلاف بھارتی سازشوں کا مقابلہ نہ کیا جا سکا۔ یوں ایوب خان کے بعد بھٹو نے عوام کے دل کی بات کرکے عوام کے جذبات کو خوب اُبھارہا۔ لیکن بھارت نے مکتی با ہنی کے بھیس کی آڑ میںمشرقی پاکستان کو علیحدہ کردیا۔یہ وہ زخم ہے جس کا درد قوم کو گھائل کر گیا۔ لیکن پاکستان میں حکمرانی کے انداز نہ بدلے ۔ بھٹو کی انقلابی سوچ کا گلا گھونٹنے کے لیے پھر ایک مارشل لاء لگادیا گیا۔ یوں جنرل ضیاء نے ا قتدار سنبھال لیا۔ قوم نے جنرل ضیاء کو بھی کوئی مسیحا قسم کی شخصیت سمجھ لیا۔ اِس دور میں روس افغانستان میں چڑھائی کیے ہوئے تھا۔ پاکستان اُس وقت اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہا تھا اُس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا حاشیہ بردار بن کر دوسری سپر طاقت کو شکست دینے پر بھی مامور تھا۔روس کی شکست وریخت کے بعد عالمی طالع آزمائوں نے ضیاء کو بھی راستے سے ہٹا دیا۔ ضیاء نے جونیجو اور نواز شریف کو اپنے ساتھ حکمرانی کا مزا چھکایا۔ جونیجو کو تو کھڈئے لائن لگا دیا گیا لیکن نواز شریف نے ضیاء کی مہربانیوں کا حقِ نمک ادا کیا۔ یوں ضیا دور میں 1985 میں نواز شریف کی آمد سے لے کر اب تک گذشتہ تیتیس سالوں سے ملک نواز شریف کی حکمرانی میں ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی دو مرتبہ وزیر اعظم رہیں۔

درمیان میں مشرف کا دس سال دور بھی مسیحائی کا نعرہ بلند کرکے وارد ہوا لیکن نواز شریف کو جلاوطن کرکے مشرف نے غیر مقبول سیاسی قوتوںکو ساتھ ملا کر اپنا اقتدار کا وقت پورا کیا۔نواز شریف بے نظیر بھٹو ملک کی خوشحالی کے لیے جمہور کی قسمت نہ بدل سکے۔نواز شریف اور بے نظیر کے سیاسی وارث زرداری کے ہوتے ہوئے عمران خان ملکی سیاست میں فعال ہوئے ہیں پوری قوم خصوصاً نوجوانوں نے عمران خان سے بہت سی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔پاکستانی سیاست میں شاہ احمد نورانیؒ مفتی محمود اور جماعت اسلامی کی سیاست بھی ہوئی۔ طاہر القادری بھی میدان سیاست میں ہیں۔ لیکن اُن کے دو درجن سے زائد کارکنان کو لہو میں نہادیا گیا بینظیر کو شہید کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان ہماری سیاست کا ایک انتہائی عجیب کردار ہیں وہ ہر حکمران کے ساتھ آرام محسوس کرتے ہیں وہ بیک وقت زرداری، مشرف، نواز شریف اور مرحومہ ق لیگ کے ساتھ ایسے دھاگے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں کہ پاکستانی عوام میں اُن کا ایک خاص مقام بن چکا ہے مشرف دور میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سے محاذآرائی سے عدلیہ ایکٹیو ہوئی اب جبکہ کے نواز شریف کو نا اہل کردیا گیا ہے موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار مسیحا کا روپ دھارے ہوئے ہیں پوری قوم جناب چیف جسٹس کی جانب دیکھ رہی ہے۔

غربت کے چنگل میں پھنسی لاچار قوم کو ہر آنے والا رہنماء مسیحا ء دیکھائی دیتا ہے لیکن بعد ازاں وہ مسیحاء راہزن کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں مذہب کو بطور آلہ ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے ختم نبوتﷺ کے قانون پر ڈاکہ زنی کی۔ ملک میں افرا تفری پھیل گئی۔ یوں تحریک لبیک جو کہ خادم حسین رضوی کی جماعت ہے نے ختم نبوتﷺ کے حوالے بھرپور تحریک چلائی اور دو ہزار سترہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک لبیک نے اچھا خاصا ووٹ لیا۔ جماعت اسلامی کا گراف بُری طرح نیچے آگیا ہے۔نواز شریف نے ہمیشہ رائٹ کی سیاست کی لیکن اِس دور حکومت میں جس بُری طرح مذہبی طبقے کو مایوس کیا اِس کا اُس کو آئندہ عام الیکشن بھی اچھا خاصا نقصان ہو سکتا ہے۔ نواز شریف ، عمران خان، احسن اقبال جلسوں میں جوتے کھا رہے ہیں ۔ خواجہ آصف کے منہ پر تو سیاہی پھینکی گئی۔ یوں موجودہ حالات میں قوم پھر سے کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔ ہماری قوم بے چاری کب تک مسیحاوں کا منتظر رہی گی۔ بدنصیب قوم کبھی جرنیل کو کبھی چیف جسٹس کو اور کبھی سیاستدانوں کا اپنا مسیحا سمجھتی ہے لیکن حضرت قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ہنوز قوم کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔ امید قائم رکھنی چاہیے ۔ مایوسی گناہ ہے۔ پاکستان زندہ آباد۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر