وجود

... loading ...

وجود

نثار کی جاں نثاری۔۔۔۔ شہباز کی پرواز۔۔؟

جمعرات 01 مارچ 2018 نثار کی جاں نثاری۔۔۔۔ شہباز کی پرواز۔۔؟

نواز شریف کی دس سالہ جلاوطنی ن لیگ کا بال بیکا نہیں کرسکی ۔ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل تھی اور جنرل جیلانی نے نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ نتھی کر دیا یوں ن لیگ کو دائیں بازو کی جماعت کے طور پر اُبھارا گیا۔ اب وہی ن لیگ اَِس وقت مشکلات کا شکار ہوچکی ہے۔ عدلیہ نے نواز شریف کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ یوں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت سے بھی نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔عدلیہ کی اپنی ایک تاریخ ہے عدلیہ کبھی بھی مقبول فیصلے نہیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ آج تک عوام ہضم نہیں کر پائے۔ یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دلانے والے نواز شریف کو جب اُسی عدالتِ عظمیٰ نے نکال باہر کیا تو پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

بھٹو کی پھانسی پر جیالوں نے خود سوزیاں کر لی تھیں۔ نواز شریف نا اہلی کے بعد بہت زیادہ ردعمل آیا۔ عدلیہ اور فوج کے حوالے سے بطور سابق وزیراعظم وہ الفاظ بیان کر رہے ہیں جو کہ مہذب دُنیا کا خاصہ نہیں ہے۔ اب جبکہ شہباز شریف کو ن لیگ کی صدارت سونپ دی گئی ہے اور نواز شریف تا حیات قائد بن گئے ہیں ۔ پارٹی کی پالیسی میں شاید کو ئی خاص تبدیلی نہ آئے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو یہی دیکھا جا رہا تھا کہ شہباز شریف اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے تھے لیکن جب سے نیب نے شہباز شریف کو اپنے دفتر بلوایا ہے اور نوکر شاہی میں اُن کے چہیتے افسروں پر ہاتھ ڈالا ہے اب شہاز شریف کے بیانات میں کا فی تلخی آتی جارہی ہے۔ یوں وہ شہبازشریف جو چوہدری نثار کے ساتھ ملک کر یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ اداروں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا وہ بھی اپنے بھائی کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔ اب ایسا دکھائی د یتا ہے کہ نواز شریف نے اہم میٹنگ میں چوہدری نثار کو نہ بلا کر یہ پیغام دیا کہ وہ اب اُن سے راہیں جُدا کر چکے ہیں۔ اُس میٹنگ میں جس میں شہباز کو پارٹی صدار ت سونپی گئی ہے اُس میں چوہدری نثار کا نہ بلایا جانا۔ مطلب یہی ہے کہ نواز اور نثار کی تیس سال کی رفاقت ختم۔ اب شہباز کی پرواز دیکھیں کیا کرتی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے اداروں کیساتھ محاذ آرائی سے روکنے والے تین دہائیوں کے ساتھی چوہدری نثار سے راستہ جدا کر لیا اور خصوصی ہدایت پر چوہدری نثار کو مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا، جبکہ شہباز شریف، ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق نے نواز شریف کو منانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ نہیں مانے یہ تینوں رہنما رات گئے تک نواز شریف کو منانے کی کوشش کرتے رہے، تاہم نواز شریف نے کہا جس موقف کی عوام نے حمایت کی اس سے اختلاف کرنیوالے کے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں، عوام نے میرے بیانیہ کی بھرپور حمایت کی جبکہ چوہدری نثار نے سرعام مخالفت کی اس لیے ایسا نہیں ہو سکتا مخالفت بھی کی جائے اور اس کو اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی جائے۔

ایوب خان ، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر مشرف ، زرداری اور نواز شریف ہما ری ملکی سیاست میں فعال کردار کے حامل ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے سیاستدان یا مذہبی رہنماء صرف بطور پریشر گروپ ہی فعال رہے ہیں اور موجود دو رمیں بھی ایسا ہی ہے۔ ریاستی اداروں کی عزت و تکریم سے ہی ملک میں امن و سکون او ر خوشحالی کی فضاء قائم ہو پاتی ہے۔قانون معاشرے کی بہبود کے لیے ہوتے ہیں۔ مقننہ قانون بناتی ہے عدلیہ اُسکی تشریح کرتی ہے اور حکومت اِس پر عمل در آمد کرواتی ہے۔ گویا کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار عدلیہ کا ہے لیکن اُس فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق نفاذ کیے جانے کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے عدلیہ کے فیصلوںپر من و عن عمل درآمد کرواتے ہیں۔ گویا مققنہ نے قانون بنا کر اپنا فرض ادا کردیا۔ عدلیہ نے قانون کے مطابق فیصلہ کردیا اور اُس فیصلے کو منوانا کے لیے طاقت/ نافذ کے کرنے کی قوت صرف حکومت کے پاس ہوتی ہے۔

آزاد عدلیہ کے نظریے کے مطابق انتظامیہ کے زیر تحت عدلیہ نے کام نہیں کرنا ہوتا ۔ بلکہ انتطامیہ اِس حوالے سے عدلیہ کے احکام پر عمل درآمد کروانے کی سو فی صد ذمہ دار ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں شرح خواندگی سو فی صد ہے وہاں پر جمہوری نظام کے ثمرات نظر آتے ہیں لیکن جہاں وڈیرہ شاہی، سرمایہ دارنہ اور جاگیر دارانہ نظام ہو وہاں انسان کی عزت و توقیر نہیں بلکہ طاقت کو فوقیت حاصل ہے ایسا ہی تیسری اور چوتھی دُنیا کے ممالک کا پرابلم ہے وہ یوں کہ انسانوں کو نام نہاد جموریت جانوروں کی طرح ہانک رہی ہوتی ہے۔ یہاں نام نہاد جموریت کے طریقہ کار میں صرف وڈیرے سرمایہ دار، با اثر، لوگ ہی انتخابات جیت کر عوام پر باد شاہت کرتے ہیں۔ حالیہ اقدمات کے نتیجے میں چوہدری نثار کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے اِس کے بعد شاید اتنی لمبی رفاقت کو چوہدری نثار قائم نہ رکھ سکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف جو ہمیشہ چوہدری نثار اور نواز شریف کے درمیان پُل کام کرتے ہیں اب اُن کی پرواز کا دائر کار کیا ہوگا اور وہ ن لیگ کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اُس سے کیسے عہدا براء ہو سکیں گے۔ پاکستان کو اللہ پاک قائم و دائم رکھے (آمین)


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر