وجود

... loading ...

وجود

متناسب انتخابی نظام ۔۔۔۔۔ موجود حالات کا تقاضا

اتوار 11 مارچ 2018 متناسب انتخابی نظام ۔۔۔۔۔ موجود حالات کا تقاضا

حالیہ سینیٹ الیکشن نے جس طرح سے لوٹ مار کی سیاست کا شور مچایا ہے اور سیاستدان بشمول عمران خان جو تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے اور ن لیگ زرداری سب پارٹیاں ووٹوں کی خرید فرو خت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے کوشاں رہیں اور سینیٹ کے چیئرمین کے لیے بھی یہ گھنائونا کھیل جاری ہے۔ جس انداز میںپاکستان کے ایوان بالا کے ممبران کے چنائو کے لیے گندا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ یقینی طور پر پاکستانی نوجوان نسل کو سیاست دان مایوس کر رہے ہیں۔ آئیے متناسب نمائندگی کے نظام پر بات کرتے ہیں۔

متناسب نمائندگی کا نظریہ ایک ایسے ووٹنگ سسٹم پر مبنی انتخابی نظام ہے جس میں اسمبلی یا کونسل کو منتخب کیا جا تا ہے۔متناسب نمائندگی سے مراد یہ ہے کہ جوسیاسی پارٹیا ں یا گروپ جتنے ووٹ حاصل کرتے ہیں اُسی تنا سب سے پارٹیوں میں سیٹوں کی تعداد تقسیم کردی جاتی ہے مثال کے طور متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اگر 30%ووٹروں نے کسی خاص پارٹی کی حمایت کی ہے تو 30%سیٹوں کی جیت اُ س پا رٹی کی ہو گی۔

متناسب نمائندگی کا نظام درحقیت سنگل ممبر ووٹنگ سسٹم کا متبادل ہے۔

متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام کی کئی اقسام ہیں کچھ نظاموں میں صرف مختلف پارٹیوں کی متنا سب نمائندگی ہے،جب کہ کچھ نظاموں میں ووٹرز امیدوار وں میں سے انفرادی طور پر امیدوار کو چُنتے ہیں متناسب نمائندگی کے نظام کی شرح میں فرق ہے۔ یہ اُن عوامل کی بنا پر ہے جس میں سیٹوں کے تعین کا فارمولا ترتیب دیا جاتا ہے۔جس میں ایک حلقے میں سیٹوں کی تعداد یا منتخب شدہ با ڈ ی بحثیت مجموعی کا فارمولا شا مل ہے

متناسب نمائندگی کا نظام اکثر سنگل ووٹر الیکٹوریل نظاموں کی ضد سمجھا جاتا ہے ان میں سب سے عام جو ہے وہ سنگل ممبر pluralityکا نظا م ہے۔یہ نظا م سابقہ تاج برطا نیہ کے زیر اثر ممالک جن میں امریکا،کینیڈا،انڈیا وغیرہ میں موجودہ ہے۔

