وجود

... loading ...

وجود

سنگین غداری کیس حکومت اور عدلیہ کے لیے چیلنج

هفته 03 مارچ 2018 سنگین غداری کیس حکومت اور عدلیہ کے لیے چیلنج

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت سنگین غداری کے کیس کی سماعت کے لیے 8 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے، اس کیس کی سماعت جسٹس یحیٰی آفریدی کی سربراہی میں سہ رکنی خصوصی عدالت اسلام آباد میں وفاقی شرعی عدالت کی بلڈنگ میں کرے گی جس کے لیے بیگم صہبا مشرف اور دوسرے فریقین بشمول متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کر دئیے گئے ہیں۔ اس کیس کے حوالے سے رجسٹرار خصوصی عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو خصوصی سکیورٹی انتظامات اور ملزم پرویز مشرف کو ان کی پیشی کے وقت فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مراسلہ بھجوا دیا ہے۔ اس کیس کی آخری سماعت مئی 2017ء کو ہوئی تھی جب پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف اور ان کی بیٹی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ تمام پراپرٹی اور بنک اکائونٹس مشرف کے نام نہیں ہیں اس لیے عدالت ان کی پراپرٹی قرق نہ کرے اور ان کے منجمد کیے گئے بنک اکائونٹس ڈی فریز کرنے کے احکام صادر کرے۔ عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے متعلقہ اداروں اور ایف آئی اے کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور اس معاملہ میں ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ طلب کی تھی۔ آخری تاریخ سماعت پر مشرف اور ان کی اہلیہ کے وکلا نے بتایا تھا کہ مشرف ملک واپس آنا چاہتے ہیں بشرطیکہ انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کر دی جائے، اس حوالے سے رجسٹرار خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی کو یقینی بنانے کے لیے گزشتہ روز چیف کمشنر اور آئی جی پولیس اسلام آباد مراسلہ بھجوا دیا ہے۔ مقررہ تاریخ سماعت پر مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کے عدالتی حکم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی جائے گی۔

سابق صدر جنرل (ر) مشرف کے خلاف ملک میں 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگانے اور دوسرے غیر قانونی اقدامات بشمول پی سی او نافذ کرنے کے خلاف وفاقی حکومت کے ایما پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا جس میں ان پر فرد جرم بھی عائد کر دی گئی تاہم اس کے بعد مشرف بیرون ملک چلے گئے۔ انہیں عدالت میں پیش ہونے کا حکم صادر کیا گیا اور ان کی عدم پیشی کے باعث خصوصی عدالت نے انہیں مفرور قرار دے کر ان کی جائیداد بحق سرکار ضبط کرنے کے احکام صادر کیے۔ مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کے لیے مسٹر جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس سائرہ بتول اور جسٹس یاور علی پر مشتمل سہ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم اب مسٹر جسٹس یاور علی کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے منصب پر فائز ہونے کے باعث بنچ کے تیسرے فاضل رکن کی نامزدگی وفاقی وزارت داخلہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی مشاورت سے کرے گی۔ غداری کیس میں سینئر ایڈووکیٹ محمد اکرم شیخ بطور سپیشل پبلک پراسیکیوٹر پیش ہو رہے ہیں، مشرف کے خلاف زیر سماعت آئین سے غداری کا یہ کیس اس حوالے سے عدلیہ اور حکومت کے لیے ایک چیلنج کیس ہے کہ ماورائے آئین اقدام کے تحت آئین کو توڑنے اور منتخب پارلیمنٹ کو گھر بھجوانے والے کسی جرنیلی آمر کو آج تک قانون و انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا، اس تناظر میں پرویز مشرف وہ واحد بقید حیات جرنیل ہیں جو آئین کی دفعہ 6 کے خلاف اقدام اٹھانے پر قانون کے شکنجے میں آئے ہیں۔ اس حوالے سے مشرف کو آئین و قانون کی عملداری کی زد میں لانا موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے ۔ چونکہ مشرف کو پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں پروٹوکول دے کر ملک سے باہر جانے کی سہولت فراہم کی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے مشرف کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا قاتل قرار دینے کے باوجود ان کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی تھی جس پر میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے خلاف پوائنٹ ا سکورنگ کی سیاست کا موقع ملا اور جب وہ اقتدار میں آئے تو اسی بنیاد پر مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے ان کی آزمائش شروع ہو گئی جس کا ان سے پیپلز پارٹی کی جانب سے اس بنیاد پر تقاضہ شروع ہوا کہ مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کی حکومت اور اسمبلی کو توڑ کر ہی آئین کی دفعہ 6 کے زمرے میں آنے والے غداری کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔

میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کا پہلا سال مشرف کے خلاف کیس کے حوالے سے وکلا سے مشاورت میں گزار دیا اور جب ان کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کا کیس بنانے کی نوبت آئی تو یہ کیس ان کے 12 اکتوبر 1999ء والے ماورائے آئین اقدام کے بجائے 3 نومبر 2007ء کے پی سی او اور ایمرجنسی کے نفاذ والے اقدام کے خلاف تیار کیا گیا جس کے بارے میں آئینی ماہرین کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف نے مشرف سے ذاتی انتقام لینے کے الزامات سے بچنے کے لیے ان کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو کیس کی بنیاد نہیں بنایا تاہم اس سے کیس کی بنیاد ہی کمزور رکھ دی گئی ہے اس لیے مشرف کو آئین سے غداری کی موت کی سزا تک لے جانا شاید ممکن نہیں ہو گا۔ اس وقت مزید دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ اس کیس کی سماعت کے لیے اعلیٰ عدلیہ کا بنچ تشکیل دلانے کی خاطر وفاقی وزارت قانون نے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری سے تحریری طور پر رجوع کیا جو خود بھی مشرف کے 9 مارچ 2007ء کے اقدام کی بھینٹ چڑھ کر بطور چیف جسٹس معطل ہوئے تھے اور پھر مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے اقدام کے تحت ان کے سمیت پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے تمام فاضل ججوں کو گھروں پر نظربند کر دیا گیا تھا، اس طرح مشرف کے آئین سے غداری والے جرم کے معاملہ میں جسٹس افتخار چودھری سے انصاف ملنے کی زیادہ توقع تھی تاہم انہوں نے بھی ذاتی انتقامی کارروائی کے الزام سے بچنے کے لیے خود اس کیس کی سماعت کرنے کے بجائے خصوصی بنچ کی تشکیل کے لیے وفاقی حکومت سے نام طلب کر لیے چنانچہ اس پراسس میں موجودہ حکومت کا مزید ایک سال گزر گیا۔

جب اس کیس کی سماعت کے لیے تشکیل دئیے گئے خصوصی بنچ کے روبرو کیس کی سماعت کی نوبت آئی تو اس وقت تک مشرف کے خلاف نواب اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات بھی دائر ہو چکے تھے چنانچہ ان تمام مقدمات کی بیک وقت سماعت شروع ہونے کے باعث غداری کیس میں بھی تاریخیں پڑنے لگیں اور اس دوران وفاقی حکومت کے مقرر کردہ ا سپیشل پبلک پراسیکیوٹر محمد اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے یہ موقف بھی اختیار کر لیا کہ مشرف کے خلاف یہ کیس غداری کا نہیں بلکہ آئین سے انحراف کا کیس ہے جس سے یہ عندیہ ملا کہ حکومت انہیں آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کے جرم کی اصل سزا نہیں دلانا چاہتی، جب اس کیس میں مشرف پر فرد جرم عائد ہو گئی تو انہیں مختلف جسمانی عوارض لاحق ہو گئے جن کی میڈیکل رپورٹیں عدالت میں پیش کرکے حاضری سے استثنیٰ لیا جاتا رہا اور پھر ایک میڈیکل رپورٹ میں ان کا مرض پاکستان میں لاعلاج قرار دے کر عدالت سے علاج کے لیے انہیں بیرون ملک بھجوانے کی استدعا کی گئی اور انہیں بیرون ملک لے جانے کے لیے ائر ایمبولنس کا بھی اہتمام کر دیا گیا۔ اس میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جبکہ عدالتی احکام کی بنیاد پر وفاقی وزارت داخلہ نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا چنانچہ اسی روز وہ بیرون ملک روانہ ہو گئے جس کے بعد اب تک ان کی ملک واپسی ممکن نہیں ہو سکی اور وہ لندن اور دبئی میں مختلف تقریبات میں موج مستی کرتے نظر آتے رہے ہیں۔

اس مسئلہ پر آئینی، قانونی اور عوامی حلقوں میں یہ تبصرے بھی زیر گردش رہے کہ مشرف کو مقتدر حلقوں کی مداخلت پر ملک سے باہر بھجوایا گیا ہے تاہم جب میاں نواز شریف اور ان کے اہلخانہ پانامہ لیکس کیس کی زد میں آئے تو انہوں نے اس حوالے سے عدلیہ کو مطعون کرنا شروع کر دیا کہ انصاف کی عملداری کے نام پر انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ آئین کی دفعہ 6 کے سنگین جرم کے ملزم مشرف کو پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف کیس چلانے کی کسی کو جرات نہیں ہو رہی، یہی الزام بعدازاں پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے بھی عائد کیا جانے لگا اور اس سلسلہ میں ریلوے اراضی سکینڈل میں ملوث سابق اعلیٰ فوجی حکام بشمول جنرل جاوید اشرف قاضی، سعیدالظفر، حامد علی اور اختر علی کے نام بھی انصاف کی عملداری کے حوالے سے زیر گردش آنے لگے۔ گزشتہ روز چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے بھی کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کا تقاضہ کیا ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں بلکہ ملٹری اور عدلیہ کا بھی ہونا چاہئے اور اس کے لیے نیب کی ازسرنو تشکیل کی جائے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم نے کرپشن فری معاشرے کی بنیاد رکھنی ہے تو پھر بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کا عمل شروع کرنا ہو گا جس میں کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کا شائبہ بھی نہیں گزرنا چاہئے۔ چونکہ مشرف کے خلاف گزشتہ اڑھائی سال سے غداری کیس کی سماعت زیر التوا پڑی تھی اور اسی طرح اراضی سیکنڈل میں ملوث سابق فوجی حکام کی بھی اب تک قانون کے کٹہرے میں آنے کی نوبت نہیں آئی تھی اس لیے پانامہ کیس میں نااہل ہونے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے دوسرے قائدین کو انصاف کی عملداری پر انتقامی کارروائی کا الزام لگانے کا موقع ملا جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی اپنے مقاصد کے تحت اس پر سیاست شروع کر دی۔ اب خصوصی عدالت میں مشرف غداری کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہو رہی ہے اور نیب کی درخواست پر ریلوے اراضی سیکنڈل میں ملوث سابق فوجی حکام کے نام بھی ای سی ایل میں شامل کر لیے گئے ہیں تو اب بادی النظر میں سب کے لیے بے لاگ احتساب اور ان پر انصاف کی عملداری کا پراسس شروع ہو گیا ہے۔ اس وقت مشرف کو ملک واپس لانا حکومت اور عدالت دونوں کے لیے بڑا چیلنج ہے جس کے لیے خصوصی عدالت نے مشرف کی فول پروف سکیورٹی کے انتظامات بھی کرا لیے ہیں۔ یہ امر واقع ہے کہ مشرف کی ملک واپسی سے ہی انصاف کی بے لاگ عملداری کا تصور پختہ ہو گا بصورت دیگر پانامہ لیکس جیسے سیاسی بنیادوں پر قائم مقدمات کے حوالے سے انتقامی کارروائیوں کے الزامات سے بچنا بہت مشکل ہو گا۔ مشرف کیس کو بہرصورت منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہئے تاکہ ماورائے آئین اقدامات کے لیے ہوتی موجودہ سازگار فضا سے بھی کسی کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر