وجود

... loading ...

وجود

گنگا اُلٹی کیسے بہنے لگی؟

پیر 26 فروری 2018 گنگا اُلٹی کیسے بہنے لگی؟

فیصلہ کن قوتوں سے کیا کوئی بلنڈر ہو گیا ہے کہ گنگا جیسا بڑا دریا بھی اُلٹا بہنے لگ پڑا ہے۔ ایوب، یحییٰ اوربھٹو صاحب کے ادوارِاقتدار میںاُن طلباء یا سیاسی افراد پر تشدد ہوتاجو آمریتوں کے آگے سر جھکانے کی بجائے اکڑنے ،فوں فاں کرنے کے عادی ہو چکے تھے ۔ مگرجوں ہی وہ گرفتار ہو کر تھانوں ،عقوت خانوں میں پہنچتے ان کی طلباء برداری ودیگر عوام رہا کرو رہا کرو ،لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی فلاں صاحب زندہ آبادکے نعرے فضا میں گونجنے لگتے۔اس طرح وہ طالب علم یاسیاسی فرد اتنا پاپولر ہوجاتا کہ پھر اسے طلباء انجمنوں یا ملکی انتخابات میں جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔مخالف طلباء تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاںایسے لیڈر بنے افراد کے خلاف انتخابی امیدوارلانے سے کتراتی یا پھر انہیں مقابلے کے لیے ہی کوئی دستیاب نہ ہوتا ۔بارک اللہ خان ،حافظ ادریس ،حفیظ خان ،جاوید ہاشمی، فرید پراچہ،احمد بلال محبوب ،عبدالشکور راقم خود (میاں احسان باری ) شیخ رشید احمد اورسعد رفیق سب اسی آمرانہ ادوار کے ظلم وتشدد کا شکار رہے اور مقبول ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے بنگلہ دیش نا منظور اور ختم نبوت کی تحریکیں چلائیں جو سیاسی شعور رکھنے والے افراد اس سائنس کو سمجھتے تھے، وہ اس پر عمل کرتے رہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے ایک شخص کو بطور مزدور لیڈر مشہور کرنا تھا،اور میں طلباء مزدور کسان مجلس عمل پنجاب کا صدر تھا۔ میں نے پولیس افسران کے پاس وفد بھیجا کہ آپ تو ہمیں گاہے بگاہے گرفتار کرکے اوپر حکمرانوں کو سب اچھا کی رپورٹ بھیج کر خوش ہوتے ہیںاور یہ چونکہ آپ کی اعلیٰ کارکردگی کے ضمن میں لکھا جاتا ہے تو آج ہمارا ایک بندہ گرفتار کرو، جب تک ہم لوگ اس کی رہائی کے لیے بھرپور چاکنگ دیواروں پر نہ کر والیں اور احتجاجی جلوس وغیرہ نہ نکال لیں، آپ کو اس کی ضمانت بھی نہ خود کرانے کی کوشش کرنی ہے اور نہ ہی کسی عدالت سے ہماری درخواست ضمانت منظور ہونے دینا ہے۔ اس شخص کی چاکنگ “رہا کرو رہا کرو فلاں صاحب کو رہا کرو” مکمل ہو گئی تو ہم نے اسے خود ہی جیل سے رہا کروالیا اب وہ سکہ بند مزدور لیڈر بن چکا تھااور مزدوروں کسانو ں میںمقبول بھی کہ اس نے ان کے لیے اتنی قربانی دی، مشکلات جھلیں ،جیلوں کی روکھی سوکھی کھائی رویا چیخا بھی نہیں،اس لیے وہ دلیر بھی بہت ثابت ہوا ہے ہمارے مفادات /مطالبات کے لیے انتظامیہ سے ٹکر لے سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح نواز شریف مخالف قوتوں سے غالباً بڑی غلطی ہو گئی ہے خوامخواہ براہِ راست سپریم کورٹ میں شکایات لے کر جا پہنچے، وہاں سے مخالف فیصلہ وہ بھی نیم دلانہ ادھورا کہ پاناما کاجرم اور سزا اقامہ کی اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی، پورے پاکستان کی ہنسی ہی نکل گئی اور بعض نے تو اب یہاں تک کہہ دیا کہ شریفوں کی پارٹی عوامی مفاد میں کچھ نہ کرسکنے کی وجہ سے بالکل ڈائون جارہی تھی۔ اس کے انجن میں کوئلہ بھرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا اسے وزارت عظمیٰ سے اتارنے کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟ الٹاپارٹی مزید متحد ہو گئی وہی قائد اور وہی سربراہ بنا،مزید طاقتور ہو گیا وہ سڑکوں پر نکلا تو اس کے استقبال کے لیے سرکاری وسائل موجود تھے۔ عام افراد اس کے استقبال کا رش دیکھ کر چکرا گئے۔ ن لیگی گرتی ہوئی دیوار کوبہر حال سہارا مل گیا۔

اب تو بات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ عمران خان خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ادھورے فیصلے سے بہرحال نواز شریف کا فائدہ ہورہا ہے مگر چونکہ نواز شریف اس فیصلہ کو تنقید کا نشانا بنائے ہوئے ہے اس لیے ہم لوگ جولائی میں آمدہ عدالتی فیصلہ پر تنقید نہیں کرسکتے تھے کہ ہماری پٹیشن پر تو اسے چلتا کیا گیا تھا۔ وہ بدستور وزیر اعظم سے بھی زیادہ پروٹوکول کے ساتھ جلسوں میں اپنی بیٹی کے ہمراہ خطاب کر رہا ہے اور وہ منتخب امیدوار جن کا مفاد ن لیگ سے وابستہ ہے وہ اس کے جلسے جلوسوں کے لیے بندے اکٹھے کرتے ہیں تاکہ لیڈر کی نظر میں رش دکھا کر آئندہ ٹکٹ کے لیے اپنے نمبر ٹانگ سکیں۔ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ “اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبادیں گے”کی طرح اس کی جتنی زیادہ پیشیاں مختلف مقدمات میں آپ ڈالتے جائیں گے وہ اتنا ہی زیادہ مظلوم ہو کر پاپولر ہوتا جائے گا۔ جب نواز شریف نے اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کے لیے جلوس اورجلسے شروع کیے تھے اسی وقت اسے توہین عدالت میں فوری بلوا کر سزا دی جاسکتی تھی توشاید خس کم جہاں پاک ہو جاتا۔ عدالت سے غالباً کوتاہی ہوگئی کہ ا س کے خلاف مزید کارروائی کرنے سے گریز کیا گیا۔اب مزید کوئی فیصلہ یا مقدمہ میں گرفتار کرنے حکم کا آیا تو وہ مزید پاپولر ہوتا چلا جائے گا،اب وہ قد آور درخت بن چکا ہے جس کا نتیجہ ہر جگہ ضمنی الیکشن میں اور حالیہ لودھراں کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے دھڑن تختہ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی جیتی ہوئی سیکریٹری جنرل کی سیٹ بری طرح ہار گئی۔ یہ کوئی چھو منتر نہیں ۔ میری ذرہ برابر بھی ہمدردی موجودہ جغادری سیاستدانوں سے نہیں ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن واقعی اگر تلا سازش کیس کا صحیح مجرم تھا اسے قومی جرم میں لٹکایا جا سکتا تھا توا سکا قصہ تمام ہو جاتا مگر اسے رہا

سیاستدانوں کی ہی سفارش پر ایوب خان نے کردیا۔ وہ جوں ہی رہا ہوا ،وہ بنگلہ بدھو بن کر بنگالیوں کے دلوں میں گھر کر گیاپھر اس کی پتنگ اونچی سے اونچی اڑتی چلی گئی بعد ازاں اس نے بھارتی را کی امداد تک حاصل کرلی مگر اس کا کوئی عمل اسے بنگالیوں کی نظر سے نہ گراسکا۔ حتیٰ کہ1970کے عام انتخابات میں وہ ایک کے علاوہ مشرقی پاکستان کی سبھی سیٹیں جیت گیا اب اگر کوئی مزید سزاہو گئی اس کی بیٹی یا داماد سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے تواپوزیشن کے پاس ایسے پاپولر لیڈروں کا کوئی توڑ نہیں بچے گا ۔سزا تو جرم کی ہونی ہے عدالت اس میں کیا رعایت کرسکتی ہے ۔اسے سپریم کورٹ نے پارٹی صدارت سے بھی ہٹا ڈالا مگر وہ بدستور پارٹی قائد و رہنما بنا رہے گا کوئی ٹکٹ یا عہدہ اس کی بغیر اجازت دیا ہی نہیں جا سکتا ۔ اگر اسے دیگر مطلوبہ کیسوں میں بھی سزا دے ڈالی گئی تو واقعی عوام میں ان کے نمبر مزید ٹانگے جائیں گے اور اپوزیشن جماعتوں کی ہوا اکھڑنے لگ جائے گی۔ بالآخر پسماندہ طبقات کے افراد ہی اللہ اکبر کے نعرے جپتے اور سید المرسلین ﷺ کی ختم نبوت کے نعرے لگاتے ایک تحریک کی صورت میں اس کا انتخابات میں مقابلہ کرسکیں گے کہ ایسا آناً فاناً ہوجانا عین ممکنات میں سے ہے۔ ایک زرداری سب پر بھاری کے بھرکم وزن نے پی پی پی کی لٹیا ڈبو ڈالی ہے۔ اب اس کوکوئی جنتر منتر بھی دوبارہ” زندگی ” عطا نہیں کرسکتا۔ اب اللہ اکبر ہی ایسا لفظ ہے جس پر تمام مسالک فرقے برادریاں علاقائی تنظیمیں متحد ومتفق ہو کر پاپولر ہو یا دیگر جغادری سیاستدانوں کا بوریا بستر گول کرسکتی ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر