... loading ...
شہباز شریف مسلم لیگ نون کے قائم مقام صدر منتخب ہوگئے، مگر نہیں!!! نواز شریف اب پارٹی کے تاحیات قائد رہیں گے۔ پہلے ایک واقعہ پڑھیے!
چار پانچ سال ہوتے ہیں۔ لاہور کے الحمراء ہال میں شہبازشریف نے اُن دنوں کو تازہ کیا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ایک ٹیم سے مقابلہ جاری تھا۔ اور دونوں بھائی کریز پر موجود تھے۔شہبازشریف نے کہا کہ ایک گیند آئی اور میں واضح طور پر ایل بی ڈبلیو ہو گیا مگر امپائر نے آؤ ٹ نہیں دیا۔مخالف ٹیم نے شور بھی مچایا مگر امپائر نے اُنگلی نہیں اُٹھائی۔ اور وہ کھیلتے رہے۔ کھیل جاری تھا یہاں تک کہ ایک باہر کی گیند تھی جسے اُنہوں نے چھوئے بغیر جانے دیا۔ کوئی اپیل بھی نہیں ہوئی مگر امپائر نے اُنگلی اُٹھا لی۔ شہبازشریف غصے میں امپائر کی طرف گئے اور پوچھا کہ میں نے تو گیندکو چھوا تک نہیں آپ نے مجھے آؤٹ کیسے دے دیا۔ امپائر نے کہا میرا کوئی قصور نہیں، آپ بڑے میاں سے پوچھیں اُنہوںنے کہا کہ یہ پہلے آؤٹ تھا تب نہیں دیااب دے دو۔ یوں لگتا ہے کہ شہبازشریف کا کرکٹ میچ ختم نہیں ہوا۔ وہ آؤٹ تو ہو چکے مگر مسلم لیگ نون کی کیریز پر اُنہیں کھیل جاری رکھنے کا اشارہ ہوا ہے۔ مگر یہ اختیار اُن کے ساتھ کھیلتے اُن کے بھائی کے پاس ہی رہے گا جو کریز پر رہتے ہوئے امپائر نگ بھی کرتے ہیں۔کرکٹ میچ ختم کہاں ہوا، آج تک چلاآتا ہے۔ شہبازشریف کے کھیلنے یا نہ کھیلنے کا فیصلہ امپائر نہیں بھائی کریں گے۔ جو کراچی کے بھائی کی طرح اب مستقل قائد تحریک ہوگئے۔کوئی دن گزرے گا کہ واضح ہوجائے گا کہ اُنہوں نے راستا دیا ہے شہبازشریف کو میدان نہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ شہباز شریف کا فیصلہ خوشدلی سے نہیں ہوا۔ اس میں وقت کا ایک جبر ہے۔ ایک نہیں متعدد مرتبہ بھائیوں کے مابین موجود تلخی سامنے آئی۔ بچوں کے سیاسی کردار میں بھی اس کی جھلکیاں دکھائی پڑتی تھیں۔کلثوم نواز کی انتخابی مہم کے ہنگام شہبازشریف کو دوررکھا گیا اور حمزہ شہبازتو ملک سے باہر کردیے گئے۔ ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد جب نوازشریف 4؍اکتوبر2017 کو مبارک باد دینے حلقے کے عوام میںپہنچے تو نوازشریف نے کلثوم ، مریم اور اپنی طرف سے مبارک باد دی ۔ حاضرین میں حمزہ حمزہ کا شور اُٹھا۔ نوازشریف کو اپنے بھتیجے کا نام لینا ہی پڑا۔ بیگانگی ایک اور چیز ہے مگر تلخی کچھ اور۔ یہاں یہ پائی جاتی ہے اور نظر بھی آتی ہے۔ شہبازشریف کے صدر بنتے ہی خطرہ ہے کہ بچوں کا سیاسی کردار بھی بدلے گا۔ کیا نہیں؟نوازشریف اپنی بیٹی مریم کو سیاسی جانشین کے طور پر لیے لیے گھومتے رہے۔ یہی نہیں ایک جلسے میں تو مریم کو خطاب بھی اپنے بعد کرایا۔ کیا یہ ایک پیغام نہیں تھا؟یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ نوازشریف کو زندہ مکھی نگلنی پڑی ہے۔ شہبازشریف کا نام قائم مقام صدر کے طور پر لیتے ہوئے نوازشریف کا چہرہ ایک مختلف کہانی سنا رہاتھا۔
