... loading ...
محترمہ مریم نواز صاحبہ نے جذبات کی رومیں بہتے ہوئے جلسہ عام میںعوام کا جم غفیر دیکھ کر(واضح رہے کہ جلسوں میں عوام کو ڈھیروں مال خرچ کرکے اور مقامی عہدیداروں و انتخابی ٹکٹیں حاصل کرنے کے خواہشمند افرادنے جمع کیا ہوتا ہے ) کہہ ڈالاکہ جیل بھرو تحریک شروع کی جائے گی اور چیف جسٹس سے مخاطب ہو کر یہاں تک فرما ڈا لا کہ تو ہین عدالت کے نوٹسوں سے کچھ نہیں بگڑے گادر اصل ملک کا سیاسی نظام چوں چوں کا مربہ بنااس گندے جوہڑ کا روپ دھار چکا ہے جس میں71سالوں سے کھڑا پانی بھی سخت بدبودار ہوگیا ہے۔
جب قائد اعظم زندہ تھے تو مسلم لیگ میں کیمونسٹوں ،سیکولرسٹوں ،جاگیرداروں ،کرپٹ وڈیروں نے ایساڈیرہ جمایا کہ آج تک وہ یاان کی اولادیں بھی اسمبلیوں میں براجمان نظر آتی ہیں خود قائد نے انہیں کھوٹے سکے قرار دیا تھابیشک اس میں بڑا قصور تو نام نہاد لادین و سیکولر ڈیمو کریسی کا ہی ہے کہ ان پڑھ اور اجڈ کا بھی ایک ووٹ ہے اور پڑھے لکھے حتیٰ کہ پی ایچ ڈی کا بھی ایک ہی ووٹ ہے اس لیے آج تک افرا تفری کے مفاد پرستانہ ماحول کے مطابق روپے پیسے کا کھیل کُھل کر کھیلا جارہا ہے باکردار باصلاحیت سیاسی راہنمایان سید ابو الاعلیٰ مودودی مولانا مفتی محمود الشاہ احمد نورانی ،ذوالفقار علی بھٹو ولی خان ،نوابزادہ نصراللہ خان،قاضی حسین احمد، علامہ احسان الٰہی ظہیر کے پائے کاایک بھی لیڈر چراغ لیکر ڈھونڈے سے نہ ملے گا ۔
اب تودرجنوں ایکڑوں پر مشتمل ذاتی محلات کے مالکان آصف زرداری ،نواز شریف اور عمران خان سے واسطہ آن پڑا ہے میلے کچیلے ہاتھوں اور ٹوٹے پھوٹے کپڑے پہنے مزدوروں کسانوں حتیٰ کہ ورکروں کا بھی ان کے محلات کے قریب جانا محال ہے اور کارکن ٹائپ نعرے باز ساتھی صرف دریاں بچھانے جلسے جلوسوں کی پبلسٹی کرنے اور پوسٹرز و فلیکس ہی آویزاں کرسکتے ہیں جس کا کبھی کبھار صلہ انہیں پارٹی کے اقتدار کے دوران کسی سرکاری تعمیراتی ٹھیکہ کی صورت میں مل سکتا ہے سیانے لوگ نقد مال انتخابات کے دوران ہی مختلف حیلے بہانوں سے وصول فرمالیتے ہیں رہی لیڈر شپ سے ان کی ملاقات تو جہاں ن لیگیے وزراء ممبران اسمبلی تک کی رسائی نام نہاد خادم اعلیٰ اور پارٹی قائد سے ممکن نہ ہے تو پھر کون ان کا حال احوال جان سکے گا بس مار دھاڑکا سلسہ چل نکلا ہے راہنمایان گالی گلوچ اور جذباتی اداکاریوں سے کارکنوں کو بڑھکائے رکھتے ہیںاور وہ بھی جس کا دائو لگے مال لے اڑتا ہے زرداری نواز شریف کچھ زیادہ سیانے نکلے کہ وہ اربوں ڈالرز سمیٹ کر بالترتیب ملک کے دوسرے اور چوتھے بڑے سرمایہ دار بن چکے اب کھربوں کو وہ جہاں چاہیں خرچ کرتے پھریںوہ انہیں سینیٹ یا عام انتخابات میں ووٹوں کی بندر بانٹ یا خرید و فروخت میں جھونک ڈالیں بلوچستان میں پی پی پی کا ایک بھی ممبر صوبہ میں نہ ہونے کے باوجود اس طرح تین چار سنیٹر کو منتخب کروانے کے دعوے کرتے پھریں تو زرداری وغیرہ کو کون منع کرسکتا ہے؟ ۔
سبھی بڑی پارٹیوں میں اب بھی نو دولتیے سود خور سرمایہ داروں ظالم وڈیروں اور ڈھیروں ناجائز منافع خور صنعتکاروں کا قبضہ ہے جو کہ سیاسی حمام میںالف ننگے اکٹھے نہانے اور ایکدوسرے سے برتری لے جانے میں بھی عار نہیں سمجھتے بس انہیں تو مقتدر ہوجانے کے لیے ممبران کی جیت کا سامان کرنا ہے خواہ پورے انتخابی حلقوں کے ووٹروں کو کیوں نہ خریدنا پڑجائے ؟جب جیتنا ہی علاقائی وڈیرے اور ظالم صنعتکار نے ہے تو پھر ان کی جیب تراشی ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی وہ کیوں نہ کریں؟کہ ازاں بعد تو ان منتخب افراد نے مزدوروں تک کا خون شرابوں میں ملا کر بھی ساری خرچ کردہ رقوم بشمول منافع چند ماہ ہی میں وصول کر لینی ہیں ایسی گھمبیر صورتحال میں کون جیلیں بھرے گا یہ کوئی کیمونسٹ پارٹی ،جماعت اسلامی ٹائپ نظریاتی جماعتوں کے کارکن تو نہ ہیںجوورکر کے زخمی ہونے یا جیل جانے پراس کی ضروریات کا مکمل خیال رکھا کرتی تھی اب تو اپنے کارکنوں کو جان بوجھ کر “شہید”کروا کرسیاسی فائدہ اٹھانے والی لیڈر شپ موجود ہے ۔
اورجان سے گزر گئے افرادکے خاندان کسمپرسی کے عالم میںبقیہ زندگی گزارنے پر مجبور رہ جاتے ہیںاور ان کی شہداء کی وجہ سے نام نہاد سیاست مزید چمک پڑتی ہے مگر خدا دیکھ رہا ہے کہ وہی منصف اعلیٰ ہے نہ تو بیچارے کارکنوں کے قاتل سزاپانے کے مستوجب ہوتے ہیں اور نہ ہی ظالم حکمران اپنے انجام کو پہنچتے ہیں اب کارکن آئندہ کیوں جیلیں بھریں گے ؟وہ کیوں نہ اپنی جیبیں بھریں؟ کہ ان کے لیڈر بھی تو اسی کام کے ایکسپرٹ ہیں،کئی وکی وپانامہ لیکس اور بیرون ممالک پلازوں میںحرام دھن کی رقوم دفن پڑی ہیںبابا رحمتے صاحب اصل ناجائز طور پر بیرون ملک جمع کالا دھن واپس منگوائیںصرف پکڑ دھکڑ سے تو سیاسی دوکانداریاں اکثر اوقات مزید چمک جایا کرتی ہیں بنگلہ بدھو مجیب الرحمٰن جیلوں میں رہ کر ایسے لیڈر بنا کہ پورا بنگلہ دیش اس کے اشاروں پر ناچنے لگ پڑا تھا اقتدار کے طالب سیاسی پرندے تو “لوٹابنے “فوراً ہی نئی منڈھیر پر جا بیٹھتے ہیں ۔
سیاسی لڑائی جھگڑوں میں تو تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے کی طرح لیڈروں نے مخالفین کے مختلف غلیظ القابات رکھ کر اپنے کارکنوں کو بڑھکا رکھا ہو تا ہے اور کچھ سٹیٹ مشینری بھی زہریلی ناگن کی طرح پھنکارتی ہوئی ان پر پل پڑتی ہے اور کبھی کبھار تو خود ہی آپس میں تھپڑ مکوں ڈنڈوں گولیوں سے اپنا “سیاسی شوق”پورا فرما لیتے ہیں ڈالر کی اونچی پرواز سے معیشت ابتر ہو چکی سوئس اکائونٹس سرے محل وکی وپانامہ لیکس جیسے بڑے کھابوں کی رقوم باہر سے منگوائی جائیں تبھی ان نام نہاد سیاستدانوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا عمران خان ٹائپ لیڈر بھی کرپشن میں لتھڑے ہوئے مقتدر رہے سیاسی چہروں کو اپنے ہاں پناہ دیکر خود کو ہی بڑا مجرم ثابت نہ کریں آئین توڑنے والا غدار مشرف ادا کارائوں کو بغل میں لیے پھرتا رہے اور ایم کیو ایم قائد لندن میں راء کی ایجنٹی کے ذریعے اربوں مال جمع کیے بیٹھا ہو تو پھر بابا رحمتا صاحب یہ سب کہانیاں ہیں۔