... loading ...
22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب کے دوران پارٹی کے بانی الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے اور اپنے خطاب میں پاکستان کو پوری دنیا کے لیے ناسور قرار دیا تھا۔ایم کیو ایم کے قائد نے اسی تقریر کے آخر میں کارکنوں کو ٹی وی چینلز پر حملوں کی ہدایت کی جس پر کارکن مشتعل ہوگئے اور انھوں نے ریڈ زون کے قریب ہنگامہ آرائی کی، اس دوران کچھ کارکن نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر میں گھس گئے اور وہاں نعرے بازی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جب کہ اس ہنگامہ آرائی کے دوران فائرنگ سے ایک شخص ہلاک بھی ہوا اور کئی زخمی بھی ہوگئے۔
یہی نہیں کراچی میں اشتعا ل انگیزخطاب کے بعدالطاف حسین نے 22 اگست کو ہی امریکا میں مقیم اپنے کارکنوں سے خطاب میں بھی پاکستان مخالف تقریر کی تھی۔ان تقاریر کے بعد الطاف حسین نے معافی بھی مانگی جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے اس لیے ایسی باتیں کیں جب کہ اس کے بعد ایم کیو ایم کے قائد نے پارٹی کے تمام اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیئے تھے.ان تقاریر کے بعد ایم کیو ایم کو ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب کہ پولیس اور رینجرز نے سندھ خصوصاً کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی شروع کرتے ہوئے متحدہ کے مرکز نائن زیرو سمیت سندھ بھر میں دفاتر کو سیل کر دیا۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے الطاف حسین کی تقریر کے اگلے روز یعنی 23 اگست کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم قائد کے بیانات سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں ہی رجسٹرڈ ہے اس لیے بہتر ہے کہ اب اسے آپریٹ بھی پاکستان سے ہی کیا جائے۔بعدازاں 27 اگست 2016 کو فاروق ستار نے ایک اور پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے الطاف حسین سے قطع تعلق کر دیا تھا۔اورایم کیوایم پاکستا ن کاعارضی دفتراپنی رہائش گاہ واقع پی آئی بی کالونی کوبنالیا۔ اورکارکنوں نے اجلاس پی آئی بی کالونی ہی میں واقع گھانچی کمیونٹی سینٹرمیں شروع کردیئے ۔اس دوران ایم کیوایم پاکستان میں ٹوٹ پھوٹ کاعمل بھی جاری رہا۔اوراس کے اراکین اسمبلی مخالف سیاسی جماعت پی ایس پی میں جاتے رہے ۔ کہایہ جاتاہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے کارکنوں اورعہدے داروں کی بڑی تعدادبھی پاک سرزمین پارٹی ہی میں جاچکی ہے ۔اس کے علاوہ کراچی کے ڈپٹی میئربھی پی ایس پی میں شامل ہوچکے ہیں
ایک جانب ایم کیوایم پاکستان کے اراکین اسمبلی اورکارکنان وذمے داروں کی پی ایس پی میں شمولیت کاسلسلہ جاری رہاتودوسری جانب خودایم کیوایم پاکستان میں بھی فاروق ستارکے اقدامات کے خلاف بغاوت زورپکڑتی چلی گئی۔اسی دوران ایم کیوایم پاکستان کواس کے سیل کیے گئے دفاترواپس کرنے کاسلسلہ شروع ہواتوایم کیوایم پاکستان نے پی آئی بی کالونی کوچھوڑکربہادرآبادمیں واقع دفترکواپناعارضی مرکز بنالیا۔سلسلہ آگے چلتارہا۔ لیکن کامران ٹیسوری کی پارٹی میں شمولیت اوران کوپی ایس 114سے ضمنی الیکشن لڑائے جانے ساتھ ہی اختلافات کی اطلاعا ت ملنا شروع ہوئیں اورایم کیوایم پاکستان فاروق ستاراورعامرخان پرمشتمل دوواضح دھڑوں میں بٹی ہوئی نظرآنے لگی ۔ اور 5 فروری کو فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے کامران ٹیسوری کا نام سامنے آنے کے بعد ساجھے کی ہانڈی بیچ چوراھے پرہی پھوٹ گئی۔ رابطہ کمیٹی کی جانب سے کامران ٹیسوری کوسینیٹ کاٹکٹ دیئے جانے کی بھرپورمخالفت کی گئی لیکن فاروق ستاررابطہ کمیٹی کی بات ماننے پرآمادہ نہیں ہوئے اوراختلافات شدیدترہوتے چلے گئے ۔ 6 دن تک جاری رہنے والے اس تنازعے کے بعد رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے فاروق ستار کو کنوینئر کے عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو نیا کنوینئر مقرر کردیا تھا۔بعد ازاں 18 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار گروپ کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے سلسلے میں کراچی اور حیدرآباد میں پولنگ کے نتائج سامنے آگئے، فاروق ستار سب سے زیادہ ووٹ لے کر کنوینر منتخب ہوگئے۔انٹرا پارٹی انتخابات میں ایم کیو ایم کے رہنما سہیل منصور، کامران ٹیسوری، شاہد پاشا، قمر منصور، علی رضا عابدی، مزمل قریشی، عبد الوسیم، شیخ صلاح الدین رابطہ کمیٹی کے رکن کے طور پر منتخب ہو گئے۔ تاہم بہادر آباد گروپ کی جانب سے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا اور ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینئر ماننے سے انکار کردیا تھا۔
ادھر متحدہ قومی موومنٹ (بہادرآباد) نے ایم کیو ایم (پی آئی بی) کے انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کرادی ۔بیرسٹر فروغ نسیم کی طرف سے دائر درخواست میںانٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم پی آئی بی کو27 فروری کو نوٹس جاری کردیا۔ ایک جانب ایم کیوایم پاکستان میں دودھڑوں میں اختیارات کی جنگ قانونی جنگ میں تبدیل ہوتی نظرآرہی ہے تودوسر ی جانب سینیٹ الیکشن میں بھی ایم کیوایم پاکستان کے دونوں دھڑوں کی جانب سے امیدوارمیدان میں ہیں ایم کیو ایم پاکستان بہادر آباد گروپ کی جانب سے الیکشن کمیشن کوبھیجے گئے خط میں 9 امیدواروں کے کاغذات نامزدگیوں کو واپس لے لیا گیااس خط پر کنوینئر خالد مقبول صدیقی کے دستخط تھے، جس کے مطابق جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی واپس لیے گئے ان میں ایم کیو ایم پاکستان میں اختلاف کا باعث بننے والے کامران ٹیسوری کا نام بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ دیگر امیدواروں میں کشور زہرہ، فرحان چشتی، احمد چنائے، جسٹس حسن فیروز، علی رضا عابدی، منگلہ شرما، نگہت شکیل اور امین الحق کے نام واپس لیے گئے ہیں تاہم الیکشن کمیشن کے مطابق ان افراد کے پاس آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑنے کا اختیار اب بھی موجود ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے حتمی طور پر جن امیدواروں کو سینیٹ انتخابات کے لیے نامزد کیا گیا ہے ان میں جنرل نشست کے لیے بیرسٹر فروغ نسیم اور عامر چشتی کا نام شامل ہے جبکہ خواتین کی نشست کے لیے نسرین جلیل، ٹیکنوکریٹ نشست کے لیے عبدالقادر خانزادہ اور اقلیتی امیدوار کے طور پر سنجے پروانی شامل ہیں۔
دوسری جانب پی آئی بی گروپ فاروق ستارکے نامزدکردہ سینیٹ کے امیدواروں کوانتخاب لڑانے پربضدہے صورتحال کسی صورت قابومیں نظرنہیں آرہی ۔ نہ ہی کوئی رائے دی جاسکتی ہے دونوں گروپ اپنے اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کوتیارنہیں ۔اس حوالے جوبھی معاملہ ہوگاوہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد سامنے آجائے گا۔