وجود

... loading ...

وجود

بنی گالہ کی تعمیرات غیرقانونی ،عمران خان نے خودسپریم کورٹ میں درخواست دی

جمعه 02 مارچ 2018 بنی گالہ کی تعمیرات غیرقانونی ،عمران خان نے خودسپریم کورٹ میں درخواست دی

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے عمران خان کے بنی گالہ گھر کی تعمیرات کے معاملے پر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس کے مطابق سابق سیکرٹری یونین کونسل (یو سی) نے بنی گالا گھر کے این او سی کو جعلی قرار دے دیا۔سپریم کورٹ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عمران خان بنی گالہ گھر تعمیر کی رپورٹ جمع کرائی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تین سو کنال اراضی 2002 میں جمائما کے نام پر خریدی گئی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بنی گالہ کی زمین خریدتے وقت وزارت داخلہ سے این او سی نہیں لیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جمائما خان کا شناختی کارڈ محکمہ مال میں پیش نہیں کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ 4 انتقالات کے لیے جمائما خود پیش ہوئیں نہ ہی کوئی نمائندہ آیا جبکہ صرف ایک انتقال کے وقت ان کی جانب سے میجر ریٹائرڈ ملک پرویز پیش ہوئے تھے۔رپورٹ کے مطابق 2005ء￿ میں یہ زمین عمران خان کو پاور آ ف اٹارنی کے ذریعے تحفے میں دی گئی تھی۔سابق سیکرٹری یونین کونسل (یو سی) 12 کہو محمد عمر نے بنی گالہ گھر کے این او سی کو جعلی قرار دے دیا ہے۔

محمد عمر کا کہنا تھا کہ وہ 2003 میں یو سی بارہ کہومیں سیکرٹری تعینات تھے اور یونین کونسل نے بنی گالہ میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کے لیے کوئی این او سی جاری نہیں کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو فراہم کی گئی دستاویز پر تحریر بھی یونین کونسل کی نہیں ہے۔محمد عمر نے بتایا کہ 2003ء میں یونین کونسل کے دفتر میں کمپیوٹر کی سہولت ہی موجود نہیں تھی اور اس وقت یونین کونسل کے تمام امور ہاتھ سے نمٹائے جاتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان سے درخواست پر مزید کارروائی کے لیے بنی گالہ کا نقشہ طلب کیا گیا تھا تاہم ہمیں نقشہ فراہم نہیں کیا گیا جس کے بعد مزید کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی تھی۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے اسلام آباد انتظامیہ کی رپورٹ پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کے مضافات میں تعمیر شدہ لاکھوں رہائشگاہوں میں سے کسی کا نقشہ موجود نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے سیکٹرز میں سٹی ڈسٹرکٹ کا عمل دخل ہی جبکہ دیہی علاقوں کے انتظامات یونین کونسلز کے سپرد تھا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائش گاہ کے حوالے سے عدالت میں پیش کیے گئے دستاویز میں کس قسم کی غلط بیانی نہیں کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ موہڑہ نور جسے بنی گالہ کہا جاتا ہے، میں عمران خان کی جانب سے زمین کی خریداری سے قبل تعمیرات کی اجازت تھی اور اس دور میں موہڑہ نور یونین کونسل بہارہ کہو کے زیر انتظام تھا۔بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو تعمیرات کی اجازت دی گئی اور نقشہ مانگا گیا جو فراہم کیا گیا بعد ازاں تعمیرات کا نقشہ عدالت میں بھی پیش کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ سرکاری سرپرستی میں پراپگینڈے کے ذریعے قیامت اٹھائی جارہی ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ شاید جودستاویز دی گئیں ان سے کوئی شخص صادق اور امین نہیں رہا۔یاد رہے کہ 13 فروری کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی عمران خان کو بنی گالا میں تعمیر اپنی 300 کنال کی رہائش گاہ کا منظور شدہ سائٹ پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔تاہم عمران خان کے وکیل کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے کے بعد 22 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ بنی گالا میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کا سائٹ پلان منظور شدہ نہیں۔

خیال رہے کہ اخبارات میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی ا?رکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔

یادرہے کہ اسلام آباد کے مشرق میں راول ڈیم کے قریب واقع بنی گالا کی وجہ شہرت وہاں موجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور نامور پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ ہے۔لیکن گزشتہ کئی ماہ سے بنی گالامیں تعمیرات اوروہاں عمران خان کی رہائش گاہ کے غیر قانونی ہونے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ اور اس سے متعلق چہ مگوئیوں میں اْس وقت اضافہ ہوا، جب گزشتہ برس عمران خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف نوٹس لینے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو متحرک کرنے کی درخواست کی۔لوگوں نے عمران خان کی جانب سے اس خط کے بعد حیرانگی کا اظہار کیا کہ جب بنی گالا میں موجود تمام تعمیرات بشمول ان کے گھر کے، غیر قانونی ہیں تو پھر انہوں نے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی جانب سے بنائی جانے والی تعمیرات کے خلاف نوٹس لینے کی درخواست کیوں کی؟

ملک کے عام عوام اوراسلام آباد کے شہری بنی گالا کو ایک رہائشی علاقے کے طور پر جانتے ہیں، جہاں گزشتہ 3 دہائیوں میں اعلیٰ اور درمیانے طبقے کے کئی لوگوں نے اپنی شاندار رہائش گاہیں بنائیں۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔ ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی آرکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔یہاں تک اسلام آباد کی تعمیر کے ماسٹر پلان کی سرکاری دستاویزات میں بھی بنی گالا کے علاقے کو نیشنل پارک کے لیے مختص جگہ قرار دیا گیا، مگر بعد ازاں یہاں رفتہ رفتہ پہلے امیر طبقے اور پھر متوسط طبقے کے لوگ آباد ہونا شروع ہوئے۔

آج اگر گوگل میپ کو بھی استعمال کیا جائے گا تو اس میں بھی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بنی گالا جیسا عالمی شہرت یافتہ علاقہ درحقیقت غیرقانونی طور پر قائم ہوا۔بنی گالا میں ابتدائی طور پر 1980 میں گھروں کی تعمیر ہونا شروع ہوئیں، اسلام آباد کے پڑوس میں واقع ہونے کی وجہ سے علاقے کا بنیادی ڈھانچہ اچھا بنا ہوا تھا، جس کی وجہ سے علاقے نے بلڈرز کی توجہ حاصل کرلی، جنہوں نے گھروں کی تعمیر کے بعد سی ڈی اے کے مقابلے میں کم دام پر فروخت کرنا شروع کیا اور یوں یہاں آبادی بڑھنے لگی۔چند ہزار روپوں کے عوض لوگوں نے بنی گالا میں ایک کنال کا پلاٹ حاصل کرنا شروع کیا اور یوں لوگوں نے نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بھی پلاٹ خریدے اور اس طرح یہ علاقہ ایک بڑے رہائشی علاقے میں تبدیل ہوگیا۔

بلڈرز نے بنی گالا میں حاصل کی گئی زمین کے کاغذات کو قانونی بنانے کے لیے دستاویزات میں یہ تحریر کرنا شروع کیا کہ انہوں نے یہ زمین وہاں کے رہائشی گاؤں کے افراد سے حاصل کی، جو سی ڈی اے کی مداخلت کے بغیر حاصل کی گئی۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام آباد کے شہری علاقوں کے لیے سی ڈی اے جب کہ بنی گالا جیسے دیہی علاقوں کے لیے اسلام آد کیپیٹل ٹیریٹری ایڈمنسٹریشن (آئی سی ٹی اے) مجاز اختیار رکھتا ہے، جو تمام دیہی علاقوں میں تعمیرات سمیت دیگر کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔بنی گالا میں جب غیرقانونی تعمیرات زیادہ ہونے لگیں تو سی ڈے اے نے وہاں تجاوزات کے خلاف پہلے 1990 اور بعد ازاں 1992 میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔سی ڈی اے کا 1992 میں شروع کیا گیا آپریشن 2 دن تک جاری رہا، جس میں چند ہلاکتیں اور کئی افراد زخمی بھی ہوئے، جس کے بعد متاثرین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے 1998 میں بنی گالا کے رہائشیوں کے حق میں فیصلہ دیا، بعد ازاں 1999 میں سپریم کورٹ نے بھی ایسا ہی فیصلہ دیا۔

عدالتی فیصلے سے بنی گالا جیسے علاقے کے لیے بنائے گئے اسلام آباد کے مقامی قانونی ضابطے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری زوننگ ریگولیشن 1992 پر بھی اثرات پڑے، اس ضابطے کے مطابق بنی گالا کے زون 3 اور زون 4 کو رہائشی عمارتوں سے محفوظ قرار دیا گیا تھا، مگر وہاں تعمیرات ہوچکی تھیں۔بعد ازاں انتظامیہ نے اسی ضابطے میں 2005 میں تبدیلیاں کیں، جس میں بنی گالا زون 4 میں محدود پیمانے تک رہائشی تعمیرات کی اجازت دے دی گئی، بعد ازاں 2010 میں اس ضابطے میں مزید ترامیم بھی کی گئیں، جن کے تحت زون 4 میں کمرشل اور رہائشی عمارتیں اور پلازے بنانے کی اجازت دی گئی۔زوننگ قوانین میں ترامیم کے بعد بنی گالا کے زون 3 اور زون 4 میں کمرشل اور رہائشی عمارتیں بنانا قانونی بن گیا تھا، مگر پھر سی ڈی اے حکام نے ان تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا، جس پر لوگ حیران رہ گئے کہ پہلے حکام نے خود ہی اس عمل کو قانونی قرار دیا اور اب اسے غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے۔سی ڈی اے کی اسی دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بنی گالا میں موجود عمران خان کی رہائش کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔اگرچہ عمران خان نے قانونی طور پر زمین خردیدی، اسی طرح دیگر افراد نے بھی قانونی طور پر زمین حاصل کی اور خود انتظامیہ نے بنی گالا میں تعمیرات کو قانونی قرار دیا تو اب اسے غیر قانونی قرار دینے کی منطق کیا ہے؟اس حوالے سے مباحثوں کا حقیقتاً کوئی نتیجہ نہیں نکلنا، جب تک اس علاقے کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے سی ڈی اے کی گذشتہ پالیسیوں، زوننگ قواعد میں تبدیلیوں اور بنی گالا کے رہائشیوں کی جانب سے تعمیرات کا ایماندارانہ جائزہ نہ لیا جائے، اس جگہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے بدعنوان اشرافیہ یا حکومتی عہدیداران پر تنقید سے بنی گالا سے متعلق وہی گمراہ کن تصورات برآمد ہوں گے، جیسے میڈیا پر پیش کیے جاتے ہیں۔تبدیلی اْسی وقت آئے گی، جب ایک ایسا کلچر بنایا جائے جہاں نہ صرف دوسروں کے اعمال پر ان پر تنقید کی جائے، بلکہ خود اپنی جانچ اور احتساب بھی کیا جائے۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر