... loading ...
جمعیت علمائے اسلام ف خود کوبر صغیر پاک و ہند کی بڑی با برکت اور بزرگ ہستیوں ،راست عقیدے،افکار و نظریات، جہد اور عظمت و ایثارکی امین و تسلسل سمجھتی ہے ۔ شیخ والہند مولانا محمود الحسن ہوں یا مولانا قاسم نانوتوی یا مولانا رشید احمد گنگوہی اور اس صف میں آگے پیچھے کئی نا بغہ روزگار علماء و مصلحین نے اپنے علم و فضل سے بر صغیر کے طول وعرض اور افغانستان تک مسلمانوں کو ایک ولولہ ِتازہ دیا ۔ ان میں حریت اور استقلال کا جذبہ راسخ کیا۔میرے مرحوم والد محترم جب بھی ان بزرگوں کا ذکر کرتے تو بھیگی آنکھوں سے کرتے۔اگر جے یو آئی اس قدر عظیم اور د نیاوی اغراض سے پاک بزرگوں کا وارث خود کو سمجھتی ہے تو ضروری ہے کہ یہ صفات و کمالات ان کے گفتار کے ساتھ ساتھ کردار میں بھی عیاں ہوں ۔مجھے بے حد افسوس ہوتا ہے کہ جب جے یو آئی کا تذکرہ اسلاف کے کارناموں ، عہدو پیمان اور راست گوئی کے بر عکس ہو۔ تین مارچ کے سینیٹ انتخابات میں جے یو آئی بلوچستان کے ارکان اسمبلی پر شبہات ظاہر ہوئے۔ ما بعد تیرہ مارچ کو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں دوسری جماعتوں کے ساتھ ساتھ جے یو آئی پر پھر انگشت نمائی ہوئی۔ رہنمائوں کو میڈیا پر جوابی دلائل اور وضاحتیں پیش کرنا پڑیں۔ بلوچستان میں حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے جس طرح حکومت کا حصہ بنی ، سے اس کے کردار پر سوالات اُ ٹھے ہیں۔ کیا جے یو آئی دروغ گوئی،فریب،بد عنوانی اور مروجہ گندی سیاست کا حصہ بنے گی ؟ ۔ بلاشبہ جے یو آئی کے ہزاروں لاکھوں دین دار کارکنوں کو نصب العین اور منزل چاہیے ۔
یہ مسجد ہے ،یہ میخانہ،تعجب اس پہ آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
گویا اس تاثر کو دور کر دینا چاہئے۔یقینی طور پر جے یو آئی کے کارکن ہی بہترین اور کڑا احتساب کر سکتے ہیں۔پندرہ مارچ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پشتونخوا میپ اور اے این پی کے ِاکلوتے رکن انجینئر زمرک کے درمیان ہنگامہ بپاہوا ۔، پشتونخوا میپ کے عبدالرحیم زیارتوال نیشنل پارٹی کے اتحا د سے قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے۔ مولانا عبدالواسع راندہ درگاہ کر دئیے گئے ۔ ویسے بھی مولانا کو حزب اختلاف کی قیادت کی ضرورت نہ رہی کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے بعد اپنے مقصد تک پہنچ گئے۔ عبدالقدوس بزنجو اینڈ کمپنی نے ان کی شرائط پوری کر دی ہیں۔ہاں تو عبدالرحیم زیارتوال نے حکومت گرانا اور سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کی بات کی ، آصف علی زرداری اور اُن کے ڈیل میکر قیوم سومرو پر نقد کیا۔ اس پر انجینئر زمرک اچکزئی نہ جانے کیوں چیں بجبیں ہوئے۔ جیسے عبدالرحیم زیارتوال نے ہارس ٹریڈنگ کا الزام اُن پر لگایا ہو؟۔ اس طرح اسمبلی میں ماحول کافی دیر تک بد مزہ رہا۔ اب اس حقیقت کو کیسے جھٹلایا جائے کہ بلوچستان میں حکومت کی اتھل پتھل میں آصف علی زرداری کا نادیدہ ہاتھ شامل رہا ہے ۔جس نے مسلم لیگ نواز کو بے نواز کر دیا اور ایسا ہی کھیل سینیٹ کے الیکشن میں کھیلا گیااور پھر سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں صادق سنجرانی کو حیرت انگیز طور پر کامیاب کرایا۔ یقینا اس چال میں زرداری تنہا نہیں تھے، انہیں زبرست کمک حاصل تھی۔ میں یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ صادق سنجرانی کا آصف علی زرداری یا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی سینیٹ میں اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔سینیٹ الیکشن میں بلوچستان میں وہ ارکان جو ن لیگ سے وابستہ بتائے جاتے تھے نے بھی پارٹی قیادت کو درخور اعتنا نہ سمجھابشمول نواب ثناء اللہ زہری کے۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت بلوچستان اسمبلی میں اگر کوئی پکا نواز لیگی ہے تو وہ دُر محمد ناصر ہیں جو سینیٹریعقوب خان ناصر کے بھتیجے ہیں۔ الغرض انجینئر زمرک خان اچکزئی کو مشتعل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پشتونخوا میپ تو غصے کا اظہار کرے گی ہی کہ اُن سے پوری حکومت چھین لی گئی ہے اور اب ان کے رہنمائوں پر ژوب، قلعہ سیف اللہ ، خانوزئی اور کوئٹہ میں تقاریر کے نتیجے میں عوام کو اُکسانے کے الزام کے تحت مقدمات بھی درج کر لیے گئے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے بعض لوگ بھی نامزد ہیں۔ ایسا اس لیے کہ ان رہنمائوں نے منظور پشتین کی پشتون تحفظ تحریک کے جلسوں میں سخت تقاریر کی ہیں۔ یہ منظور پشتین فروری2018ء کے اسلام آباد دھرنے کے انعقاد کے بعد معروف ہوئے۔ یہ احتجاج ایس پی رائو انوار کے ہاتھوں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کے لواحقین کو انصاف دلانے ، فاٹا میں بارودی سرنگوں کی صفائی ، آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی دوبارہ آبادی کاری اور بحالی اور وہاں کے عوام کو تحفظ اسی طرح ماورائے عدالت گرفتاریوں اور دیگر اقدامات کے خلاف تھا۔
حکومت کی یقینی دہانی پر احتجاج مؤخر ہوا ۔جس پر اس نوجوان نے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں عوامی رابطہ مہم جاری رکھی ۔ بلوچستان کے پشتون علاقوں کا رُخ کیا ان کے جلسوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن شریک ہوئے البتہ پشتونخوا میپ در حقیقت تمام انتظامات کی پُشت پر تھی۔ پشتونخوا میپ کی کارکنوں کی شرکت ہی کی وجہ سے بڑے بڑے عوامی اجتماعات کا انعقاد ہو سکا ہے ۔ کوئٹہ کا صادق شہید فٹبال گرائونڈ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ خواتین کی بھی ہر جگہ شمولیت دیکھی گئی ۔ پشتون تحفظ تحریک کے مطالبات غیر قانونی ہرگز نہیں۔البتہ اسلام آباد دھرنا اسی طرح ژوب ،قلعہ سیف اللہ اور کوئٹہ کے جلسوں میں ایسے نعرے بلند کیے گئے جو ریاست اور فیڈریشن کے مفاد کے خلاف تھے ۔ ایسے نعروں سے احتراز ہونا چاہئے تھا۔ ا نہی نعروں کے پیش نظر کہیں پشتون کلچر ڈے کا انعقاد کرانے کی کو شش کی گئی تو کہیں تھری جی کنکشن منقطع رہا۔ بلا شبہ آئین اور قانون کے راستے احتجاج کا ہر انداز اپنانا چاہئے ۔تاہم اس طرز کے نعرے پشتون عوام کے مفاد میں بالکل نہیں ۔ میں نہیں جانتا کہ منظور پشتین کا خاندان اور سیاسی و قبائلی پس منظر کیا ہے ۔ یہ مشور ہ دینا البتہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے جائز مطالبات کی قبولیت کیلیے کسی کے ہاتھوں کھلونا نہ بنیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں خاص کر بھارت پاکستان کے خلاف تخریب اور شرارت ہی کیلیے بیٹھا ہے ۔ حیرت ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے بھی تہنیتی ٹویٹ کیا ہے لہٰذا منظور پشتین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ رہنمائوں پر قائم مقدمات اُٹھا لینے چاہئیں۔ اشتعال اور نفرت کی فضاء کی بجائے افہام و تفہیم کی صورتحال بنانے کی سعی ہونی چاہئے یہ بھی یاد رہے کہ ریاست کیخلاف کوئی بھی بیانیہ قابل گرفت ہے اوراگر ایسی کوئی سوچ اور طرز عمل پایا بھی جاتا ہو تو اس کے توڑ کیلیے معاشرے کے با وقار ، صاحب حیثیت افراد جماعتوں اور تنظیموں کا موقف آنا چاہئے ایروں غیروں کے ذریعے جواب سے حکومت اور اداروں کی کمزوری ظاہر ہوگی المیہ یہ ہے کہ یہاں حکومتیں اسی حکمت و بصیرت کے ساتھ حوالے کر دی جاتی ہیں ۔ قیادت کا مصنوعی ماحول بنا کر عوام کی توجہ مبذول کرانے کی سعی کی جاتی ہے کہ وہ ان کو ہی’’ شہباز ‘‘تسلیم کر لیں ویسے بھی خوشامدی لوگوں ، حلقوں اور طبقوں کی کمی نہیں۔ اسی لیے تو شاعر نے کہا ہے کہ
کرتُوبھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور نیا، اور نئے دور کا آغاز
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز !