... loading ...
خلیفہ چہارم حضرت علیؓ نے گرہ کشائی کی جس کی حکمت نہیں چلتی اُس کی حکومت بھی نہیں چلتی۔
حکومت ہے مگر حکومت کہاں ؟ ہرگزرتا دن اقتدار کی باگ ڈھیلی پڑتی جاتی ہے۔ مگر شریف خاندان تُلا ہے۔سوال پیدا ہوا کہ باطن میں یکساں دو لوگ آخر اپنے انجام میں مختلف کیوں ہوسکتے ہیں؟اور احد چیمہ جواب بن کر ٹپک پڑے۔شہبازشریف ،نوازشریف سے مختلف نہیں۔ تقدیر نے دونوں کو ایک مقام پر لاکھڑا کیا۔ تین دہائیوں پر محیط بدعنوانیوں کی آکاس بیل سے لپٹے کچھ’’ کیڑوں ‘‘نے من بھاتے بیانئے تخلیق کرلیے تھے۔مگر ایک احد چیمہ کی گرفتاری نے سب کچھ بدل دیا۔ شہباز شریف کے چہرے پر موجود تمام نقاب ایک ایک کرکے اُترنے لگے۔دستر خوانی قبیلے نے شہبازشریف کے نام پر ایک بیانیہ تخلیق کیا تھا۔جس کے تین پہلو تھے۔ وہ طاقت ور حلقوں کو قابلِ قبول ہیں۔ایماندار ہیں۔ اور مستقبل اب اُن کا ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو ایک بھائی کی فاتحہ خوانی کے بعد دوسرے کے ہاں اپنی حرص کی وہی پرانی دھمال ڈالنے کو بے چین تھے۔ بڑے بھائی کے راندۂ درگاہ ہونے کے ڈراوے کے بعد یہ بیانیہ اُن کا سہاراتھا۔ احدچیمہ نے مگر اس مخلوق کو وسوسوں سے دوچار کردیا۔ تین دہائیوں پر محیط یہ سلطنت اتنی نحیف تھی کہ ایک آدمی کی گرفتاری کی تاب نہیں لاسکی۔
احد چیمہ کی گرفتاری نے شہبازشریف کا سب کچھ داؤ پر نہیں لگایا مگر پھر بھی وہ کیوں بے چین ہیں؟وہ کیوں خلافِ قانون وآئین اقدامات کو تحریک دینے لگے؟ دراصل احد چیمہ کی گرفتاری شہبازشریف کے چہرے کا نقاب نوچتی ہے۔ اُن کی مصنوعی چھوی کو اڑن چھو کرتی ہے۔ اور اُنہیں ٹھیک نوازشریف کی طرح ایک بدعنوان کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ اصل میں مسلم لیگ نون کا مسئلہ بے انتہا کرپشن کی دلدل میں مستقل دھنسے رہنا نہیں بلکہ اپنی راست بازی پر اِصرار ہے۔اُنہیں حرکتیں تو شمر کے ساتھ صف بند کرتی ہیں۔ مگر وہ اپنا تعارف قافلۂ حسین میں کرانا چاہتے ہیں۔شہبازشریف شاید ہی کسی خطاب میں میں انگلی ہِلا کر یہ نہ کہتے ہوں کہ اُن پر ایک ڈھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہو جائیں تو جو چور کی سزا وہ اُن کی سزا۔بس اس لیے وہ احد چیمہ کی گرفتاری پر آپے سے باہر ہوئے۔اور اُنہوں نے پنجاب کی بیورو کریسی کو تالابندی پر اُکسایا۔ اس کے باوجود کہ یہ ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ اور ہڑتالی افسر تین برس یاپھر عمر قید کی سزا پاسکتے ہیں۔ اب بیورو کریسی بُری طرح تقسیم کا شکار ہے۔
شہبازشریف کا منصوبہ تو یہ تھاکہ نیب کو دفاعی مقام پر دھکیل کر پھر کھڈیرا جائے۔وہ خائف تھے کہ نیب ایک کے بعد ایک منصوبے میں بدعنوانیوں کی بُو سونگھتا پھر رہا ہے ۔ پنجاب میںدائمی اقتدار کے خواہش مندوں نے سرکاری کاموں کو شاہی انداز سے برتا تھا یہاں تک کہ سرکاری منصوبوں کی مسلیں (فائلز) بھی متعلقہ محکموں میں موجود نہیں۔کون پوچھتا۔ ان سے کون پوچھ سکتا ہے؟ یہ یقین خودشریف خاندان میں نہیں تھا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خود سرکاری افسران میں بھی راسخ تھا۔ نیب ایک کے بعدا یک منصوبے کا سراغ لگا رہی ہے اور ایک کے بعد دوسرا کاغذ اور ایک کے بعد دوسری مِسل کا مطالبہ کررہی ہے۔شہبازشریف ہی نہیں سرکاری افسران بھی عاجز ہیں۔ تمام کے تمام حصہ دار پریشان ہیں۔ ایسی صورت میں کچھ افسران شہبازشریف کی ایماء پر مستعار زمین وآسمان پھونکنے کے لیے آمادہ ہیں۔ مگر خوف پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔کہیں دھر نہ لیے جائے۔مبادا ڈوبتے اقتدار میں اُن کی کشتی بھی غرقاب نہ ہوجائے۔ یوں بھی احد چیمہ کے لیے بیوروکریسی میںکوئی ہمدردی نہیں۔ مارچ2011ء میں جب احد چیمہ ڈی سی او لاہور تھے تو 73 پی سی ایس(پراونشل سول سروسز ) افسران گرفتار کیے گئے، سو سے زیادہ معطل ہوئے،دوسو سے زیادہ افسران کے مناصب تبدیل کیے گئے اور سو سے زیادہ افسر بکار خاص (اوایس ڈی) بنائے گئے۔شہباز شریف کی شہ پر احد چیمہ اس کے ذمہ دار تھے اور یہ امر اس لیے زیادہ خطرناک تھا کہ وہ خود ایک ڈی ایم جی افسر ہیں۔ وفاق سے چنیدہ افسر ان اور صوبائی سول سروسز کے افسران میں ایک ازلی ناچاقی موجود ہوتی ہے اور پھر اس پر ایک ڈی ایم جی افسر اُن کے خلاف بروئے کار بھی رہا ہو۔ اس سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے؟ چنانچہ شہبازشریف کی ہلاشیری اور پشت پناہی کے باوجود بھی سرکاری افسران دوررہے۔ ستائیس بدعنوان افسران کے ایک ٹولے نے دو روز قبل نشست جمائی۔ اور احدچیمہ کے باب میں دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی پر غور کیا۔ مگر حوصلے پست تھے۔ کیونکہ پی سی ایس افسران مکمل الگ ہوگئے۔ خود ڈی ایم جی افسران بھی تمام شریک نہ ہوئے۔وہ جانتے ہیںکہ ککڑ کھیہ اڑا کر اپنے ہی سر پر گراتی ہیں۔یہاں تک کہ شہبازشریف کی جنبش ِ ابرو سے ہلتا جلتا،تھرکتا کڑکتا، سرکتا ڈولتاپولیس کا محکمہ بھی الگ تھلگ رہا۔جمعہ 23؍ فروری کو پنجاب کی منقسم بیورو کریسی میں سے ستائیس افسران کی نشست دراصل شریف خاندان کے وفاداروں کے ایک اجلاس کی تصویر تھی۔ کچھ کمشنرز، صوبائی سیکریٹریز اور مزید اعلیٰ افسران۔’’ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار‘‘ کی پھبتی جن کے قامت پر پوری آتی ہے۔ اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ ڈی جی نیب پنجاب اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو پنجاب پولیس گرفتار کرے۔ ان سے کون پوچھ سکتا ہے؟ مگر 12؍ اکتوبر 1999ء کی بغاوت بارِ دگر تازہ ہو جاتی ہے۔ جب آئی جی سندھ رانا مقبول چند ایس ایچ اوز کے ساتھ فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو گرفتارکرنے کراچی کے ہوائی میدان جادھمکے تھے، جیسے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے کہہ رہے ہو:
رستم نے میری تیغ کا حملہ نہ سنبھالا
اس کھیل سے نیب پر دباؤ تو کیا بڑھتا۔خود شہبازشریف بُری طرح بے نقاب ہوگئے۔ پہلا تاثر تو یہ ملا کہ تین دہائیوں پر محیط تقریباً ساڑھے تین لاکھ کی بیوروکریسی کے انتخاب میں شریک شریف خاندان سرکاری افسران میں بھی پسپا ہے۔ پنجاب میں اپنی گرفت کمزور کرچکا۔دوسرا مگر اس سے زیادہ نقصان دہ تاثر یہ ملا کہ شہبازشریف کی نوازشریف سے مختلف چھوی کابیانیہ درست نہیں۔ اُنہوں نے ہڑتال اور تالا بندی کے کھیل میں کود کر یہ ثابت کیا کہ وہ بھی اقتدار کو ڈوبتا دیکھ کر اپنے بھائی کی طرح آمادۂ بغاوت ہوں گے۔ ریاست کے مفادات کو بھاڑ میں جھونکیں گے۔
پنجاب کی بیوروکریسی شریفوں کی وفادار تھی۔ شریف خاندان نے چپکے چپکے افسرشاہی کو ذاتی ملازموں کی فوج میں تبدیل کیا۔بے انتہا دولت کے بل بوتے پر اس خاندان نے وہ خواب دیکھے جو پاکستان کے کسی آدمی کی آنکھ میں نہ اُترے تھے ۔جج ملک قیوم جیسے، پولیس افسر رانا مقبول جیسے ، بیوروکریٹ احد چیمہ جیسے ، فوجی جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ جیسے، اخبار نویس صالح ظافر جیسے اور کالم نگار عطاء الحق قاسمی جیسے۔ اُنہیں سب کچھ میسر آیا۔ مگر وقت بدلتا ہے تو سب بدل جاتا ہے۔ حالات ہی نہیں آدمی بھی۔جس کی حکمت نہیں چلتی اُس کی حکومت بھی نہیں چلتی۔