... loading ...
جمہوریت نہیں یہ کارپوریٹو کریسی ہے! کارپوریشنز کی بالادستی۔
جان پرکنز نے اپنی کتاب ’’ Confessions of an Economic Hit Man‘‘ کے ذریعے بتایا کہ کس طرح اقتصادی غارت گر کامل حکومتوں کو نگل لیتے ہیں۔ سالم جمہوریتوں کو ڈکار لیتے ہیں اور عوامی امنگوں کو پھلانگ لیتے ہیں۔ پھر ایک اور کتاب
’’The Secret History of the American Empire ‘‘ میں لکھا کہ امریکا اس کھیل کا سرپرست ہے۔ امراء بالادستی کا خواب دیکھتے ہیں۔ اور اپنی منڈی اور نفع میں حائل ہرشے کو خریدتے ہیں۔ جمہوریت ان کے لیے سب سے سازگار ہے جس میں مرکزی قوت کو منتشر رکھا جاسکتا ہے اور خیالات وتصورات کی افیون پلا کر عوام کو سحر زدہ رکھا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ اس کے لیے منتر کا کام کرتے ہیں۔ابھی یہ طے ہونا ہے کہ جمہوریت واقعی مرض کی دوا ہے یا خود ایک مرض ۔ مگر پاکستان میں اس کا مردہ سینیٹ انتخابات میں کاندھے کا منتظر ہے۔
سینیٹ انتخابات نے ثابت کیا کہ جمہوریت ایک منڈی ہے۔ مسلم لیگ نون یا اداروں کی کشمکش کا نہیں یہ طرزِ فکر کا معاملہ ہے۔ سب ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ مسلم لیگ نون ووٹ کی تقدیس کا رونا بہت روتی ہے مگر خریداری کے اس بازار میں دہائیوں سے شریک ہے۔ دور کیوں جائیں،پنجاب اسمبلی کے 2008ء کے انتخابات کے بعد کیا ہوا تھا؟شریف برادران نے آزاد ارکان کی وفاداریاں خرید کر اپنی صوبائی حکومت تشکیل دی تھی۔ تب کسی زباں دراز کے منہ سے بھاپ تک نہ نکلی تھی۔مانیکاخاندان کے ایک فرد عطا مانیکا نے یونیفکیشن گروپ کی بنیاد ڈال کر جب مسلم لیگ نون کی حمایت میں گھمن گھیری ڈالی تو جمہوریت کے حیا باختہ چہرے نے بھی گھونگھٹ نکال کر اوٹ لے لی تھی ۔تب جمہوریت کے کسی وفاپرست نے ووٹ کی حرمت کا رونا نہ رویا تھا۔
سینیٹ انتخابات میں اصل تجسس پنجاب اسمبلی کا ہی تھا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں خرید وفروخت کی سیاسی ثقافت بہت پہلے سے رائج ہے۔ سندھ میں ایم کیوایم نے انتخابات سے پہلے ہی برائے فروخت کا اشتہار اپنے چہروں پر سجا لیا تھا۔ اس لیے یہاں کوئی خبر سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ اصل معاملہ پنجاب کا تھا۔جہاں ہر چیز کو نوازشریف کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ پنجاب میں موٹے پیٹوں کا ایک لشکر نوازشریف کی مقبولیت کے جعلی بیانیے کی مسلسل قے کررہا ہے۔ نون لیگ کا دعویٰ تو یہ تھا کہ وہ پنجاب کی تما م بارہ نشستیں اپنے نام کریں گی۔ مگر ایک نشست غیر متوقع طور پر تحریک ِانصاف کے چودھری سرور لے اڑے۔بظاہریہ ایک نشست کا فرق لگتا ہے مگر درحقیقت مسلم لیگ نون کے دو پانچ نہیں،کل تیس ارکان ٹوٹے ہیں۔ جس میں سے بارہ ارکان چودھری سرورکے ہاتھ لگے اور پیپلز پارٹی نے یہاں پر بھی اٹھارہ ارکان کو اپنی جانب رِجھایا۔ پیپلزپارٹی کی پنجاب اسمبلی میں اپنی طاقت8 ارکان ہے جبکہ ووٹ 26 لیے۔ پنجاب اسمبلی کی حدتک ق لیگ اور پیپلزپارٹی کا کوئی رکن اسمبلی فروخت نہیں ہوا۔ اگر کوئی فروخت ہوئے تو وہ نون لیگ کے ہیں۔ مریم نواز کاباربار دُہرایا جانے والا ٹوئٹ یہاں بھی حسب ِ حال ہے کہ روک سکو تو روک لو!
مسلم لیگ نون کی قیادت نے ارکان کی کج ادائی پر ایک تحقیقاتی کمیٹی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں قائم کردی ہے۔ جن کے ذمے انتخابات کے دوران میں ارکانِ اسمبلی سے وفاداری کا حلف لینا بھی تھا۔ اگر نوازشریف کی مقبولیت اتنی ہی بے ساختہ اور اُن کی محبت کا افسانہ اتناہی حقیقی ہے توپنجاب اسمبلی میں ارکان سے حلف لینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون اپنے دعووں پر خود بھی زیادہ یقین نہیں رکھتی۔ مسلم لیگ نون ہماری جمہوری ثقافت کے بے وفاتیوروں سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اگلے کچھ دنوں میں اس دعوے کا زیادہ کڑا امتحان ہو گا کہ نوازشریف اور مسلم لیگ نون کو کوئی چھوڑ کر نہیں جارہا ۔ درحقیقت مسلم لیگ نون کا اندرونی انتشار پوری طرح عریاں ہے مگر بہت سے افراد کسی واضح لائحہ عمل کی تلاش اور کسی ’’رہنمائی‘‘ کے منتظر لگتے ہیں۔اس کا اظہار سید مشاہد حسین کو ملنے والے ووٹوں کی اصل کیفیت سے بھی ہوتا ہے۔اگرچہسید مشاہد حسین نے سینیٹ انتخابات میں 223ووٹ لیے، تاہم 3ووٹ اُن کے بھی خالی نکلے۔ اس پر تجزیہ کار اپنی اپنی رائے زنی کررہے ہیں مگر یہ امر تو بالکل واضح ہے کہ یہ وہ ووٹ ہیں جو مسلم لیگ نون کے اپنے ہیں مگر وہ اب یکسو نہیں رہے۔ بس ایک ہانکا وفاداری کے گلستان کو ویران اور مقبولیت کے بیانیہ کو بے وقعت کرسکتا ہے۔
سینیٹ انتخابات میں یہ بات پوری طرح ثابت ہوگئی کہ یہاں جماعتی نظم وضبط نامی کوئی شے نہیں۔ مسلم لیگ نون اور ایم کیوایم کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ ان دونوں جماعتوں میں جماعتی نظم وضبط کی پابندی ہے، مگر وقت نے ثابت کیا کہ اس کے پیچھے ایک جبر تھا جیسے ہی یہ جبر تحلیل ہوا تو ارکان خزاں رسیدہ پتوں کی طرح درختوں سے جھڑنے لگے۔ ٹیلی ویژن کے لیے تراشیدہ موقف سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون سینیٹ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے بلوچستان اسمبلی میں اپنے ہی ارکان کی قیمت چُکانے کو بھی تیار تھی۔ مگر اُنہیں یہ موقع نہیں مل سکا۔وہ پہلے ہی ایک بغاوت سے نون حکومت کو اُتھل پتھل کرچکے تھے۔
مسلم لیگ نون اٹھارہ برس کے بعد سینیٹ میں اکثریتی جماعت کے طور پر اُبھری ہے مگر اُسے چیئرمین سینیٹ کے لیے 53 کا جادوئی ہندسہ چھونا ہے۔ ایک بار پھر پتہ چلے گاکہ جمہوریت اپنی چَھب کیسے دکھلاتی ہے، فی الحال جمہوریت کے رومان کے ساتھ اس خبر سے دل بہلائیے کہ ڈاکٹر قیوم سومرو اور فیصل کریم کنڈی ایک خصوصی طیارے سے کوئٹہ پہنچ گئے ہیں جو بلوچستان سے منتخب 8آزاد ارکان کے ساتھ بیٹھ کر جمہوریت کی عزت اور ووٹ کی حرمت پر’’ تبادلۂ خیال‘‘ کررہے ہیں۔شنید ہے کہ وہ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے اورپھر آپس میں ہاتھ ملاتے ہوئے جمہوریت اور ووٹ کی تقدیس کی خاطر چیئرمین سینیٹ کے لیے مشترکہ امیدوار پر متفق ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ نون اس وقت 33سینیٹرز کے ساتھ اکثریتی جماعت ہے۔ اگر اُس کے حامیوں کو جوڑ لیا جائے تو جے یوآئی ف کی 4 ، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کی 5فاٹا کی 8 میں سے کم ازکم 4 اور نیشنل پارٹی کے 5ارکان کی حمایت لے کر چیئرمین سینیٹ کے لیے درکار 53 کے جادوئی ہندسے کے بالکل قریب پہنچ جاتی ہے۔ مگرپاکستان کی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ خطرہ فضاؤں میں موجود ہے کہ چیئرمین نیب نون لیگ لانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی دُکان سیاست بڑھانے میں کامیاب ہوجائے یا پھر مسلم لیگ نون کی مخالف جماعتیں مل کر کسی مشترکہ امیدوار پر مفاہمت کرلیں۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ نون سینیٹ کی اکثریتی جماعت ہو کربھی چیئرمین سینیٹ کے بغیر ایک اپوزیشن جماعت بن جائیگی۔ یہ مسلم لیگ کے من پسند قانون سازی کے خواب کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔ پاکستان میں رائج جمہوریت کے اس تاریک چہرے کو پہنچاننے کے باوجود ہم مجبور ہیں کہ جمہوریت کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہونے دیں۔
جس نے ہم سب کو خریدار بنا رکھا ہے
آکہ اس فتنہ زرپوش کو عریاں کردیں