... loading ...
ناسٹیلجیا میں بڑی طاقت ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار 22؍ اگست ناسٹیلجیا کے شکار ہیں۔ کِرچی کِرچی کراچی تو مگر ایک المیہ سے دوچار ہوا۔ حقیقی نمائندگی سے محروم کراچی ہمیشہ سرابوں ، خوابوں اور عذابوں میں رہا۔ آج کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔
کراچی کو ایک سوال کا سامنا ہے۔ کیا ایم کیوایم کا سورج غروب ہورہا ہے؟ بلاول نے ہوائی میزبانوں کی گلابی اردو میں فرمایا:ایم کیوایم ختم ہوگئی‘‘۔ ایک دوبار مزید فرمائیں گے تو یہ اپنے خاکِستَر سے پھر زندہ ہوجائے گی۔ اِسی متعفن اور متعصب فضا میں ایم کیوایم نے جنم لیا تھا اور وحشت ودہشت کا عفریت بن گئی۔ وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور نثار احمد کھوڑو کی گفتگو ملاحظہ کیجیے! یوں لگتا ہے کہ انہوں نے ایم کیوایم کے ارکان نہیں خریدے بلکہ 24مارچ 1843ء کی جنگِ حیدرآباد میں سرچارلس نیپئرکو شکست دی ہے۔
فاروق ستار ہی نہیں ، ایم کیوایم بہادر آباد کا ٹکڑا بھی کہہ رہا ہے ’’ باجیوں‘‘ نے ووٹ نہیں دیے۔دو ’’باجیاں‘‘ تو اب پیپلزپارٹی کو پیاری ہوئیں اور ایک نے اسپتال میں دم لیا۔ گجراتی کہاوت ہے :جہاں لالچ ہو وہاں دھتورے(فریبی) بھوکے نہیں مرتے‘‘۔ماشاء اللہ دونوں زندہ سلامت ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی اور کیا ایم کیوایم!!ایک اطلاع یہ ہے کہ اٹھارہ ارکان نے اپنے پیٹ کی آگ آنکھ کے پانی سے بجھائی۔ شروع میں بھاؤ تاؤ زیادہ ہوا۔ اور بولیاں بھی خوب لگیں۔ پھر کروڑوں کی باتیں لاکھوں میں نمٹیں۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ آخر میں نئی گاڑیوں کی قیمتیں ادا کرکے رسیدیں پکڑا دی گئیں۔ مرتے کیا نہ کرتے، جس کے ہاتھ جو لگا، لے مرا۔کبھی جن کو ٹھوکروں پر رکھتے تھے ، اب اُن کے ٹکڑوں پہ آگئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ پہلے دن سے جھگڑا صرف پیسوں کا تھا۔ سودا ایک کرے یا دو اور جیبیں کتنی گرم ہو؟ دام لگانے والوں نے دراصل دام بچھایا تھا۔فاروق ستار آخر میں سیاست دان نہیں میمن نکلے۔ایک آدمی نے ایک آدمی کی وجہ سے پوری جماعت داؤ پر لگادی۔ اور لاکھ کا گھر خاک کردیا۔ پھر بھی لاف وگزاف جاری ہے۔ کوئی فاروق ستار کے کان میں اردو کی مثل سرگوشی تو کرے : لارا لیری کا یار کبھی نہ اُترے پار۔
بیچارے فاروق ستار پر کیا موقوف!دوسری طرف بھی لاج لجانے والے نہ تھے۔ وہ بھی لوٹ مار میں’’ دال بھات کھچڑی‘‘ ہوئے۔ حصے کی جنگ نے حصے بخرے کردیے ۔پھرقیمت میں ’’بھاٹا‘‘ اور سودے میں گھاٹا پڑا ۔ منڈی کا اُصول ہے ، مال زیادہ ہو تو دام گر جاتے ہیں۔ چار کروڑ کے پینتالیس لاکھ ہوجاتے ہیں۔ہوئے ہوں گے۔تب ہی تو دونوں طرف ہاہا کار مچی ۔ اچانک کارکنوں کا درد جاگا۔ اوہو! مہاجروں کا مینڈیٹ بٹ نہ جائے۔ وہی چکنی چُپڑی باتیں۔ایک بار پھر مشترکہ امیدوار میدان میں اُتارے۔ کسی نے کہا تھا:اگر مہنگی عزت سستی جائے تو بچالینی چاہئے پھر کبھی گنوانے میں کام آئے گی۔ مگر نیت میں خلل آجائے تو یہ کوڑیوں سے بھی سستی رہ جاتی ہے۔چنانچہ مشترکہ امیدوار کا جادو بھی نہ چلا۔ دونوں طرف سے عذر تراشیاں ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ بھئی مشترکہ امیدوار میں تو ووٹ تقسیم نہیں ہورہے تھے۔ جیتتے تو مشترکہ امیدوار جیتتے۔ یہ کیا جس نشست پر امیدوار الگ الگ اور ووٹ تقسیم ہونے تھے، جہاں کامران ٹیسوری اور بیرسٹر فروغ نسیم کو مقابلے کے لیے آزاد کردیا گیا، وہ نشست تو بچ گئی اور جہاں امیدوار مشترک اور ووٹر طے شدہ تھے وہاں سب کے سب ہار گئے۔ سامنے کی اس بات پر کوئی بات نہیں کررہا۔ بیچاری باجیوں پر یلغار ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے اس صورتِ حال پر عجیب وغریب راگنی چھیڑی۔کارکنوں سے کہا: کیا وجہ ہے 22؍اگست تک ہمارا مینڈیٹ اِدھر سے اُدھر نہ ہوتا تھا۔اور کبھی کوئی نہ بکتا تھا پھر23؍اگست سے ایسا کیوں ہونے لگا؟ کیا ہمارا فیصلہ غلط تھا؟معلوم نہیں فاروق ستار نے اس ایک سوال کے تیر سے کتنے شکار کیے یا اس ایک سوال کی دوڑ سے کتنی پتنگیں باندھنے کی کوشش کی۔مگر 22؍ اگست ناسٹیلجیا فاروق ستار کو دم لینے نہیں دیتا یا پھردم مارنے نہیں دیتا۔ وہ آس میں یاس کی تصویر بن گئے۔ 22؍ اگست ناسٹیلجیا کیا ہے؟کراچی پر بندوق کا راج، ڈنڈے کی حکمرانی۔ اس طرزِ سیاست نے کراچی کو آٹھ آٹھ آنسو رُلایا ہے۔ جن باجیوں کی آڑ میں دونوں جانب سے اپنے اپنے مکروہ چہرے چھپائے جارہے ہیں۔کبھی اُنہوں نے اپنے خاوندوں ، بیٹوں اور باپوں کو دفنایا تھا۔ یونانی المیے کی طرح کراچی کا یہ دور تاریخ کے دوام میں آنسو رُلاتا رہے گا۔ چھوٹے لوگ ایّام کی اُلٹ پھیر میں بڑے بھی ہو جائے توکہاں ہوتے ہیں، بس باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں۔ 22؍ اگست کے اس ناسٹیلجیا میں کراچی میں گولیوں کا شوراور بانی متحدہ کی تقاریر کازور تھا۔بانی متحدہ خود ان رہنماؤں کی تحقیر کرتے اور اپنے کارکنوں سے پٹواتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر اُنہوں نے ان کی ’’اوقات‘‘ کا تذکرہ چھیڑتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ان کے پاس دوکپڑے خریدنے کی اوقات نہیںتھی، میں نے خرید کر دیے۔ اب وہی کپڑے سینیٹ انتخابات میں ان نمائندوں نے اُتار کر چوراہے پر لٹکا دیے۔ ماندہ ، درماندہ اور باقی ماندہ ایم کیوایم 22؍ اگست ناسٹیلجیا سے کبھی نہیںنکلے گی۔ یہی ایک بات مصطفی کمال درست کہتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار بھی اسی کے شکار ہیں۔
امریکی مصنفہ اور نفسیاتی معالج ایمی بلوم (Amy Bloom) نے ناسٹیلجیا کی وضاحت زیادہ بہتر الفاظ میں کی جو گاہے ایک مرض بن جاتا ہے:
“The past is a candle at great distance: too close to let you quit, too far to comfort you.”
(ماضی بہت فاصلے پر رکھی ایک موم بتی ہے۔ترک کرنے کے لیے جو بہت قریب اور راحت پانے کے لیے بہت دور بھی ہے)۔
ڈاکٹر فاروق ستار کے لیے ہی نہیں اس غم کے مارے تمام رہنماؤں کو اس ناسٹیلجیا سے نجات پانے میں ہی زندگی ہے۔ ورنہ دائرے اور بگولے ہیں۔المیے در المیے ہیں،اس سے بڑھ کر بربادی بھی۔ انیسویں صدی کے وسط میں برطانیا کے وزیراعظم رہنے والے بینجامن ڈِزرائیلی نے اپنے بعد آنے والے وزیراعظم ولیم گلیڈ اسٹون کے حوالے سے ایک زبردست بات کہی جب اُن سے پوچھا گیا کہ المیے اور بربادی میں کیا فرق ہے؟اُن کاجواب تھا :اگر کوئی گلیڈ اسٹون کو دریا میں دھکا دے تو یہ ایک المیہ ہوگا۔ جبکہ کوئی اُسے دریا سے بحفاظت نکال لائے تو یہ بربادی ہوگی‘‘۔22؍ اگست کے ناسٹیلجیا میںمضمون واحد ہے۔کوئی فاروق ستار کے کان میں سرگوشی کرے کہ ناسٹیلجیا میں طاقت بڑی ہے مگر اس کا امتحان جان لیوا ہے۔