... loading ...
سینیٹ کے انتخابی نتائج کی بازگشت کے دوران عمران خان کراچی جا پہنچے شہر قائد کے مختلف علاقوں میں انہوں نے اپنی جماعت کی رکنیت سازی مہم کا جائزہ لیا اور اس موقع پر کراچی سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کردیا۔کراچی کے بلدیاتی نظام کی بدحالی اور بے اختیاری کی بات کی تو میئر کراچی وسیم اختر کا ذکر بھی کئی بار کیا ۔یہ سب کچھ جب میری سماعتوں سے ٹکرارہا تھا تو تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میرے شعور کے پردوں پر 2007 ء کے سیاسی منظر نامے کی تصویر اُبھر رہی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے طمطراق کے سائے تلے ایم کیو ایم کے حوصلے بہت بڑھے ہوئے تھے۔بارہ ستمبر کی تاریخ تھی ۔ عمران خان کراچی ایئر پورٹ پر بیٹھے ہوئے تھے ان سے فون کے ذریعے رابطہ ہوا تو وہ اُس وقت کے مشیر داخلہ سندھ وسیم اختر کی جانب سے اپنی سندھ بدری کے احکامات پر سیخ پا تھے۔ کہ رہے تھے کہ ’’ یہ لوگ کب تک کراچی کو یرغمال بنائے رکھیں گے ۔ ایک روز ان کا یوم حساب ضرور آئے گا ۔‘‘
انہوں نے کراچی میں ریلی نکالنے کا پروگرام بنایا تو گیارہ ستمبر کو عمران خان کے سندھ کے داخلے پر پابندی عائد کرتے ہوئے مُشیر داخلہ سندھ وسیم اختر نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’’ عمران خان کے کراچی میں داخلے پر پابندی اُن کی ریلی کی وجہ سے عائد کی گئی ہے کیونکہ ریلی کہ وجہ سے ٹریفک جام ہوتی ہے ۔ ‘‘بات بات پر کراچی کو جام کرنے والوں کی منطق نرالی تھی۔ وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ عمران خان نے لندن میں الطاف حُسین کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
عمران خان اپنے اعلان کے مطابق کراچی پہنچے توایئر پورٹ پر ان کو پابندی کے احکامات دکھا کر شاہین ایئر لائنز کی پرواز کے ذریعے صوبہ بدر کرکے اسلام آباد بھیج دیا گیا اوران کے استقبال کے لیے آنے والوں کو گرفتار کرلیاگیا تھا۔
سُقراط کا کہنا ہے کہ طاقت لوگوں کو حکومت کا حق عطاء نہیں کرتی ۔بلکہ اہلیت اور قابلیت حکومت میں شمولیت کا حق رکھتی ہے، میکاولی نے کہا کہ صرف اور صرف دولت مند اور جاگیردار ہی لوگوں پر حکومت کا حق رکھتے ہیں ۔ان ا قوال کا لبادہ اوڑھ کر کراچی میں مہاجر قومیت کا نعرہ لگانے والوں نے اپنا کنٹرول تین دہائیوں سے قائم رکھا ہوا تھا ۔اس عہد خرابی میں برتھ اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ سے لے کر تھانوں اور محکموں سمیت سب کنٹرولڈ تھے ۔مہاجر وں کی قیادت کے نام پر ان لوگوں نے حقِ حکومت طاقت کی وجہ سے حاصل کیا ہواتھا، سیکٹر انچارجوں کے ہاتھوں یرغمال کراچی کے شہری اہلیت کی قدر کھوجانے کے مسئلے سے دوچار تھے ۔ لیکن کراچی بدر ہوتے وقت اپنی جدوجہد کی قدیم اور بسیط تاریخ رکھنے والے کپتان نے کراچی کے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرنے کے لیے آنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
اُن دنوںایم کیو ایم کی قیادت کے پورے ٹبر کاطرز عمل یہ ہوتا تھاکہ کوئی بھی الطاف حُسین کے خلاف بات کرتا تو یہ پورا کنبہ خُم ٹھونک کر میدان میں اُتر آتا تھا ۔ اور پھر وہ پورا زور بانی ایم کیو ایم کی مبینہ توہین کے ’’ مرتکب ‘‘ کے خلاف صرف کیا کرتے اور ہفتوں رعونت کے ساتھ مخالفین کو صلواتیں سنایا کرتے تھے۔ماضی میں الطاف حسین کے خلاف چودھری نثار علی اور شہباز شریف کی جانب سے بیان دیئے جانے پر وسیم اختر جس انداز میں آپے سے باہر ہوئے تھے اُس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔اور اُس ویڈیو کا دیکھنے والا ہر سنجیدہ ناظر ایک تاثر ضرور قائم کرتا ہے۔
تُم نے سونپے ہیں جنہیں رہبری کے منصب
اِن کو چلنے کا سلیقہ تو سکھاؤ پہلے
گذشتہ کئی ہفتوں سے میڈیا پر ایم کیو ایم کی قیادت کا جوطرز عمل سامنے آرہا تھا اُس سے ان کے مخالفین کا کام خودبخود آسان ہوگیا ۔میں ماضی کے دھندلکوں میں گُم تھا کہ مجھے ایک ٹی وی چینل پر ایم کیو ایم کی رہنماء نسرین جلیل کی جانب سے ایک آہ سرد کے ساتھ ادا کیا گیا یہ جملہ سنائی دیا کہ ’’ کسی کو کیا دوش دیا جائے ‘‘۔۔
کراچی میں حالات انگڑائی اورنئی کروٹ لے چُکے ہیں۔ جن لوگوں کی تقریں سُننے کے لیے لوگوں کو زبر دستی بٹھائے رکھا جاتا تھا ۔ بے ہنگم اور دھاڑ کی مثل خطابات براہ راست نشر کرنے کے لیے میڈیا ہاؤسسز کو دھمکی نما فون کیے جاتے ۔ اُن لیڈروں کی چاہت، تعصب ، دلائل، منطقیں ، فلسفے ، اور تشریحیں اب کراچی کے عوام کے لیے بے معنی ہو گئی ہیں۔
ایم کیو ایم کی بے چارگی کے اس ماحول میں کپتان نے اس شہر کی روشنیاں لوٹانے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ خود اس شہر سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے یہاں کی سیاست سے اپنا حصہ وصول کرنے کی حکمت عملی واضح کر دی ہے۔ ایم کیو ایم کی دسترس میں آنے سے پہلے کراچی جن قومی سیاسی جماعتوں کا میدان عمل تھا ۔ وہ اس شہر سے ووٹ اور پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کرنے کے بعد پورے ملک میں سیاست کیا کرتی تھیں ۔ ان سیاسی جماعتوں نے کراچی کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ جس کی وجہ سے شہری علاقوں کے مسائل اذیت بننے لگے جس کا فائدہ اُٹھا کر ایم کیو ایم قائم ہوئی اوراُس نے آج تک سندھ کے شہری علاقوں کو اپنے زیر نگین رکھا ہوا تھا۔ لیکن ان کے تمام تر وسائل اور طاقت کی ملکیت کے باوجود کراچی کے مسائل آج ماضی کی طرح گھمبیر نظر آتے ہیں ۔
سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار اس پر متفق ہیں کہ کراچی کے عوام میں عمران خان کی خاطر خواہ پذیرائی کے امکانات موجود ہیں ۔ماضی میں ایم کیو ایم اپنے مقاصد کے لیے دلدار رنگوں کے تعاقب میں مصروف رہتی تھی۔ اب ان کے مطلوب رنگ کسی اور کے محبوب نظر آنے لگے ہیں ۔ حالات کا جبر دیکھیے کہ بارہ ستمبر 2007 ء کو کراچی کو عمران خان کے لیے شجر ممنوعہ بنانے اور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہائی کورٹ جانے سے روکنے والے اپنی شکست کے فسوں کی کھوج لگانے میں بھی ناکام ہو چُکے ہیں۔ سینیٹ کے عام انتخابات میں ان کے نمائندوں پر بکنے کے الزامات ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ خریدار کے دام پر کسی جھگڑے کا سُراغ تک نہ ملا ۔
کراچی عمران خان کو جس وقت سے جاننے لگا ہے وہ اُس وقت بھی کپتان ہوا کرتا تھا آج کی ادھیڑ عمر نسل پر عمران خان کے ساتھ لیجنڈ معین اختر اور انور مقصود کے پروگراموں کا سحر طاری ہے ۔ عمران خان کی ذاتی مقبولیت کے ساتھ ساتھ کراچی میں ایک پورا میانوالی آباد ہے جو اپنے میانوالین کی پُشتیبانی کے لیے تیار نظر آتا ہے۔
کرکٹ کے کپتان نے سیاست میں اپنے دماغ سے سوچ کر اپنی بیس سالہ جدوجہد سے ایک راستہ بنایا ہے اور اپنی شبانہ روز محنت سے کراچی کی سیاست کی گرہوں کو کھولنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔اُن کے حالیہ دورہ کراچی کے دوران کی جانے والی تقاریر کی بازگشت کے ساتھ روشنیوں کے اس شہر کے باسیوں کی اُمیدوں کا نم بھی محسوس ہونے لگا ہے ۔