امتحان ہے، یہ ایک امتحان ہے اور طاقت کا کھیل ہر امتحان کو کٹھن بنادیتا ہے۔ نوازشریف متضاد اور متحارب بیانیہ رکھتے ہیں۔ جبکہ شہبازشریف ایک مختلف کردار کے خواہاں۔ شہبازشریف کے لیے پہلا امتحان تو سامنے ہی کھڑ اہے کہ اُنہیں اپنی خفیہ ملاقاتوں کے ساتھی چودھری نثار کو سنبھالنا ہے۔ جنہیں نوازشریف گوارا کرنے کو تیار نہیں۔ اُنہیں مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں نہیں بلایاگیا۔ اطلاع یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق اور شہبازشریف رات گئے تک نوازشریف کو آمادہ کرتے رہے کہ چودھری نثار کو اجلاس کی دعوت دے دی جائے مگر شنوائی نہ ہوئی۔مریم نوازنے ایک ٹوئٹ کے ذریعے نوازشریف کے اس بیان کی تردید کردی کہ چودھری نثار کے لیے پارٹی کے دروازے بند ہوگئے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ابھی کچھ روز قبل نوازشریف نے چودھری نثار کا نام لیے بغیر اُن کا مضحکہ اڑایا تھا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو اُنہیں جی ٹی روڈ کے بجائے موٹر وے سے جانے کا مشورہ دے رہے تھے؟چودھری نثار مقطع میں ایک سخن گسترانہ بات کی طرح اس کھیل میں آپڑے ہیں اورپڑے رہیں گے۔ شہبازشریف کو اسی پُل صراط سے نہیں گزرنا ابھی اس شوقِ سفر کے اور بھی مراحل ہیں۔مریم نواز کی اُس ٹیم کا کیا ہوگا جو عقابوں کی طرح اداروں پر جھپٹی تھی۔ ظاہر ہے کہ نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی اُنہیں فعال دیکھنا چاہیںگے ۔ جس کی ذمہ داری شہبازشریف نہ اُٹھا پائیںگے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ شہبازشریف جن لوگوں کو پسند نہیں کرتے اُن میں پرویز رشید، طارق فاطمی، طلال چودھری اور دانیال عزیز شامل ہیں۔ مریم نواز اُن کے کردار کوسکڑتا گوارا نہیں کریںگی۔ آخرقائد تحریک کے بیانئے کی جنگ کے یہی تو ’’جرنیل‘‘ ہیں۔ خبر یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف اس پورے کھیل کے منطقی انجام کو جانتے تھے۔ اور اُنہوں نے بہت پہلے سے اپنے معاملات چھوٹے بھائی سے طے کرنا شروع کردیے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ معاملہ پارٹی پر گرفت رکھنے کی خاندانی جنگ میںتبدیل ہو سکتا ہے ۔کیونکہ اکثر لوگ مشہور انگریزی محاورے ’’بادشاہ مرگیا،بادشاہ زندہ باد‘‘ کی سیاسی حیا رکھتے ہیں۔ بس تنازع کی یہ کھڑکی اب کھلا ہی چاہتی ہے۔اگلے پینتالیس روز اہم ہیں۔ابھی شہباز شریف کو مسلم لیگ نون کے آئین کے مطابق مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس میں باضابطہ صدر منتخب کر نے کا مرحلہ باقی ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اگلے دس پندرہ دنوں میںکلثوم نواز واپس وطن پہنچ سکتی ہے۔ کیا شہبازشریف ، نوازشریف کے من بھاتے راستے پر چل سکیں گے؟پارٹی کے اندر رہنماؤں کی اکثریت مفاہمت کی راہ لینا چاہتی ہیں۔ جس کے لیے شہبازشریف سازگار ہیں۔ مگر نوازشریف اور مریم نواز کچھ عقابوں کے ساتھ جھپٹنے پلٹنے کے خوں گرم معرکے کے خواہش مند ہیں۔
شہبازشریف نے مسلم لیگ نون کے قائم مقام صدر منتخب ہونے کے بعد پتوکی میں پہلا جلسہ کیا ۔جہاں نوازشریف کے بیانئے کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ یہ پہلا جلسہ تھا مگر اس میں کوئی گھن گرج نہیں تھی۔ شہبازشریف تو کرکٹ اپنی مرضی سے نہیں کھیل سکے تھے اب اُنہیں سیاست اپنی مرضی سے کرنی ہے ، وہ کیسے کریں گے؟سیاسی زندگی کے حقائق بہت بے رحم ہوتے ہیں۔اور زندہ رہنے کی آرزو موت تک لے جاتی ہے مگر پیچھا نہیں چھوڑتی۔ آخری فیصلہ وقت کرتا ہے جس کا جبر آرزؤں کا احترام نہیں کرتا۔