... loading ...
کیا انسان اپنے حریف سے لڑتے لڑتے خود حریف کی مانند ہونے لگتا ہے؟ عمران خان کی نئی شادی نے اُنہیں موازنے کے طور پر شہبازشریف کے سامنے لاکھڑاکیا ہے!!!
انیسویں صدی کی رومانوی تحریک کے عظیم فرانسیسی شاعر اور ڈراما نگار وکٹر ہیوگو نے ایک عجیب بات کہہ رکھی ہے کہ’’ چالیس سال کی عمر دراصل جوانی کا بڑھاپا ہے مگر پچاس سال کی عمر دراصل بڑھاپے کی جوانی ہے‘‘۔ مگر 5؍ اکتوبر 1952ء کو پیدا ہونے والے ہم اپنے پینسٹھ سالہ سیاست دان کو بڑھاپے کی جوانی یا جوانی کے بڑھاپے کے کس زاویے سے جانچیں!
اگرچہ عمر کتنی ہی عجیب ہو شادی میں کوئی عجیب بات نہیں۔مگر شادی صرف ایک انفرادی عمل نہیں بلکہ یہ ایک سماجی رویہ بھی ہوتا ہے۔ اس سے جڑے کچھ اعمال ہر تہذیب کی روایات میں اپنے اپنے ڈھنگ سے موجود ہوتے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان نے شادی کو ایک سماجی رویہ کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا۔ عمران خان کی زندگی کا لااُبالی پن اُسے ایک ذمہ دار سماجی رویہ اپنانے پر کبھی آمادہ نہیں ہونے دیتا۔ عمران خان جمائما اور ریحام کے بعد اب بشریٰ بی بی کو اپنا چکے ہیں۔ اُن کی شادیاں کوئی عشق کی کارستانیاں بھی نہیں جو انطونی اور قلوپطرہ یا ابیلارڈ اور ہیلوئی کے ہمقدم اپنا نقش بناتی ہو۔ اُن کی رومانوی تگ وتاز ایک کھلنڈرے کی دنیا ہے جسے مغرب کے کاؤ بوائے سے زیادہ نسبت ہے۔ پھر بھی جہانگیر اور نور جہاں کے باب ِ محبت میں کچھ ایسے عناصر حرکت پزیر ہیں جو عمران خان کی زندگی کوبھی کوئی معنی دے سکتے ہیں۔ نور جہاں ، جہانگیر سے پہلے دراصل شہزادہ سلیم کی پہلی محبوبہ تھی۔ شہنشاہ اکبر کے حکم سے اُسے دور کہیں بھیج دیا گیا۔جب نورجہاں کی جہانگیر سے ملاقات ہوئی تو وہ اڈھیر عمر کا ایک مطلق العنان حکمران تھا، اُس کی جسمانی قوت کو شراب اور افیون نے چاٹ لیا تھا۔ حرم سرائے کی رقابتیں ، بے وفا رفاقتیںاور سلسلہ وار سازشیںجہانگیر کے عشرت زدہ بدن سے ظاہر ہوتی تھیں۔ نور جہاں نے تب اُس کی حیات میں چنگاریاں بھریں اور اُس کے نام پر کاروبارِ حکومت چلایا۔کیا بشریٰ ،عمران خان کی زندگی کو نورجہاں کی طرح ثمربار کرسکیں گی؟ یہ تو معلوم نہیں مگر عمران خان کے لیے شادی کی ’’روحانیت ‘‘ میں بھی ایک ’’سیاست‘‘ موجود ہے۔بشریٰ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی روحانی وارداتوں میں آئندہ کی جھلک دیکھ لیتی ہے۔ کیایہ دعویٰ کسی سالک کو زیباہے؟ اس سوال سے قطع نظر یہ کہا جارہا ہے کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کو شادی کا منصوبہ طے ہونے سے قبل ہی آگاہ کردیا تھا کہ اُنہیں اپنے روحانی علم کی آگہی یہ ہے کہ اگر وہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل شادی نہیں کرتے تو اُن کی وزارتِ عظمیٰ پر کالے بادل چھائے رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو شادی سے زیادہ وزارتِ عظمیٰ کی تڑپ رہی ہو اور اس مستقبل بینی نے اُنہیں شادی کے ذریعے نئے روحانی سفر کے لیے آمادہ کیا ہو!مگر مستقبل بینی سے قطع نظر بشریٰ ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو نورجہاں کا ’’جہانگیر‘‘ تیار ہے۔
عمران خان کی شادی کے گزشتہ دونوں فیصلے وقت کے انتخاب کے باعث حیران کن رہے۔ اُن کی ریحام خان کے ساتھ شادی کی بیل، دھرنے کے ایّام میں منڈھے چڑھی، مگر یہ شادی تب منظر عام پر آئی جب آرمی پبلک اسکول کا اندوہناک واقعہ ہو چکا تھا۔ اُنہیں ایک ماں سے یہ سننا پڑا کہ ہم اپنے جوان بیٹوں کے لہو کو روتے ہیں اور تم شادی رچا رہے ہو۔ عمران خان کی آنکھ کے آنسو اس کرب کو کم نہ کرسکتے تھے۔ اب عمران خان کی شادی ایک ایسے موقع پر منظرعام پر آئی جب اُنہیں لودھراں سے شکست ہوئی تھی۔ اس پر سوشل میڈیا میں یہ سرخی گردش کرتی رہی کہ ’’لودھراں کی موروثی سے پاکپتن کی عروسی سیاست تک‘‘۔