متنا سب نما ئندگی کے نظا م میں سیا سی جما عتوں کے سیا سی منشور پر خا ص طور پر زور دیا جاتا ہے۔سیا سی جما عتیں متنا سب نمائندگی کے نظا م میں دل یعنی مرکز کے طور پر کام کرتی ہیں۔مثال کے طور جو جماعتیں کل ووٹوں کا 15%حا صل کرتی ہیں تو اِس نظا م کے تحت وہ اپنے امیدراروں کے لیے 15%نشستیں حاصل کر لیتی ہیں۔تا ہم جن اقوام میں متنا سب نمائندگی کا نظا م رائج ہے وہا ں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امیدوار کی انفرادی حثیت تو دیکھا جا ئے جیساکہ نیدرلینڈ کے انتخا بی نظا م میں ہے یا پھرایسی اقوام بھی ہیں جہا ں صرف پارٹی کو ووٹ دینے کی اجا زت ہے جیسے کہ اٹلی کی پا رلیمنٹ ہے۔زیا دہ تر جو بحث انتخابی نظام کے حوالے سے کی جا تی ہے وہ یہ کہ زیا دہ سے زیا دہ متناسب نما ئندگی کے طرف رجو ع کیا جا ئے۔یہ اس وجہ سے ہے کہ موجودہ دور میں امریکا اور برطانیا میں جومضبوط پارٹیا ں ہیں وہ صرف 20%سے 25%تک اہل وؤٹروں کی حمایت سے پارلیمنٹ میں کنٹرول حاصل کر لیتی ہیں جس سے چھوٹی پارٹیا ں نظراندازہوجا تی ہیں۔کینڈامیں صورتحال اور زیا دہ خراب ہے کہ صرف40%ووٹروں کی حما یت سے پا رٹیا ں مکمل چار سال کے لیے اقتدار حاصل کر لیتی ہیں۔ اس طرح صرف 60%پڑ نے والے ٹوٹل ووٹوں میں سے صرف ایک چوتھائی ووٹ حاصل پارٹی حکومت کی تشکیل کرلیتی ہے۔بیان کردہ متنا سب نمائندگی کے نظام کے حوالے سے بحث عرصہ سے وطن عزیزمیں چل رہی ہے۔پاکستان کے جغرافیا ئی اور سما جی خدوخال اِ س طرح کے ہیں کہ ایک ایسا مربو ط انتخابی نظام جس میں ہر طبقہ فکر،خواہ اُس میں قوم پر ست شامل ہوں یا کسی خاص طبقہ فکر کی سوچ کے حامل افراد ہوں۔تمام segment آف سوسا ئٹی کو جمہوریت کے ثمرات سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔پاکستان میں زبان نسل اور مذہب کی بنیاد پر الیکشن میں حِصہ لینا آئین پاکستان کی نفی ہے۔لیکن اگر کوئی بھی گروہ یا جماعت آئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے منشور کی بنیاد پر انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہے تواُسکی سوچ کو پذیرائی ملنے کی صورت میں ارباب اختیار کو بھی خودا احتسابی کرنے کی عادت پڑسکتی ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں تعلیمی صورت حال تشویش ناک حد تک خراب ہے۔تعلیمی ماحول نہ ہونے کی بناء پر جمہوریت کو بھی پنپنے کا موقع نہیں مل سکا۔ہم انگریز اور انگریزی نظام کو اپنے ملک کے سماجی ڈھا نچے کے لیے زہرِقاتل توگردانتے ہیں لیکن گزشتہ62سالوں سے کون سے شعبے میں ہم نے قابِل فخرترقی کی ہے۔

اِس ملک کے 70%لوگ صاف پانی سے محروم ہیں بجلی گیس کا بحران ہماری معیشت کو نگل چکاہے۔مذہبی منافرت ہونے کا ڈھنڈوراتوخوب پیٹاجاتا ہے۔لیکن پاکستان میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی موجود ہے اگر کہیں فرقہ ورانہ فسادات ماضی میں ہوئے بھی ہیں یا ابھی ہوئے ہیں تواِس میں ہمارے دشمنِ ممالک کی سازش کارفرما ہوتی ہے۔اسی طرح پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی بھی قابلِ اطمینا ن حدتک موجودہ ہے۔اسلیے یہ استدلال کے متناسب نمائندگی کی بناء پر اس طرح کی منفی سوچ اور یِک جہتی کی مخالف قوتیں سراُٹھا سکتی ہیں اس میں وزن نہیں ہے۔وڈ یرہ شاہی،جاگیردانہ سوچ،اور مختلف گروپوں کے زیر اثر عوام کو اگر اپنی سوچ کا اظہار اِس طرح کرنے کا موقع ملے کہ ایک ایک ووٹ مناسب طور پر طاقت کا عامل ثابت ہو موجودہ انتخابی نظا م کی وجہ سے کم ووٹ حاصل کرنے والی جما عت نمائندہ جماعت بن کر اقتدارپر براجمان ہے۔مثلا اگر دس سیاسی جماعتیں ایک حلقے میں اپنے امیدوارں کو الیکشن کے لیے اُتارتی ہیں تو ووٹ 10امیدوارں میں تقسیم ہوکر رہ جاتا ہے۔اس طرح اگرکوئی جماعت10فی صد کوئی12فی صد یا9فی صد ووٹ حاصل کرتی ہے اور ایسی جماعت جوکہ اِن دس جماعتوں میں زیادہ فی صد ووٹ لے لیتی ہے خواہ اُس نے کل ووٹوں کا 20%حا صل کیا ہو تو اُس کا امیدوار اسمبلی میں پہنچ جا تا ہے۔جوباقی جو80%ووٹ دوسری جماعتوں کے امیدواروں تقسیم ہوئے ہوتے ہیں وہ ضائع جائے ہیں یعنی 80%لوگوں کی نمائندگی اسمبلی میں نہیں ہوتی باقی اُسکے مقابلے میں 20%ووٹ لینے والا کا میاب گردانا جاتاہے۔ (جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر