وجود

... loading ...

وجود

زہریلے سانپ رات کو نہیں دن کو نکلتے ہیں

هفته 24 فروری 2018 زہریلے سانپ رات کو نہیں دن کو نکلتے ہیں

ہمارے چاروں اطراف زہریلے سانپوں کے ڈیرے اور بسیرے ہیں مگر ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتے ملازم ہو یا کوئی دوسرا شخص رات کو سوچتا اور پلان بناتا ہے کہ صبح کو فلاں سے ٹھگی مارنی ہے فلاں شریف آدمی ہے اس سے رقم لیکر واپس نہیں کرنی فلاں بہن بھائی یہاں سے چلے گئے ہیں ان کی یہاں موجود زمین میں سے میں اتنی باآسانی ان کے جعلی دستخطوں/ جعلی اسٹامپ پیپرپر پٹواری /تحصیلدار کو رشوت دے دلا کر اپنے نام منتقل کروا کر اسے بیچ ڈالوں تو اتنے لاکھوں کروڑوں کا مالک بن سکتا ہوںاور دور بیٹھا اس کا وہی بہن بھائی رات کو یہی سوچ رہا ہوتا ہے کہ گذارا مشکل سے ہو رہا ہے اس دور افتادہ زمین مکان کو جھوٹ موٹ کے ذریعے زیادہ قیمت دکھا کر بینک منیجر سے کچھ دے دلا کر قرضہ نکلوائوں اور دوبارہ واپس نہ کروں وہ جائدادقرق کرلیں گے۔

وہ تو لا محالہ اس سے کم قیمت کی ہے اس طرح دفاتر میں کلریکل اسٹاف اور دوسرے ملازم افسران تک چھریاں گنڈاسے تیز کیے ہوئے لیکر بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی آن پھنسے ہم نے اس کی کھال اتار ڈالنی ہے اس سے ڈھیروں رقوم لیے بغیر اسے واپس نہیں جانے دینااسی طرح بیرون ممالک جعلی طورپر باہر بھجوانے والے گھوم رہے ہیں کہ کسی آسامی سے مال ٹھگ لیں اور وہ بھلا آدمی ہمارے گھروں کے چکر لگا لگا کر بالآخر تھک ہار کر بیٹھ جائے گا اگر کسی عدالت وغیرہ میںگیایا تھانہ کا رخ کیاتو عدالت میں بحرحال وکیل کو دے دلا کر اس کا فیصلہ ہی اس کی زندگی میں نہ ہو نے دیں گے اور تھانے تو ویسے ہی”اس بازار “کی طرح ہوچکے کہ جو زیادہ مال لگائے گا رانی بی بی اس کی ہو چلے گی ۔

زرداری اور شریفوں نے پہاڑوں کی اونچائی سے بھی بڑی کرپشن کرلی زرداری نے سرے محل سوئس اکائونٹس بیرون ممالک فلیٹس جائیدادیں محلات بنا لیے سندھ کی نوے فیصد شوگر ملوں پر خرید کی آڑ میں قبضہ کرلیا آپ اور ہم نے کیا کرلیا ؟وہ پاکستان کے دوسرے بڑے سرمایہ دار بن گئے اور چند ماہ سالوں میں دنیا کے امیر ترین اشخاص کی صفوں میں شامل ہو چکا ہو گا، آپ کا کیا لینا دینا؟ شریفوں نے ایک مل سے درجنوں ملیں بنالیں جاتی امراء میں ایمپائر کھڑی کرلی بیرون ممالک ملیں فلیٹس خریدے اور پانامہ لیکس میں اربوں ڈالر جمع کرلیے کوئی احتسابی کمیشن نیب عدالتیںبیرون ممالک کے مقدمے ان کا کیا بگاڑ سکے اور بگاڑ بھی کیسے سکتے ہیں کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی دیکھا دیکھی کرپشن زدہ سا محسوس ہونے لگا ہے نودولتیے سود خور سرمایہ دار بھی غریبوں اور مزدوروں کا خون چوس رہے ہیں غرضیکہ ہم میں سے ہرآدمی اب انسان کم اور زہریلا سانپ زیادہ بن چکا ہے۔

ہم ناشتہ کرکے گھروں سے سانپوں کے روپ دھارے نکلتے ہیں ہر دوسرے چھوٹے سانپ کو نگل ڈالنے کی سعی و تگ و دو کرتے ہیںکئی بار تو ایسا ہوا ہے کہ تھانیدار نے کسی کی جیبیں خالی کرلیں بھاری رقوم اینٹھ لیں اور دور رہتے گھر والوں کو بھیج دیں اور آپ صاحب کی غیر موجودگی میں صاحبزادہ چونکہ شراب و کباب اور” اس بازار” کا گاہک بن چکا ہوتا ہے تو وہ ساری حرام کی کمائی ان “پاکیزہ “کاموں میں لٹاتا رہتا ہے کہ”مال حرام بود بجائے حرام رفت” والا محاورہ فٹ آجاتا ہے کہ حرام کا مال تھا حرام کاموں میں چلا گیا اگر” اس بازار” کی ڈانسر بھی تماش بینوں کی جیبوں سے مال نکلواتی ہے تو کسی روز اس کی اس “کمائو دکان “پرکوئی چور ڈاکوپہنچ کر وافر حصہ لے جاتا ہے ،متعلقہ تھانہ والوں اور علاقائی غنڈوں /بھتہ خوروں کو بھی معقول رقم دینی پڑتی ہے وگرنہ آسانی سے تیزاب پھینک کر شکل ہی بگاڑ ڈالیں گے ۔

سڑکوں پر چلتی ٹرانسپورٹ بسوں کاروں کو ڈاکو لوٹتے ہیں تو انہیں کسی تھانے میں طے شدہ حصہ دینا ہوتا ہے کہ “چوری ڈکیتی ہو ہی نہیں سکتی کہ جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو” بقیہ میں سے کچھ کھایا پیا گیا”اس بازار” کی ڈانسر کو دے آئے جب پکڑے گئے تو کچہریوں کی بھاری فیسوں اور تھانوں میں مقدمات کی “درستگی “کروانے کی” اعلیٰ اقدار ” کی نذر ہو گیا غرضیکہ ہم سبھی انسان زہریلی دو مو نہی سپنی کا روپ دھارے ایکدوسرے کی جیب تراشیوں یا دوسرے لفظوں میں ایکدوسرے کو ڈسنے اس کا مال چھیننے کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں کچھ مال پانی بن گیا مگر کسی تھانے کچہری میں چِھن گیااس طرح نتیجتاً ہم خالی جیبوں گھروں سے نکلے تھے اور خالی جیبوں ہی جاکر بسترپر لیٹے پھر صبح کے لیے پلاننگ میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ زرداری اور شریفوںجیسے کردار ہمارے لیے”مشعل راہ “بنے ہو ئے ہیںکہ وہ سینمائوں پر ٹکٹیں بلیک کرنے اور لوہا کوٹنے والے افراد کیسے ملک کے دوسرے اور چوتھے بڑے سرمایہ دار بن گئے ۔

ہم بھی کوئی ایسی ہی “واردات “کریں اور ڈھیروں مال کے انبار اکٹھے کرلیں اسی لیے ہر شخص “سیاسی کھیل تماشہ ” میں شامل ہو کر ممبر وغیرہ بن کر انہی کی طرح لٹیروں کا کردار ادا کرنے کے لیے جدو جہد کر رہا ہے سیاست تو الو کی آنکھ سے دیکھنے اور گِدھوں کی طرح جھپٹنے والا عمل بن چکی کہ نام نہاد سیاسی راہنمااسی طرف کا رخ کرلیتے ہیں جہاں انہیں مال بنانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوسکیں۔

اس کرپشنی دکان کے دائرے میں ٹھگ لٹیرے گھوم رہے ہیں جو دوسروںکو بالخصوص عوام کے لیے لوٹنے کے نئے حربے /طریقے ایجاد کرلیتے ہیں 70سال سے ڈگڈگی بج رہی ہے اور بند ر انتہائی خوشیوں سے ڈانس کرتے جھوم رہے ہیں کہ میرا کسی نے کیا بگاڑ لینا ہے آخر کچہریوں تھانوں میں بھائو تائو لگا کر چھوٹ ہی جانا ہے صرف پسے ہوئے طبقات کے لوگ اللہ اکبر اللہ اکبر اور ختم المرسلین ﷺ کی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور آمدہ انتخابات میں اپنا مثبت کردار ادا کرڈالیں گے ” نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری”کہ پہلے قربانیاں پھر اصلاحی انقلاب اور امن و سکون کا دور زریںجس میں غربت بیروزگاری ،دہشت گردی ،مہنگائی کا مکمل خاتمہ ہو گا انشاء اللہ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر