... loading ...
حکمران اشرافیہ جن کو عوام الناس کو اپنی اولاد کی طرح سمجھنا چاہیے تھااور اُن کوسماجی معاشی سہولیات سے مزین ایک دھرتی میں رہنے کے مواقع فراہم کر نا چاہیے تھے۔ لیکن عملی طور پر دیکھ لیں کہ کھربوں روپوں کی دُبئی میں سرمایہ کاری، امریکا، برطانیا میں اثاثہ جات سوئس بینکوں میں ڈالروں کے خزانے۔یہ ہے حکمران اشرافیہ کا پیارے پاکستان اور پیارے پاکستانیوں کے ساتھ سلوک۔ عوام بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں اور حکمران اپنا سرمایہ بیرون ملک لے گئے ہیں۔حکمران اشرافیہ خود کو کوئی اوتار سمجھ بیٹھی ہے اور عوام اُس کے نزدیک کیڑے مکوڑے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ پانامہ لیکس اور دبئی لیکس کے بعد تو اِس نام نہاد جمہوریت کا گلا گھونٹ دینا چاہیے اور ایسی جمہوریت ہونی چاہیے جس میں عوام ہوں۔ اشرافیہ حکمرانی سے فارغ ہو۔ لیکن ایسا صرف خواب میں ہوگا۔ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے۔
تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت نے بھی چن چن کر دوسری جماعتوں سے نکا لے ہوئے لوگوں کو بھرتی کر لیا ہے اُن کی واحد کوالیفکیشن یہ ہے کہ وہ جیب میں نوٹ رکھتے ہیں اُن کے پاس بھاری بھرکم اے ٹی ایم ہیں۔وہ موجودہ نظام میں الیکشن جیت سکتے ہیں۔ بھاڑ میں جائے تبدیلی اور غریب نوجوانوں کی اُمنگیں۔ آئیے پاکستانی خزانے کے پہرے دار جناب ڈار جو خود کو داتا علی ہجویریؒ کا عاشق کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔ لیکن اے کاش داتا علی ہجویری ؒ کے نام کی لاج بھی رکھی ہوتی۔ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کیس میں نیب کے گواہ واجد ضیاء نے بیان قلمبند کرا دیاہے۔ واجد ضیاء نے جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ عدالت میں پیش کر دی ،واجد ضیاء نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ 1992میں اسحاق ڈار کے کل اثاثے9.1ملین روپے کے تھے، 2008-9میں اثاثوں کی مالیت 831.6ملین روپے تک پہنچ گئی، اسحاق ڈار کے اثاثوں میں اس عرصے کے دوران 91گنا کا اضافہ ہوا، اسحاق ڈار نے برطانوی کمپنی میں55لاکھ پائونڈ کی سرمایہ کاری کی اور وضاحت بھی نہ دے سکے، 2008میں 4.9ملین برطانوی پائونڈ بیٹے کو قرض دیئے، بیٹے کا نام ظاہر نہیں کیا۔ واجد ضیاء نے جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ والیم ایک اور والیم9 عدالت میںپیش کر دیا۔
احتساب عدالت میں واجد ضیاء نے اسحاق ڈار کے خلاف بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ میں ایف آئی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے طور پر کام کر رہا ہوں،20اپریل 2017کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا، ایف آئی اے نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے لیے میرا نام بھیجا، 5مئی کو سپریم کورٹ نے میری سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی، ٹیم میں سٹیٹ بینک سے عامر عزیز، آئی ایس آئی سے نعمان سعید، ایم آئی سے کامران خورشید، ایس ای سی پی سے بلال رسول، نیب سے عرفان نعیم منگی جے آئی ٹی میں شامل تھے۔واجد ضیا نے کہاکہ 1992کی ویلتھ ا سٹیٹ منٹ کے مطابق اسحاق ڈار کے کل اثاثے 9.1ملین روپے کے تھے، 2008-9میں اثاثوں کی مالیت 831.6ملین روپے تک پہنچ گئی، اسحاق ڈار کے اثاثوں میں اس عرصے کے دوران 91گنا کا اضافہ ہوا۔ واجد ضیا کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے 10جولائی 2017کو حتمی رپورٹ پیش کی، اسحاق ڈار سمیت مختلف شخصیات کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ آپ نے اپنے کیس میں اسحاق ڈار کیس تک محدود رہنا ہے۔اس موقع پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے اسحاق ڈارکی ویلتھ اسٹیٹمنٹ عدالت میں جمع کرا دی، ویلتھ اسٹیٹمنٹ مختلف ادوارپرمبنی ہے۔
واجد ضیا ء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی، مختلف بنکوں، ایف بی آر اور الیکشن کمیشن سے ریکارڈ حاصل کیا، اسحاق ڈار نے برطانوی کمپنی میں55لاکھ پانڈ کی سرمایہ کاری کی اور وضاحت بھی نہ دے سکے، 2008میں 4.9 ملین برطانوی پائونڈ بیٹے کو قرض دیئے، بیٹے کا نام ظاہر نہیں کیا۔ جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی، مختلف بینکوں، ایف بی آر اور الیکشن کمیشن سے ریکارڈ حاصل کیا جب کہ اسحاق ڈار سمیت مختلف شخصیات کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ محترم قارئین یہ صرف ایک ڈار کی بات نہیں پاکستان کے مجودہ بوسیدہ سیاسی نظام میں بڑی جماعتوں کے پاس ایسے ہی ڈار ہیں اور اُن کا واحد مقصد اپنی تجوریاں بھرنا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو اب وہ سارے کام کرنا پڑ رہے ہیں جو اِن نام نہاد حکمرانوں کو کرنا تھے۔