... loading ...
فیصلہ کن قوتوں سے کیا کوئی بلنڈر ہو گیا ہے کہ گنگا جیسا بڑا دریا بھی اُلٹا بہنے لگ پڑا ہے۔ ایوب، یحییٰ اوربھٹو صاحب کے ادوارِاقتدار میںاُن طلباء یا سیاسی افراد پر تشدد ہوتاجو آمریتوں کے آگے سر جھکانے کی بجائے اکڑنے ،فوں فاں کرنے کے عادی ہو چکے تھے ۔ مگرجوں ہی وہ گرفتار ہو کر تھانوں ،عقوت خانوں میں پہنچتے ان کی طلباء برداری ودیگر عوام رہا کرو رہا کرو ،لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی فلاں صاحب زندہ آبادکے نعرے فضا میں گونجنے لگتے۔اس طرح وہ طالب علم یاسیاسی فرد اتنا پاپولر ہوجاتا کہ پھر اسے طلباء انجمنوں یا ملکی انتخابات میں جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔مخالف طلباء تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاںایسے لیڈر بنے افراد کے خلاف انتخابی امیدوارلانے سے کتراتی یا پھر انہیں مقابلے کے لیے ہی کوئی دستیاب نہ ہوتا ۔بارک اللہ خان ،حافظ ادریس ،حفیظ خان ،جاوید ہاشمی، فرید پراچہ،احمد بلال محبوب ،عبدالشکور راقم خود (میاں احسان باری ) شیخ رشید احمد اورسعد رفیق سب اسی آمرانہ ادوار کے ظلم وتشدد کا شکار رہے اور مقبول ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے بنگلہ دیش نا منظور اور ختم نبوت کی تحریکیں چلائیں جو سیاسی شعور رکھنے والے افراد اس سائنس کو سمجھتے تھے، وہ اس پر عمل کرتے رہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے ایک شخص کو بطور مزدور لیڈر مشہور کرنا تھا،اور میں طلباء مزدور کسان مجلس عمل پنجاب کا صدر تھا۔ میں نے پولیس افسران کے پاس وفد بھیجا کہ آپ تو ہمیں گاہے بگاہے گرفتار کرکے اوپر حکمرانوں کو سب اچھا کی رپورٹ بھیج کر خوش ہوتے ہیںاور یہ چونکہ آپ کی اعلیٰ کارکردگی کے ضمن میں لکھا جاتا ہے تو آج ہمارا ایک بندہ گرفتار کرو، جب تک ہم لوگ اس کی رہائی کے لیے بھرپور چاکنگ دیواروں پر نہ کر والیں اور احتجاجی جلوس وغیرہ نہ نکال لیں، آپ کو اس کی ضمانت بھی نہ خود کرانے کی کوشش کرنی ہے اور نہ ہی کسی عدالت سے ہماری درخواست ضمانت منظور ہونے دینا ہے۔ اس شخص کی چاکنگ “رہا کرو رہا کرو فلاں صاحب کو رہا کرو” مکمل ہو گئی تو ہم نے اسے خود ہی جیل سے رہا کروالیا اب وہ سکہ بند مزدور لیڈر بن چکا تھااور مزدوروں کسانو ں میںمقبول بھی کہ اس نے ان کے لیے اتنی قربانی دی، مشکلات جھلیں ،جیلوں کی روکھی سوکھی کھائی رویا چیخا بھی نہیں،اس لیے وہ دلیر بھی بہت ثابت ہوا ہے ہمارے مفادات /مطالبات کے لیے انتظامیہ سے ٹکر لے سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح نواز شریف مخالف قوتوں سے غالباً بڑی غلطی ہو گئی ہے خوامخواہ براہِ راست سپریم کورٹ میں شکایات لے کر جا پہنچے، وہاں سے مخالف فیصلہ وہ بھی نیم دلانہ ادھورا کہ پاناما کاجرم اور سزا اقامہ کی اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی، پورے پاکستان کی ہنسی ہی نکل گئی اور بعض نے تو اب یہاں تک کہہ دیا کہ شریفوں کی پارٹی عوامی مفاد میں کچھ نہ کرسکنے کی وجہ سے بالکل ڈائون جارہی تھی۔ اس کے انجن میں کوئلہ بھرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا اسے وزارت عظمیٰ سے اتارنے کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟ الٹاپارٹی مزید متحد ہو گئی وہی قائد اور وہی سربراہ بنا،مزید طاقتور ہو گیا وہ سڑکوں پر نکلا تو اس کے استقبال کے لیے سرکاری وسائل موجود تھے۔ عام افراد اس کے استقبال کا رش دیکھ کر چکرا گئے۔ ن لیگی گرتی ہوئی دیوار کوبہر حال سہارا مل گیا۔
اب تو بات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ عمران خان خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ادھورے فیصلے سے بہرحال نواز شریف کا فائدہ ہورہا ہے مگر چونکہ نواز شریف اس فیصلہ کو تنقید کا نشانا بنائے ہوئے ہے اس لیے ہم لوگ جولائی میں آمدہ عدالتی فیصلہ پر تنقید نہیں کرسکتے تھے کہ ہماری پٹیشن پر تو اسے چلتا کیا گیا تھا۔ وہ بدستور وزیر اعظم سے بھی زیادہ پروٹوکول کے ساتھ جلسوں میں اپنی بیٹی کے ہمراہ خطاب کر رہا ہے اور وہ منتخب امیدوار جن کا مفاد ن لیگ سے وابستہ ہے وہ اس کے جلسے جلوسوں کے لیے بندے اکٹھے کرتے ہیں تاکہ لیڈر کی نظر میں رش دکھا کر آئندہ ٹکٹ کے لیے اپنے نمبر ٹانگ سکیں۔ پہلے اشارہ کیا گیا ہے کہ “اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبادیں گے”کی طرح اس کی جتنی زیادہ پیشیاں مختلف مقدمات میں آپ ڈالتے جائیں گے وہ اتنا ہی زیادہ مظلوم ہو کر پاپولر ہوتا جائے گا۔ جب نواز شریف نے اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کے لیے جلوس اورجلسے شروع کیے تھے اسی وقت اسے توہین عدالت میں فوری بلوا کر سزا دی جاسکتی تھی توشاید خس کم جہاں پاک ہو جاتا۔ عدالت سے غالباً کوتاہی ہوگئی کہ ا س کے خلاف مزید کارروائی کرنے سے گریز کیا گیا۔اب مزید کوئی فیصلہ یا مقدمہ میں گرفتار کرنے حکم کا آیا تو وہ مزید پاپولر ہوتا چلا جائے گا،اب وہ قد آور درخت بن چکا ہے جس کا نتیجہ ہر جگہ ضمنی الیکشن میں اور حالیہ لودھراں کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے دھڑن تختہ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی جیتی ہوئی سیکریٹری جنرل کی سیٹ بری طرح ہار گئی۔ یہ کوئی چھو منتر نہیں ۔ میری ذرہ برابر بھی ہمدردی موجودہ جغادری سیاستدانوں سے نہیں ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن واقعی اگر تلا سازش کیس کا صحیح مجرم تھا اسے قومی جرم میں لٹکایا جا سکتا تھا توا سکا قصہ تمام ہو جاتا مگر اسے رہا
سیاستدانوں کی ہی سفارش پر ایوب خان نے کردیا۔ وہ جوں ہی رہا ہوا ،وہ بنگلہ بدھو بن کر بنگالیوں کے دلوں میں گھر کر گیاپھر اس کی پتنگ اونچی سے اونچی اڑتی چلی گئی بعد ازاں اس نے بھارتی را کی امداد تک حاصل کرلی مگر اس کا کوئی عمل اسے بنگالیوں کی نظر سے نہ گراسکا۔ حتیٰ کہ1970کے عام انتخابات میں وہ ایک کے علاوہ مشرقی پاکستان کی سبھی سیٹیں جیت گیا اب اگر کوئی مزید سزاہو گئی اس کی بیٹی یا داماد سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے تواپوزیشن کے پاس ایسے پاپولر لیڈروں کا کوئی توڑ نہیں بچے گا ۔سزا تو جرم کی ہونی ہے عدالت اس میں کیا رعایت کرسکتی ہے ۔اسے سپریم کورٹ نے پارٹی صدارت سے بھی ہٹا ڈالا مگر وہ بدستور پارٹی قائد و رہنما بنا رہے گا کوئی ٹکٹ یا عہدہ اس کی بغیر اجازت دیا ہی نہیں جا سکتا ۔ اگر اسے دیگر مطلوبہ کیسوں میں بھی سزا دے ڈالی گئی تو واقعی عوام میں ان کے نمبر مزید ٹانگے جائیں گے اور اپوزیشن جماعتوں کی ہوا اکھڑنے لگ جائے گی۔ بالآخر پسماندہ طبقات کے افراد ہی اللہ اکبر کے نعرے جپتے اور سید المرسلین ﷺ کی ختم نبوت کے نعرے لگاتے ایک تحریک کی صورت میں اس کا انتخابات میں مقابلہ کرسکیں گے کہ ایسا آناً فاناً ہوجانا عین ممکنات میں سے ہے۔ ایک زرداری سب پر بھاری کے بھرکم وزن نے پی پی پی کی لٹیا ڈبو ڈالی ہے۔ اب اس کوکوئی جنتر منتر بھی دوبارہ” زندگی ” عطا نہیں کرسکتا۔ اب اللہ اکبر ہی ایسا لفظ ہے جس پر تمام مسالک فرقے برادریاں علاقائی تنظیمیں متحد ومتفق ہو کر پاپولر ہو یا دیگر جغادری سیاستدانوں کا بوریا بستر گول کرسکتی ہیں۔