وجود

... loading ...

وجود

افغانستان اور مشرق وسطی!میں آخری صلیبی جنگ کا عروج

اتوار 25 فروری 2018 افغانستان اور مشرق وسطی!میں آخری صلیبی جنگ کا عروج

(آخری قسط)
روس  پر قبضہ جمانے کے بعد اسے سوویت یونین میں بدلنے والے صہیونیوں نے بالشیوک پارٹی جو روس کے صنعتی مزدورں کی پارٹی کہلاتی تھی کا نام بدل کر کمیونسٹ پارٹی رکھ لیا۔ تمام قانونی معاملات موقوف کردیئے گئے اور کمیونسٹ پارٹی کے اعلان کے مطابق ایک یہودی یاکوف سفردلوف کو پہلا سوویت صدر بنا دیا گیا، اسی طرح سوویت یونین کا پہلا چیرمین لیف ڈیویڈوچ برونسٹین المعروف ٹروٹسکی مقرر کیا گیا۔ ٹروٹسکی 7نومبر 1879ء میں یوکرائن کے صوبے خیرسن Khersonمیں پیدا ہوا۔ مارچ 1917ء کے انقلاب کے دوران ٹروٹسکی امریکا میں نیویارک سٹی میں پایا جاتا تھا وہ یہاں سے روسی اخبار کے لیے مضامین لکھا کرتا تھا۔

ٹروٹسکی مئی کے مہینے میں روس پہنچتا ہے اور سوشل ڈیموکریٹک انٹر ڈسٹرک گروپ کے لیڈروں میں شامل ہوکر پیٹروگارڈ (کمیونسٹوں نے سینٹ پیٹرز برگ کا نام تبدیل کرکے پیٹروگارڈ رکھ دیا تھا)کے علاقے میں کام کرنا شروع کردیا۔چند ہفتوں کے اندر ہی ٹروٹسکی کو حیرت انگیز طور پر شہرت ملنا شروع ہوگئی ۔ ولایمیر لینن کے اصرار پر اس نے بالشیوک پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور مرکزی کمیٹی کا رکن منتخب ہوگیا۔بطور بالشیوک رکن کے ٹروٹسکی کو ستمبر میں سوویت چیرمین منتخب کرلیا گیا، اس نے لینن کے شانہ بشانہ تمام حکومتی اور صوبائی انتظامات کو تیزی کے ساتھ ہاتھ میں لینا شروع کردیااس کے علاوہ اس نے اپنی تمام تر توانائیاں بالشیوک فوج کی شورشوں کو بڑھاوا دینے میں صرف کردیں ۔ ٹروٹسکی خفیہ طور پر لینن کے ساتھ مل کر کامیابی کے ساتھ مزدوروں اور فوجیوں کے انقلاب نومبر کے لیے بھی کام کرتارہا ہے ۔اس بات کو ذہین نشین رکھنا چاہئے کہ پہلے سوویت صدر اور چیرمین یہودی تھے اس کے علاوہ تمام انقلابی لیڈروں کی اصل بھی یہودیت ہی تھی ٹروٹسکی نہ صرف پہلا یہودی سوویت چیرمین تھا بلکہ وہ ریڈ آرمی ( سرخ فوج)کا پہلا آرمی چیف بھی مقرر کیا گیا تھااس کے ساتھ ساتھ 1917ء سے لیکر 1924ء تک وہ سوویت یونین کی خارجہ پالیسی پر بھی حاوی رہا۔مسلمان نوجوانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ایک یہودی ٹروٹسکی جو مارچ 1917ء میں نیورایک میں بیٹھ کر روسی اخبار کے لیے مضامین تحریر کررہا ہے وہ مئی کے مہینے میں اچانک روس پہنچتا ہے اور نومبر کے ماہ تک روس کی ریڈ آرمی کا چیف مقرر کردیا جاتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ سوویت یونین کا پہلا چیرمین بھی نامزد ہوچکا ہوتا ہے اتنی پھرتیاں صرف عالمی صہیونی سیسیہ گر ہی دکھا سکتے تھے۔

ان تمام تر سازشوں کے بعد اب اس صہیونی سازش کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے یہ حصہ عیسائیوں کے قتل عام کا ہے ۔ ماسکو میں خبررساں ایجنسی روئٹر کے نمائندے فیلپا فلیٹچر نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ سوویت حکومت کے دوران بڑے شہروں میںدو لاکھ کے قریب صرف عیسائی علماء کو قتل کیا گیا تھا ۔ ان عیسائی اساقفہ اور ننوں کو خفیہ پولیس (چیکا۔Cheka) کے مراکز میں قتل کیا گیا جبکہ باقی علماء اور ننوں کو شاہی محلات اور دیگر حکومتی اداروں کی عمارات کے صدر دروازوں پر سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق نازیوں کا ہولوکوسٹ اتنا خوفناک نہیںتھا جتنا سوویت یونین کے عیسائیوں کے خلاف ہولوکوسٹ خوفناک تھا جس میں کئی ملین راسخ العقیدہ عیسائیوں کو ہلاک کردیا گیا ، یہ تمام کارروئیاں کمیونسٹوں کے بھیس میں موجود یہودیوں کی کارستانیاں تھیں جو روس میں عیسائیت کو اقلیت میں تبدیل کرکے تمام مغرب میں اپنا سکہ چلانا چاہتے تھے۔ کمیونزم کے لبادھے میں ملبوس صہیونیوں نے روس میں عیسائیوں کے خلاف تاریخ کا بدترین اور خوفناک قتل عام کیا ۔ 1919ء میں لینن کے حکم سے ہزاروں کوسک باشندوں کو دبح کردیا گیا۔ ایک امریکی ادارے کے مطابق اگر نازیوں نے گیارہ ملین افراد کو موت کے گھاٹ اتارا تو کمیونسٹوں نے سو ملین افراد موت کی وادی میں پہنچا دیئے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نازی ازم کا دور 1933ء سے شروع ہوکر 1945ء میں ختم ہوگیا جبکہ کمیونزم کا ہولناک دور 1917ء سے لیکر 1992ء تک محیط رہا۔اس کے ساتھ ساتھ غلامیت کی زندگی بھی کمیونزم میں روا رکھی گئی یعنی لوگوں سے بے گار لینا۔ لینن 1901ء میں لکھتا ہے کہ ’’ہم نے بنیادی افکار میں دہشت کے پہلو سے کبھی انحراف نہیں کیا اور نہ ہی ہم ایسا کرسکتے ہیں‘‘۔

1933ء برطانوی صحافی میلکم میگیریج Malcolm Muggeridgeلکھتا ہے کہ ’’صرف یوکرائن میں ستر لاکھ افراد کریملن کے حکم پر فاقے سے ہلاک کردیئے گئے ، اگر آپ یوکرائن یا جنوبی قفقاز جائیں تو یہ انتہائی خوبصورت علاقے اور دنیا کے بہترین زرخیز علاقوں میں شمار ہوتے تھے مگر اب یہ کسی صحراء کا منظر پیش کرتے ہیں، نہ یہاں مویشی ہیں اور نہ گھوڑے۔ ہر طرف کٹی پٹی انسانی لاشوں کے سوا کچھ نہیں بچا ۔ جو کسان اپنی زمین پر کچھ اگانا چاہتا ہے اسے فورا گولی مار دی جاتی ہے۔یوکرائن کے صوبائی دارالحکومت خرکوف کے گلی کوچوں میں موت رقصاں ہے۔ ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کالی موت ان علاقوں پر سے پھر گئی ہو۔

روس کو سوویت یونین میں بدلنے والے صہیونیوں کی اس مختصر ترین روداد میں آنے والے کل کی جھلکیاں دیکھی جاسکتیں ہیں وہ صہیونی جنہوں نے روس جیسی عظیم سلطنت کو اپنے نرغے میں لے کر تباہی سے دوچار کردیا وہ کیسے امریکا یا کسی اور ملک کو بخش دیں گے؟سابق سوویت یونین کے کمیونسٹ اور موجودہ امریکا کے نیو کانز کا سلسلہ نسب ایک ہی ہے۔۔۔!! اور اب یہ طوفان امریکا کے ساحلوں سے ٹکرانے کے قریب ہے۔
(ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر