وجود

... loading ...

وجود

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان پرنظریں گاڑھ لیں

پیر 05 مارچ 2018 فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان پرنظریں گاڑھ لیں

کسی بھی جرم سے کمائی گئی دولت پہلے چھپائی جاتی ہے اور پھر اس کو صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ عام استعمال میں لایا جا سکے۔ ترقی پذیر ممالک سے اس طرح کی دولت ترقی یافتہ ممالک میں خفیہ کھاتوں میں جمع کرادی جاتی تھی۔ بعد ازاں ان کھاتوں سے اس دولت کو مختلف ممالک اور کھاتوں میں منتقل کیا جاتا تھا تاکہ کسی کو ابتدائی صورت تک پہنچنا ناممکن ہو جائے۔ متعدد چکّروں کے بعد دولت کو صاف اور محفوظ سمجھا جاتا ہے اور عام استعمال میں لایا جاتا ہے۔ لانڈری کا لفظ صفائی کے عنوان سے آیا ہے کیونکہ ابتدائی صورت میں یہ دولت گندی اور ناپاک شکل میں ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے بینک باہمی طور پر ایک دوسرے سے اس بات میں مقابلہ کرتے تھے کہ کون اس قسم کے اثاثوں کو چھپانے، محفوظ اور خفیہ رکھنے اور انتقال کی آسانیوں اور سہولتوں سے بھرپور خدمات مہیا کرسکتا ہے۔ یہاں یہ بھی سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دولت ٹیکس نظام سے بھی باہر ہوتی تھی لہذا ان ممالک کو اپنی ترقی کے لیے درکار وسائل کی کمی کا بھی سامنا رہتا تھا۔

80 کی دہائی میں جب یہ بیماری اتنی پھیل گئی کہ خود ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں نے اسطرح کی خفیہ اور ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی اور دولت والے کھاتے کھولنا شروع کر دئیے اور ان کی ٹیکس وصولیوں میں کمی ہونے لگی تو اس کے تدارک کے لیے قانون سازی کا عمل شروع ہوا۔ امریکا نے سب سے پہلے 1986 میں اینٹی منی لانڈرنگ (Anti-Money Laundering) کا قانون بنایا اور بینکوں پر کھاتہ داروں کے لین دین کو خفیہ رکھنے کی سختی کو بھی کم کردیا۔ اس عمل کو وسیع کرنے کے لیے G-7 ممالک کے وزرائے خزانہ نے 1989 میں ایک نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی جسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کہا جاتا ہے۔ یہ 34 ممالک پر مشتمل ہے اور اس کی ذیلی تنظیمیں علاقائی بنیادوں پر بنائی گئی ہیں۔ پاکستان ایشیا پیسفک گروپ (Asia Pacific Group(APG) کا ممبر ہے، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا کے بیشتر بین الاقوامی ادارے بھی‘ فیٹف کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں‘ خصوصاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، فیٹف شروع میں منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات تجویز کرتی رہی اور ممبر ممالک ان پر عملدرآمد کے پابند ہوتے تھے۔ اس کی وضع کردہ تجاویز (Recommendations) وہ معیار بن چکے ہیں جن سے کسی بھی ملک کی اینٹی منی لانڈرنگ کی اہلیت کو پرکھا جاتا ہے، اور ان کی عدم موجودگی میں کسی بھی ملک کو بین الاقوامی مالی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں فیٹف نے ایک ماڈل قانون بنایا ہے جس میں منی لانڈرنگ کو نہ صرف ایک جرم قرار دیا گیا ہے بلکہ وہ تمام جرائم جن میں مالی منفعت (proceeeds of crime) شامل ہو، اس منفعت پر منی لانڈرنگ کا اضافی جرم بھی لگایا جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی اہتمام ضروری ہے کہ بینکنگ اور مالی نظام منی لانڈرنگ کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔ لہٰذا ان تمام اداروں پر یہ قانونی پابندی ہے کہ نہ صرف اپنے کھاتہ داروں کے پس منظر کی اچھی طرح چھان بین کریں بلکہ ان کے لین دین پر کڑی نظر رکہیں اور اگر کوئی مشتبہ لین دین نظر آئے تو اس کی اطلاع ایک رپورٹ (STR) suspicious transaction reportکی شکل میں اس ادارے کو بھیجیں جسے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (financial monitoring unit (FMU)کہا جاتا ہے کو ارسال کریں۔ یہ ادارہ اس رپورٹ کو ان متعلقہ اداروں کو بھیجتا ہے جو ممکنہ جرم کی تحقیقات کرنے اور مقدمے قائم کرنے کے مجاز ہیں۔

9/11کے بعد فیٹف کو یہ ذمے داری بھی مل گئی کہ وہ دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا سدباب کرے۔ بعدازاں اس میں وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں میں مالی معاونت کا بھی سدِباب کرنے کے اقدامات تجویز کرے۔ ایف اے ٹی ایف نے اپنے دائرے کو آہستہ آہستہ ساری دنیا میں پھیلا دیا ہے جو ایک مثبت تبدیلی ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں منی لانڈرنگ کی لعنت بہت نقصان دہ شکل اختیار کرتی جا رہی تھی۔ پاکستان نے اس کام کا آغاز نسبتاً تاخیر سے 2007 میں کیا جب ایک آرڈینینس کے ذریعے ماڈل قانون بنایا گیا، جو ایکٹ کی صورت میں 2010 میں نافذ ہوا۔ لہذا اس ابتدائی قانون میں کچھ خامیاں رہ گئی تھیں اور فیٹف ہم سے اس کی اصلاح کے تقاضے کرتا رہا۔ قانون میں فراہم کردہ جو فریم ورک بننا تھا اس میں بھی تاخیر ہوئی۔ علاوہ ازیں بہت سے جرائم کو منی لانڈرنگ کی فہرست میں شامل ہونا تھا اس میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا تھا، خصوصاً ٹیکس قوانین کے جرائم میں منی لانڈرنگ کو شامل کرنے کے کی سخت مخالفت ہوتی رہی۔

سچی بات یہ ہے کہ اس قانون کی سیاسی اور انتظامی مخالفت بھی پْر زور تھی کیونکہ اس کے تحت جرائم کی نئی تعریفیں اور ان کی سزائیں تجویز ہو رہی تھیں اور ایسے کاموں پر جو کاروباری اور سماجی زندگی میں عموماً کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور علاقہ جس میں ہم نے مطلوبہ سرعت سے کام نہیں کیا وہ دہشت گردی میں استعمال ہونے والے وسائل کو روکنا اور دہشت گردی کے واقعات میں مالی معاونت منی لانڈرنگ کے جرائم کی شمولیت۔ ان کوتاہیوں کا بالآخر یہ نتیجہ نکلا کہ 2012 میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست (واچ لسٹ) میں شامل کردیا گیا جن کیساتھ معاملات میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے خطرات موجود ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال تھی اور اس کا تدارک ضروری تھا۔ موجودہ حکومت نے اپنی مدت کے آغاز میں ان معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کرکے مالی معاونت کا جرم شامل کرنا لازمی کردیا۔ پھر سلامتی کونسل کی قرارداد میں جن تنظیموں اور افراد کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ان کے کھاتوں کو ضبط کرنا لازمی کردیا اور مالی نظام میں ان کی شرکت پر پابندی لگادی۔ جرائم کی فہرست، جن میں منی لانڈرنگ کا جرم بھی شامل ہوگا، اس کو مزید وسیع کردیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ٹیکس نظام سے وابستہ جرائم جن کو استثنیٰ حاصل تھا وہ بھی ختم کردیا گیا۔ ان اصلاحات کے بعد قانون اور فریم ورک سے متعلق کمزوریاں بھی دور کردی گئیں اور اب بات ان کے موثر نفاذ اور مستقل نگرانی کی طرف منتقل ہوگئی۔ لہذا 2015 میں پاکستان کو واچ لسٹ سے نکال دیا گیا اس تاکید کیساتھ کہ کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔

ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے دو اہم اقدامات ضروری تھے۔ ایک یہ کہ دہشت گرد تنظیموں اور افراد کے مالی نظام سے باہر اثاثوں کو ضبط کرنا، ان کے چندہ جمع کرنے پر پابندی لگانا اور دیگر فلاحی کاموں کی سختی سے نگرانی اور روک تھام کرنا، ان پر سفری پابندیوں کا اطلاق اور ان کو غیر مسلح کرنا۔ دوسرا اندرونی صلاحیتوں کو پیدا کرنا تاکہ ھمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اس قابل ہوجائیں کہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے جرم کی تحقیقات کرسکیں اور اس پر سزا دلواسکیں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ ہماری پولیس عموماً دہشت گرد اور اس کی معاونت تک تحقیق کرتے ہیں لیکن کس طرح اس نے وسائل حاصل کیے اور کیونکر مالی نظام کو اس کی خبر نہ ہوئی، ان سوالات کو جاننے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ پاکستان میں اب یہ صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے اور ایک مرکزی مقام پر اس سے متعلق معلومات بھی جمع کی جا رہی ہیں۔ NECTA نہ صرف ان دہشت گرد تنظیموں اور افراد سے متعلق معلومات اکٹھی کر رہا ہے بلکہ ان پر قائم مقدمات اور ان میں پیشرفت پر بھی نظر رکھ رہا ہے۔

APG نے بھی تحقیقاتی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے ٹریننگ کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ پہلا قدم رہا ہے، جہاں صوبائی اور وفاقی اختیارات کی تقسیم آڑے آتی ہے۔ مالی نظام کیونکہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا یہاں دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں اور افراد کے اثاثے منجمد کرنا اور ان کو اس نظام تک رسائی سے روکنا کچھ مشکل نہ تھا اور یہ بہت پہلے کردیا گیا تھا۔ لیکن ان کے دیگر اثاثوں تک پہنچنا، ان کو غیر مسلح کرنا، سفری پابندیاں لگانا اور چندہ جمع کرنے سے روکنا، صوبائی حکومتوں کے اختیار میں تھا۔ یہاں بھی اصل مسئلہ صرف ایک تنظیم اور اس سے وابستہ ایک ذیلی تنظیم کا ہے اور وہ جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن ہے۔ ان کے خلاف اقدامات اٹھانے کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری رہیں اور ہمارے خلاف فیٹف میں منفی رجحانات بڑھنے لگے۔

بالآخر فیٹف کے حالیہ اجلاس سے پہلے دہشت گردی کے قانون میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرکے صوبائی حکومتوں کو پابند کردیا گیا کہ ان کیخلاف متعلقہ اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ اس ترمیم نے مخالفین کے عزم و حوصلے کو یقیناً پست کیا ہوگا اور ان کی یہ کوشش کہ پاکستان کا نام حالیہ اجلاس میں واچ لسٹ میں دوبارہ شامل ہوجائے وہ فوری طور پر نہیں ہو سکا۔ لیکن جو خبریں موصول ہو رہی ہیں اور خصوصاً مشیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے ایک انٹرویو میں جو باتیں بتائی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روزترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرنے بھی ہفتہ واربریفننگ کے دوران اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ جون میں پاکستان کانام گرے لسٹ میں شامل ہونے کاامکان ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور اپنے نظام کو مزید موثر بنانا چاہیے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ہم پر جو دباو ڈالا جا رہا ہے وہ صرف اس نظام کی اصلاح سے وابستہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دیگر مقاصد کا حصول بھی کارفرما ہے۔ امریکا نے جس انداز میں فیٹف کے اجلاس سے پہلے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا کہ وہ پاکستان کیخلاف اجلاس میں قرارداد لائے گا اور اس کے بعد بھارت میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی کہ پاکستان پر کوئی تباہی آنے والی ہے، وہ اس اسکیم کو واضح کر دیتے ہیں کہ ہم پر جو دبائو بڑھایا جا رہا ہے اس کا آغاز صدر ٹرمپ کی صدارت سے شروع ہوا ہے اور یہ کہ اس سے بھارت کی خوشنودی بھی مطلوب ہے۔ اس دفعہ خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے، حالانکہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو ہم ماضی میں بھی اس امتحان سے گزر چکے ہیں اور اس دفعہ بھی دنیا کو ثابت کرکے دکھائیں گے کہ پاکستان بین الاقوامی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہے جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے نہ کہ دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی کوئی آماجگاہ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس آزمائش میں سرخرو فرمائیں۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر