... loading ...
(قسط نمبر:2)
مولانا سلمان ندوی صاحب کی تجویز سے وحشت زدہ عوام الناس کا کوئی قصور نہیں ہے جب ہم مخالفین کے خلاف لکھتے اور بولتے ہو ئے انہیں ذلیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں اور ہم نے انہیں اس کا عادی بنا دیا ہے تو پھر بڑے بڑے علماء کے ساتھ ایسے شرمناک واقعات پیش آنا ناممکن نہیں ہے ۔اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا نے جو تجویز پیش کی ہے وہ شرعی اعتبار سے کتنی درست اور مناسب ہے پر ہمیں گھبرانے کے برعکس ٹھنڈے دماغ کے ساتھ غور کرنا چاہیے ۔محترم ندوی صاحب جن فتاویٰ کو بنیاد بنا کر بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں وہ میرے خیال میں بین المسلمین تنازعات سے متعلق خاص ہیں نہ کہ خانہ خدا کو مسلمانوں کی مرضی سے بت خانہ میں تبدیل کرنے سے متعلق؟اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُن فتاویٰ کو نظیر بنا کر بابری مسجد کے تنازعے پر فٹ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بے شمار مسائل میں فقہاء کرتے ہیں یہ خالصتاََ ایک نازک علمی معاملہ ہے اور مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب جیسے صاحب علم کے ذہن میں اس طرح کی نظائرضرور ہوں گی مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر نظائر کے بالکل برعکس ہم سیدھے طور پر ’’خانہ خدا کو بت خانہ‘‘بنانے کے جواز پر عمل کرنے کے جواز کا فتویٰ بھی دیں گے تو کیا ہندوستان کے مسلمان اسے قبول کریں گے ؟میرے علم کی حد تک ہندوستان میں بریلوی مکتبہ فکر کے لوگوں کی اکثریت رہتی ہے اورپھر ان کے بعد دوسرے مکاتب فکر جن میں دیوبندی ،ندوی،سلفی اور جماعت اسلامی شامل ہے کا نمبر آتا ہے ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا مولانا کی تجویز کو یہ تمام مکاتب فکر قبول کریں گے ؟ میرے خیال میں یہ بہت مشکل ہے کیوں؟
مشکل اس لیے ہے کہ یہ مسئلہ ناصرف حساس مذہبی مسئلہ ہے بلکہ سیاسی بھی ہے ۔بھارت دولخت ہونے کے بعد ہندؤں کا پورے ملک میں بالادست ہونا اظہر من الشمس ہے ۔وہ جہاںجو چاہتے ہیںبغیر کسی روکاوٹ کے بنادیتے ہیں۔ہندوستان کی مسلم اقلیتی ریاستوں کے برعکس اگر ہم سیدھے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں داخل ہو جائیں گے تو لکھن پور پل سے لے کر بانہال (جو وادی کشمیر کا صدردروازہ ہے )تک انھوں نے کوئی ندی ،کوئی نالہ ،کوئی پہاڑ اور کوئی میدان نہیں چھوڑا ہے جہاں انھوں نے مندر تعمیر نہیں کیے ہیں۔لاکھوں بلکہ کروڑوں مندر وں والے ملک میں آخر بابری مسجد ہی نشانہ کیوں بنائی گئی غور طلب معاملہ ہے ؟ اور پھر اس کو اس قدر گرمانے کاپس منظر کیا ہے وہ سمجھنا بھی کوئی دشوار معاملہ نہیں ہے ۔دراصل سنگھ پریوار کے لوگ مسلمانوں سے مسجد چھین کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ دولخت ہونے کے بعد یہ ملک مکمل طور ’’اول درجے کے شہریوں ‘‘ہندؤں کا ملک ہے ۔مودی کے دہلی میں وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد گذشتہ چار برس میں سنگھ پریوار نے مسلمانوں کو برباد کرنے کے لیے کیا کیا وہ ہم سب کے سامنے ہیں ؟ بھارت سرکار کے لیے تین طلاق کا غیر اہم اشو میں دلچسپی کا پس منظر بھی یہی ہے اور حج سبسڈی کی منسوخی کل کی بات ہے ۔میراخیال ہے کہ ایسے میںزخم خوردہ ہندوستانی مسلمان جیتے جی بابری مسجدکی زمین کو ہندؤں کوگفٹ کرنے کی تجویز قبول نہیں کریں گے ۔
مولانا سید سلمان صاحب جیسے زمانہ شناس عالم کی نگاہوں سے یہ بات بھی اوجھل نہیں ہوگی یہ مسئلہ مذہبی اور سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ جذباتی مسئلہ بھی ہے دوسرے خطوں کے مقابلے میں برصغیر کے لوگ ’’زیادہ ہی جذباتی ‘‘ہیں لہذا اس لحاظ سے بھی مولانا کے خلاف ردعمل آنا حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔مولیٰنامحترم کو یہ بھی یاد ہوگا کہ بابری مسجد مسئلہ پر ان سے پہلے مولانا وحید الدین خان صاحب نے بھی اسی سے ملتی جلتی تجویز یہ پیش کی تھی کہ اراضی کو حکومت کسی کو دینے کے بجائے اپنی تحویل میں لے کر اس جگہ ہسپتال بنائے۔مولانا کے ہاں چونکہ ہر دوسرے مسئلے میں تفردات کا غلبہ رہتا ہے لہذا ان کی تجویز پر اتنی لے دے نہیں رہی جتنی کہ ندوی صاحب کے تجویز پر رہی ۔میں مولانا سلمان ندوی صاحب کے علم اور تفقہ کے مقابلے میں بہت حقیر سا وجود ہوں ،کمالِ ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بزرگوار سے اس مسئلے کو لے کر کئی مقامات پر ’’ہینڈل‘‘کرنے میں تسامح ہوا ہے نمبر ایک: عالم اسلام کونکال کر اگر اسے صرف مسلمانان ہند ہی کا اشو قرار دیا جائے تو اتنے بڑے مذہبی مسئلے پر ایک دو تو کیا صرف دیوبند اور ندوہ کا فتویٰ بھی کافی نہیں ہے بلکہ تمام مسلمہ مسالک اور مکاتب فکر کے علماء کا کم سے کم اتفاق ضروری ہے ۔نمبردو:عوام میں تجویز پیش کرنے سے قبل مسلمان سیاسی لیڈران اور دانشوروں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی ۔نمبر تین:روی روی شنکر کے برعکس (جنہیں ہم نے کشمیر میں کئی مسائل کو لے کر غیر سنجیدہ اور غیر محتاط محسوس کیا ہے)کسی بااثر مذہبی پیشوا جس سے سنگھ پریوارمیں مقامِ قبولیت حاصل ہوتی کا انتخاب کیا جانا چاہیے تھا ۔نمبر چار:اس حساس مسئلے پر تجویز دینے سے ایک دو سال پہلے کام شروع کرناضروری تھا ۔نمبرپانچ: اتفاقی اور اجتماعی فتویٰ اور مشورے کے بعدعوام الناس میں تمام مکاتب فکر کے علماء لوگوں کا ذہن تیار کرتے تو پھر شاید وہ ساری باتیں باوزن ہوتی جو اس تجویز کے ساتھ آپ نے پیش کی ہیں ۔
جو کرنا چاہیے تھا وہ نہ کر کے اب جبکہ یہ تجویز سامنے آ چکی ہے اور یہ عوامی موضوع بن چکا ہے تو مولانا کے پیش کردہ باوزن خدشات پر ملک و ملت کے بہی خواہوں کو غورکرنا چاہیے باوجود یکہ وہ آپ اپنے ہاتھوں مسجد کی اراضی گفٹ کرنے کو گوارا نہ کریں مگر سوال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کا ہے کہ اگر اراضی فریق مخالف کو ملی تو مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچے گی اسے انہیں باہر کیسے نکالا جا سکتاہے ؟دوم اگر اللہ نا کرے فسادات ہوئے تو اس صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟کیس جیتنے یا ہارنے کے بعد تین ہزار مساجداور درگاہوں پر اپنی نگاہیں ٹھہرانے والے مسئلے کا حل کیا ہے؟مولانا سلمان ندوی صاحب کے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ،امام محمدؒ اور امام ابن تیمیہؒکے فتاویٰ کوبنیاد بنا کر’’مسجدجو عرصہ سے نہ صرف اقامت صلوٰۃ سے محروم ہے اور شہید کر دئے جانے کے بعدویران ہی نہیں بلکہ عملاََانتہا پسندوں کے ہاتھوں بت خانے میں تبدیل ہو چکی ہے ‘‘کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل ہی جبری قبضے کو قبول کر کے اپنی شرائط پر بات چیت کا آغاز کردیا جائے۔انہیں خدشہ ہے کہ سپریم کورٹ اراضی ہندوں کو دے یا نا دے مسلمان دونوں صورتوں میں نقصان میں ہیں ہاں اگر وہ ازخود ان کے جبری قبضے کو قبول کرکے انہیں دیدیں تو شاید نقصانات کا دائرہ محدود ہو سکتا ہے ۔ (جاری ہے )