عمران خان کی دونوں شادیوں میں اخفاء کا عنصر بھی مشترک ہے۔اُنہوں نے ریحام کے ساتھ بھی اپنی شادی چھپائی تھی اور اسے بعد میں منظرعام پر لائے تو یہ جھگڑا رہا کہ عمران خان کی ریحام کے ساتھ شادی کی ٹھیک تاریخ کیا تھی؟عمران خان کا ریحام خان سے نکاح 31؍ اکتوبر کو ہوا تھا، مگر وہ انکاری رہے۔ یہاں تک کہ عمران خان نے دوماہ بعدایک ٹوئٹ میں کہا کہ اُن کی شادی کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ آدمی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے۔ مگر عمران خان کے سوا تقریباً سب ہی کامیاب لوگ سیکھتے ہیں۔ ا 2015 کی کہانی کاپھر اعادہ کیا ۔ اس دوران عمران خان کی چھوی کتنی متاثر ہوئی اس کی اُنہیں کوئی پروا نہیں۔ ایک بار پھر یہی بحث عمران خان کی بشریٰ بی بی کے ساتھ شادی کے حوالے سے بھی چھڑ گئی ہے۔
شادی کے بعد اب بشریٰ بی بی پوری طرح موضوعِ بحث رہیں گی۔اُنہیں ’’روحانیت‘‘ کی ڈھال شاید نہ مل سکے۔یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ عمران خان نے جن بشریٰ بی بی سے شادی کی وہ اس سے قبل شادی شدہ تھیں، اُن کا اپنے سابق شوہر سے طلاق لینے کا معاملہ ایک بحث طلب قضیہ ہے۔ آخر وہ طلاق کیسے ہوئی؟کیا یہ طلاق عمران خان کے درمیان میں آنے سے ہوئی یا اُن کے درمیان یہ رشتہ پہلے سے ہی قابلِ نباہ نہیں رہا تھا؟ اگر یہ طلاق عمران خان کے درمیان میں آنے سے ہوئی تو اس سے سنگین بات کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس سے قبل شہباز شریف کی ایک شادی کے حوالے سے بھی یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ اُنہوں نے ایک خاتون کو پسند کرنے کے بعد اُن کے شوہر کو مجبور کردیا کہ وہ اُسے طلاق دیں۔ یہ کیسی اشرافیہ ہے؟ جسے کسی سماجی قدر اور اخلاقی اُصول کی کوئی پروا نہیں۔ جن کی خواہشات کا کوئی کنارہ نہیں۔
عمران خان شادیوں کے معاملے میںاب حسین حقانی بنتے جارہے ہیں۔ حسین حقانی نے ناہید خان کی بہن کے ساتھ اپنی شادی کو چھپائے رکھا تھا۔ جب یہ شادی ایک ’’خبر‘‘ کی طرح اڑ کرخاکسار تک پہنچی تو حسین حقانی نے کہا کہ بھئی شادی میں اسکینڈل کیا ہے؟ عرض کیا کہ اسکینڈل شادی میں نہیں اخفاء میں ہوتاہے۔ ناہید کی بہن سے اُن کی شادی دراصل پیپلزپارٹی میں ایک ’’مقام ‘‘ کی جستجو تھی۔ تب وہ اپنی نجی محفلوں میں یہ کھل کر کہا کرتے تھے کہ بھئی شادی وادی کچھ نہیں ہوتی،شادی میں بھی لڑکی کا انتخاب ایسے کرنا چاہئے کہ وہ آپ کے سیاسی کردار میں اضافہ کرے۔ اُنہیں اس پر ایک واہیات جواب بھی سننا پڑا تھاکہ ’’آپ لڑکی کے انتخاب کا مشورہ دے رہے ہیں یاپھر اُس بازار کی مخلوق کا‘‘ ۔حسین حقانی اس واہیات جواب کے مستحق بھی تھے۔ اُن کی بعد کی زندگی اُس بازار کی مخلوق کی طرح بے وفائی کی حامل رہی۔وہ اپنے کسی رشتے کے ساتھ تو کیا نباہ کرتے ،اپنی دھرتی ماں کے ساتھ بھی وفا نہ کرسکے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عمران خان کے اس رویے نے اُنہیں موازنے کے لیے شہبازشریف اور حسین حقانی کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ انسانی جبلتوں کا تعامل حیرت انگیز نتائج لاتا ہے۔ حریف سے لڑتے لڑتے دشمن ایک دوسرے جیسے ہوجاتے ہیں۔