... loading ...
نواب محمد اکبر خان بگٹی، ڈیرہ بگٹی میں اپنے قلعہ تک محدود تھے، حالات ان کے حق میں نہ تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت تھی، بلوچستان میں بھی ان کی پروردہ ق لیگ برسرا قتدار تھی، جام یوسف مرحوم وزیراعلیٰ تھے۔ نواب بگٹی ذرائع ابلاغ سے روابط قائم کیے ہوئے تھے ۔ کوئٹہ پریس کلب کی عمارت زیر تعمیر تھی۔ عارضی طو رپر پریس کلب کو پریس کونسل کی عمارت منتقل کردیا گیا تھا ۔ نواب اکبر خان بگٹی نے ٹیلی فونک پریس کانفرنس کی جس کے انتظامات امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے کرائے تھے۔ امان اللہ کنرانی جمہوری وطن پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات تھے۔ پارٹی کی ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے تھے۔ نواب بگٹی کی ہدایت پر صحافیوں کو ظہرانہ بھی دیا گیا۔ پریس کانفرنس میں صحافیوں کا ہجوم اکھٹا تھا، سارے سینئر صحافی شریک تھے کیونکہ نواب صحافیوں سے مخاطب ہورہے تھے وہ بھی ایسے وقتوں میں کہ جب ڈیرہ بگٹی کے حالات غیر یقینی تھے۔ بہت سارے سوالات ہوئے۔ غلام طاہر مرحوم نے سوال کیا کہ’’ نواب صاحب پاکستان میں ڈیموکریسی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے‘‘۔ نواب بگٹی نے جواب دیا کہ ’’بابا یہ ڈیموکریسی نہیں۔۔۔۔۔ کریسی ہے‘‘۔
یعنی نواب نے ملک کی ڈیموکریسی کے بارے اچھے الفاظ نہیں کہے۔ مجھے نواب بگٹی مرحوم کے یہ الفاظ ملک میں سیاست سے اصولوں، روایات ، قول وقرار اور راست گوئی کا خاتمہ ہوتے دیکھ کر یاد آئے ۔ نواب نے تو یہ الفاظ اُن وقتوں میںکہے کہ جب ملک میں پرویزی آمریت کے تحت جمہوریت قائم تھی۔ مگر سچ یہ ہے کہ جمہوریت کا چہرہ آج بھی بدنما ہے۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں ملک بھر میں ہارس ٹریڈنگ کا چرچا بڑے زورو شور سے ہوا ، پیپلز پارٹی کا اس ذیل میں بطور خاص تذکرہ ہو رہا ہے۔ بلوچستان کا نتیجہ تو بڑا ہی انوکھا رہا یعنی چھ آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے ۔ یقینا دولت کے زور پر ایسا ممکن ہوا ۔ جن کے پاس پیسہ نہ تھا اُن کے مو ثرلیے کام ہوا ۔اگرچہ حکومتی ارکان نے خرید و فروخت کے تاثر کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ مگر کوئٹہ کے چارستارہ ہوٹل میں 2اور3مارچ کی درمیانی رات تک جمگھٹا کس مقصد کے لیے تھا، جس میں جے یو آئی ف کے ارکان بھی موجود تھے۔جہاں ۔ سرزنش ، تنبیہ و ترغیب کے گُر استعمال ہوئے۔ ہم خیال لیگیوں نے آزادانہ حیثیت سے جنرل نشستوں پر انوار الحق کاکڑ ، صادق سنجرانی، احمد خان، کہدہ بابر، خواتین کی نشست پر ثناء جمالی (ثنا ء جمالی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جان محمد جمالی کی بیٹی ہیں) اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر نصیب اللہ بازئی کو کامیاب کرایا ۔ ان میں نصیب اللہ بازئی مسلم لیگ نواز کے صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں۔ الیکشن سے دو روز قبل وفاداری تبدیل کرکے ہم خیال لوگوں کی صف میں شامل ہوئے۔ اس عہد کے ساتھ کہ وہ ان کے فیصلوں کے ساتھ جائیں گے۔
ہم خیال کی مجبوری یہ تھی کہ ان کے پاس ٹیکنوکریٹ پر اُمیدوار نہیں تھا ۔ ان کا امیدوار حسین اسلام تھا جس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے تھے۔ نصیب اللہ بازئی کو لگا کہ وہ ن لیگ کے بچے کچے ووٹوں سے کامیاب نہیں ہوسکیں گے، اس خاطرن لیگ سے وفاداری چھوڑ دی۔ انوار الحق کاکڑ ایک مختصر سیاسی تعارف رکھتے ہیں ۔ 2008ء کے عام انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر کوئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا ، ناکام ہوئے۔ پھر ن لیگ سے وابستہ ہوئے۔ نواب زہری کی حکومت کے ترجمان بنے پھر اس حکومت پر ضرب لگانے والوں کے ساتھ ملے۔ قدوس بزنجو نے اپنی حکومت میں مشیر اطلاعات تعینات کیااور3مارچ کو سینیٹر منتخب ہوگئے۔ باقی کامیاب ہونے والے تین افراد سرمایہ دار ہیں ۔ ان میں چندافراد کو آصف علی زرداری کی حمایت حاصل تھی۔جن میں حسین اسلام بھی شامل تھے۔پیپلز پارٹی کی نیک تمنائیں انوارالحق کا کڑ کے ساتھ بھی تھیں۔ گویا پیپلز پارٹی نے درپردہ ان امیدواروں کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کیا۔ اسی لیے تو سینیٹ انتخابات میں الیکٹرانک میڈیا نے ’’زر‘‘داری کی اصطلاح وضع کی۔ یاد رہے کہ حسین اسلام نے سینیٹ انتخاب جنرل نشست پر لڑا ، ناکام ہوئے ،اگلے دن انہیں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اپنا مشیر برائے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی مقرر کیا۔ یہ شخص سرمایہ دار بتایا جاتا ہے۔اس سے پہلے گورنر سندھ کے مشیر، برائے چیئرمین نیب، وائس چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ رہ چکے ہیں۔احمد خان، صادق سنجرانی اور کہدہ بابر بھی سرمایہ میں کسی سے کم نہ ہیں۔گویا ضدِجمہوریت دروبست کرنے والوں نے سیاستدانوں کو مات دی۔ خود سیاسی جماعتیں بھی بری طرح استعمال ہوئیں ۔ پشتونخوامیپ کے منحرف رکن منظور کاکڑ کو2مارچ کو الیکشن کمیشن نے فلور کراسنگ کے تحت ڈی سیٹ کردیا تھا۔ وہ اس الیکشن کے ’’عنایتوں ‘‘سے محروم رہے۔ چنانچہ پشتونخوامیپ کے باقی تیرا ارکان پارٹی نظم و ضبط کے پابند رہے۔ یعنی اس جماعت نے بلوچستان اسمبلی میں مثال قائم کردی ۔
نیشنل پارٹی کے تین ارکان خالد لانگو ، مجیب الرحمان محمد حسنی اور فتح بلیدی اپنے فیصلوں میں آزاد تھے۔نیشنل پارٹی کے باقی 8ارکان پارٹی فیصلوں کے ساتھ گئے۔بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنا امیدوار ہمایوں عزیز کرد کو کھڑا کیا تھا وہ ناکام ہوئے، کیونکہ اسمبلی میں ان کے دو ہی ارکان ہیں یعنی سردار اختر مینگل اور حمل کلمتی۔ یقینی طور پر حمل کلمتی نے بھی ووٹ اپنے مفاد اور مرضی کے تحت استعمال کیا۔۔ عوامی نیشنل پارٹی نے ایک نشست کے ساتھ سینیٹ امیدوار کھڑا کیا تھا ۔تاہم معلوم نہیں اے این پی کے اسمبلی میں واحد رکن نے اپنے ووٹ کا استعمال کس طرح کیا؟ ۔ جے یو آئی کے فقط مولوی فیض اللہ کامیاب ہوسکے وہ بھی ناکامی سے بال بال بچ گئے۔ جے یو آئی کے تین اراکین اسمبلی قابو نہ ہوسکے۔ یہ الزام جے یو آئی پر پشتونخوامیپ نے بھی عائد کیا ۔ اگر ایسا ہے تو جے یو آئی کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے ۔ ن لیگ کے وہ ارکان جو نواب زہری کے ساتھ ہیں نے اتحاد یا یقین دہانی کے باوجود پشتونخوا میپ کو ووٹ نہ دیا۔ اگر ان کی جانب سے ووٹ دیا جاتو تو پشتونخوا میپ کا یوسف خان کاکڑ بھی ضرور کامیاب ہوتا۔
الیکشن کی رات ہی پشتونخو امیپ کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ نے پارٹی کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ ن لیگ نے وعدہ خلافی کی بلکہ عثمان کاکڑ نے نواب ثناء اللہ زہری اور جنرل عبدالقادر بلوچ کا نام لیکر ایسا کہا ۔ یقینا ہارس ٹریڈنگ کا یہ شرمناک کھیل کھلم کھلا کھیلا نہیںجاتا۔ مگر بلوچستان میں یہ کھیل مختلف شکلوں میں ضرورکھیلا گیا ہے۔ بقول عثمان کاکڑ کے بلوچستان میں سینیٹ الیکشن میں دو ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کا اتحاد تھا جس میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ کامیاب ہونے والے ان آزاد ارکان سے پیپلز پارٹی کی ہائی کمان کے روابط ہوچکے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ سینیٹ چیئرمین کے لیے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں اور ہوسکتا ہے کہ ان میں ایک دو پیپلز پارٹی میں شمولیت ہی اختیار کرلیں۔ گو یا سیاست عیاری ٹھہری ۔جمہوری روایات و اقدار کا جنازہ نکلتا جارہا ہے۔ سیاست نمبر گیم بن چکی ہے ۔ سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں اور ناپسندیدہ افراد کی جائے پناہ بن چکی ہیں۔حقیقت یہ بھی ہے کہ غیر سیاسی لوگوں کی پذیرائی بھی کی جا رہی ہے ۔امانت و دیانت نہ رہی۔ سیاست کو سیاستدان گندا کررہے ہیں تاہم حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کو گندا بھی کیا جارہا ہے۔ بقول حضرت اقبال ؒکہ
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری