وجود

... loading ...

وجود

چہ ارزاں فروختند

جمعرات 22 مارچ 2018 چہ ارزاں فروختند

تمام بڑے محکمہ جات پرائیویٹائزکیے جا چکے ہیں “قومے فروختندو چہ ارزاں فروختند “کے مصداق دفاعی نقطہ نظر سے بھی بہت ہی ضروری اور اہم ادارے تک عملاً فروخت کیے جا چکے ہیں محکمہ ٹیلی فون عربی ممالک کی ایک کمپنی اتصالات کے حوالے کیا جا چکا۔راوی بتاتے ہیں کہ اس کو حوالے کرنے کے باوجود اس میں50فیصد سے زائد کی ملکیت حکمرانوں اور ان کے رشتہ دار و دوست احباب کے پاس ہے منافع میں حصہ علیحدہ ہے یعنی نام تو اتصالات کا چل رہا ہے مگر انڈر ہینڈ یعنی خفیہ طور پر ہمارے “مہربان “حصہ دار ہیں اور ہماری ہمہ قسم بچتوں کی رقوم فارن بنک اکائونٹس میں جمع ہوجاتی ہیں اسی لیے تو جن رقوم کے عوض اتصالات کو ان کا قبضہ دیا گیا ہے اس سے تین گنا آمدنی تو صرف ٹیلی کمیونیکیشن کے ذریعے مل جاتی تھی اور کروڑوں اربوں روپے کی عمارات اور محکمہ کی زمینیں اس کے علاوہ ہیںجو غالباً مفت میں کمپنی کو دی گئی ہیں۔کوئی ڈھکی چھپی بات نہ ہے اور نہ اب راز کہ کم وبیش ایک ار ب ڈالرز تو اتصالات نے محکمہ کی “وصولی”کے وقت سے آج تک پاکستانی حکمرانوں کودیے ہی نہیں ہیں۔

2006 میں سودا ہوا اور اب تک83ارب کی وصولی نہیں ہوسکی اس کا سود ہی کم ازکم 12ارب روپے سالانہ بنتا ہے کم ازکم یہ رقوم پہلے زرداری اور اب شریفوں کے اکائونٹس میں تو لازماً کمپنی جمع کروارہی ہو گی۔ محکمہ کے اندر بھی سودا ہونے سے آج تک سخت افرا تفری مچی ہوئی ہے ۔ملازمین حکمرانوں کی بیوقوفیوں پر خون کے آنسو رورہے ہیں ۔ زبردستی نکالے و دیگر ریٹائرڈ ملازمین میں سے تومعدودے چند کوپنشن کی ادائیگی ہوتی ہے وہ بھی جو اپروچ کرے اور تقریباً1/3حصہ پنشن کامتعلقہ “صاحب بہادروں ” کے حوالے کرنے پر تیار ہوجو گولڈن ہینڈ شیک دیکر وقت سے پہلے زبردستی ریٹائرڈ کردیے گئے ہیں وہ سخت پریشانی کے عالم میںزندگی گزارنے پر مجبور محض ہیں کہ کوئی آنسو پوچھنے والا تک نہ ہے۔وہ لنڈورے بنے ہوئے ہیں اور”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں”ٹیلی فون کے ملازمین اور مزدوروں کی یونینوں کے اہم عہدیدار اور سر پھرے لیڈروں کو کبھی کا محکمہ سے دفع دور کر ڈالا گیاہے وہ مزدوروں کے مسائل پر اب ان کے ساتھ رابطہ تک بھی نہیں کرسکتے۔

تمام دفاتر پر مسلح پہرے دار موجود ہیں اور راہنمائوں کا گیٹ پاس مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔حتیٰ کہ وہ دفاتر کے اندر کسی ذاتی کام کے لیے بھی نہیں جاسکتے جب تک اوپر والوں کی اجازت نہ ہو۔اور ان کی آشیر باد حاصل کرنا چاند پر پہنچ جانے کی طرح مشکل ترین ہے یعنی رابطے مکمل کٹ چکے ہیں۔ مکمل نو لفٹ کا عمل شروع ہے۔صرف وہی افسران اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔جو کمپنی کے مکمل ” جی حضوریے” ہیں۔اور مکمل و غیر مشروط تابعداری کی ہسٹری رکھتے ہیںمحکمہ سے نصف سے زائد ویسے ہی فالتو ملازم قرار دیکر نکالے جا چکے ہیں اور عوام”تنگ آمد بجنگ آمد “کی طرح فون ہی کٹوا تے رہتے ہیں کہ کیسی ہی معمولی خرابی کیوں نہ ہو ہفتوں تک اس کی مرمت و درستگی پر توجہ تک نہیں دی جاتی ۔یعنی سروس معطل ہو بھی تو مقررہ بل ماہانہ آتا رہتا ہے کہ لائن مین سٹاف اور جو کچھ مکینک قسم کے لوگ تھے ان میں سے بھی ساٹھ فیصد سے زائد کو محکمہ سے نکال ڈالا گیا۔پھر ہمارے حکمرانوں کی اس سے بڑی احمقانہ سوچ اور کیا ہوگی؟کہ فون تو تمام حکمرانوں اور افسروں کے حتیٰ کہ پولیس رینجرز اور افواج پاکستان کے سبھی افراد بالخصوص آرمی جنرل تک کے پاس رابطہ کے لیے پی ٹی سی ایل کے نمبرز لگے ہوئے ہیں اور ہمہ قسم سیکورٹی ہر وقت لیک ہورہی ہے جو کہ سیکورٹی فورسز کے لیے سخت نقصان دہ نہیں بلکہ مہلک ہے۔

ایسی صورت جب چاروں طرف سے ملک دشمنوں سے گھرے ہوئے پاک وطن کے لیے سخت الارمنگ پوزیشن ہے اور ہماری دفاعی فورسز حتیٰ کہ ایٹمی تنصیبات پر لگے ہوئے فون بھی بیرونی کمپنی کی ملکیت میں جا چکے ہیں تو یوں سمجھو کہ ہمہ قسم معلومات ان کے پاس جمع ہورہی ہیںاگر کوئی ملک دشمن شخص یا کوئی بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ چند فون ملازمین کوخرید لے تو وہ ہماری خفیہ معلومات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے فون ٹیپ کرکے ہمیں سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔رقوم کی ادائیگی کے حوالے سے 10سال سے زائد عرصے سے تنازعات جاری ہیں۔کمپنی یہاں کے عوام سے مہنگی ترین مخصوص سہولیات انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعے بھاری رقوم وصول کرکے بیرون ممالک اپنے ذاتی اکائونٹس میں جمع کرواتی جارہی ہے۔

ٹیلی فون کی پرائیویٹائزیشن (جو کہ در اصل فروختگی ہی کادکھاوے اور دھوکے کانام ہے)اور جو رقوم کی ادائیگی طے پائی تھی اس کا ابھی تک1/4 حصہ بھی ادا نہیں ہوا۔واضح رہے کہ یہی ٹیلی کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ(محکمہ ٹیلی فون )تھاجو عرصہ درازسے ہمارے بجٹ کا1/3 حصہ پورا کر رہا تھا۔ جس سے ہم مکمل طور پر محروم ہو گئے ہیں اسلامی بھائی چارے کی خصوصی وجوہات کی بنا پر ہم ایسی عربی کمپنی کے خلاف کوئی ایسی ویسی کاروائی یا عدالتی احکامات بھی حاصل نہیں کرسکتے غرضیکہ ہم وہ پہلوان بن چکے ہیں جس کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے اکھاڑے میں پھینک دیا گیاہو۔اس طرح ہم چاروں شانے چت پڑے ہیں حتیٰ کہ زر مبادلہ کے ضیاع پر ہمیں چیخ و پکار کی بھی اجازت نہیں ہے۔

ہمارے ہاں پہلے ہی بیروزگاری کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لیتا کہ10سالوں میں ہزارو ں ملازمین کو”اتصالات “نے محکمہ فون سے نکال کر گھر کی راہ دکھادی ہے ہماری ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہو چکی ڈالرایوبی دور میں چار روپے اور اب114روپے کے اردگردگھوم رہا ہے۔ہم پہلے ہی سود در سود کے تحت کھربوں کے مقروض ہو چکے قرض کی قسطیں کیسے ادا ہوں گی؟مزید قرضہ ادھر ادھر سے بھاری سود پر لینا ہوگاکہ پہلے ہی ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہو چکامگر عیش و عشرت کرتے ہوئے حکمران اپنی من مرضیاں کرتے ہوئے ایسے پراجیکٹ تیار کرتے ہیں جن کی کک بیک سے کسی نئی بیرونی لیکس میں رقوم جمع ہوتی رہیںخدا دیکھ رہا ہے!! کمزور طبقات کی محرومیوں کو دیکھ کر خدائی فیصلہ بھی جلد آئے گا!!


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر