... loading ...
7 فروری2018ء کے اخبارات میں دخترانِ ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی صاحبہ کاہڑتال سے متعلق بیان پڑھنے کو ملا جس میں انھوں نے کہاہے کہ’’ہڑتالوں سے ہم آزادی حاصل نہیں کر سکتے ہیںاوریہ کہ متحدہ قیادت کے پاس نقشِ راہ نہیں ہے ‘‘۔میں نے یہ بیان پڑھنے کے بعد ہڑتال سے متعلق لکھی پرانی فائلیں کھنگالیں تو معلوم ہوا کہ میں نے اسی عنوان پر مختلف مواقع پر نو کے قریب مضامین لکھے ہیں ۔انہیں دوبارہ پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ پہلے ان میں سے چند ایک سطور قارئین کرام کی دلچسپی کے لیے پھر پیش کروں تاکہ پتہ چلے کہ’’ہڑتال‘‘سے متعلق جب ہم نے کہا تو آپ برامان گئے ۔میں نے 11اگست2009ء کو اپنے شائع شدہ مضمون بعنوان ’’ہڑتال شوق یا مجبوری‘‘میں لکھا تھا کہ ’’ ہڑتالوں اور احتجاجوں کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے قبضے کے بعد سر زمین کشمیرپر جتنی ہڑتالیں اور مظاہرے ہوئے ہیںاس کی مثال دنیا کے کسی بھی خطے کی موجود نہیں ہے۔احتجاجوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ مہاراجہ ہری سنگھ کے وقت سے شروع ہوا ہے یہ آگے کب تک جاری رہے گا اس کے متعلق کوئی بھی شخص پیش گوئی نہیں کر سکتا ہے ۔ہڑتال اب یہاں زندگی کا ایک جز بن چکا ہے ۔اس حوالے سے لوگوں کے درمیان اختلاف آرأ موجود ہے کچھ اس سے نالاں ہیں اور کچھ مطمئن۔دلا ئل دونوں طرف موجود ہیں البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہڑتال کرانے کا شوق کسی کو نہیں ہے کال دینے والے حضرات اسے ایک مجبوری قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک ہڑتال ہی ایک واحد ہتھیار ہے جس سے عالمی برادری تک کشمیر کے مظلوم لوگ اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں کہ کشمیری بھارتی تسلط سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ بھارت کے قبضے سے نجات چاہتے ہیں ۔ہڑتالوں سے ہو رہے نقصان کا اعتراف طرفین کو تو ہے مگر ہڑتال حامیوں کا کہنا ہے کہ آزادی کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا رونا مخالفین روتے ہیں ۔دہلی سے لیکر کشمیر تک ہر سیاستدان اور فوجی افسر ہڑتالوں سے کافی بے چین دکھائی دیتا ہے اور انکی بے اطمینانی اپنی جگہ بجا ہے اس لیے کہ مسلسل ہڑتالوںسے ریاستی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے ۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کا ذمے دار کون ہے کشمیر ی عوام یا دہلی کے حکمران جو ہڑتالوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہڑتال کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا اور عوام ہیں کہ بے یارو مدد گار ۔
2 جون2011ء کو ہم نے ایک اور مضمون بعنوان’’ہڑتال مضر یا مفید ایک ناگزیر بحث ‘‘میں عرض کیا تھا’’ ہڑتال احتجاج کا ایک پر امن طریقہ ہے یہ اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے یا منوانے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس کی اہمیت آج کے میڈیائی دور میں اور بھی بڑھ چکی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ یہ حکومت کے لیے ایک طرح سے ذلت او ر ناک کٹ جانے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے اس لیے کہ اس سے حکومت کی ناکامی اور نااہلی ہی نہیں بلکہ اس کا عوامی مسائل کو درست طریقے پر نہ سمجھنے اور حل نہ کیے جانے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت خیال کیا جاتا ہے ۔ہڑتال کے کئی طریقے اس وقت دنیا میں رائج ہیں اور ان میں سب سے تباہ کن ہڑتال’’ مکمل طور پر دکانیں بند اورپہیہ جام ہے جس سے سڑکیں سنسان اور ویران نظر آتی ہیں‘‘۔ اس قسم کی’ معیشت کو تباہ کرنے والی ہڑتال‘ گذشتہ 30سال(تب 30 اور اب 28برس) میں سب سے زیادہ وادیٔ کشمیر میں گئی ہے اور نہ معلوم آگے مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک اور بھی کتنی ہڑتالیں کرنی ہوں گی اور پہلے سے تباہ شدہ کشمیر کی معیشت کو یہاں پر کی جانے والی ہڑتالیں اور کس قدر بھسم کر کے رکھدیں گی اس کے متعلق کوئی پیش گوئی کرنا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ مسئلہ کشمیر کی حوالے سے بھارتی حکمران ابھی بھی غیر سنجیدہ ہیں‘‘۔ جہاں تک کشمیر میں ہڑتالوں سے آزادی پسند قیادت کے پرہیز کرنے کا تعلق ہے یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے اس پر اب تک بہت سے قلمکاروں اور دانشوروں نے لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔میرے خیال میں اس سب کے بیچ جو چیز مفقود پائی گئی وہ ہے ہڑتالوں کے برعکس دوسرے پر امن احتجاجی اسباب ،ذرائع اور طریقہ کار کے اختیار نہ کرنے کا ہے اور ما شاء اللہ ہماری قیادت نے اس پرکبھی بھی غور نہیں کیا اور نہ ہی ان سے اس سلسلے میںآئندہ کوئی امید وابستہ کی جانی چاہئے کیونکہ گذشتہ بیس برسوں(اب اٹھائیس برسوں) سے یہ ہمارے مشاہدے میں باربار آیا ہے کہ کوئی تجویز اور مشورہ ایک طرح سے بالکل فضول عمل اور مشقت ہے، اس لیے کہ انھوں نے اپنے آپکو لقمانِ وقت سمجھ رکھا ہے حالانکہ مکمل اور مسلسل ہڑتالوں کے نتیجے میںخود تحریک آزادی پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس لیے کہ یہاں کے غریب عوام اپنے اور اپنے بچوں کے سلسلے میں بہت ہی پریشان ہیں، جو اپنے بچوں کی پیٹ کی آگ بجھانہیں پاتے ہیں پھروہ ان کی اچھی اور میعاری تعلیم کا بندوبست کس طرح کر سکتے ہیں ؟اور میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو بھوک سے تڑپتا نہیں دیکھ سکتا ہے ہمارے سماج میں آج بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو خطٔ افلاس سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔
12اکتوبر2016ء کو میں نے ایک اور مضمون بعنوان ’’اجتماعی احتساب ناگزیر‘‘کے تحت عر ض کیا تھا کہ ’’2010ء میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد لیڈر شپ پر ’’بکنے اور جھکنے کا شرمناک الزام ‘‘تک عائد کرتی ہے ۔سوشل میڈیا آج کل اس طرح کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر قیادت نے 2010ء کے ایجی ٹیشن سے کچھ سیکھنے کے بجائے کچھ مختلف کرنے کا حوصلہ2016ء میں کیوں نہیں کیا؟قیادت نے عوامی موڑ کے مطابق اپنی کشتی کیوں بے رحم سمندر کے لہروں کے سپرد کردی ؟اس کے لیے صرف قیادت کو موردِ الزام نہیںٹھہرانا چاہیے بلکہ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ ہم نے 2010ء میں ہڑتال سے متعلق جو تاثر تخلیق کیا تھا اس نے لیڈرشپ کو اس حد تک پہنچا دیاہے کہ وہ ’’خالص دانشوارانہ طریقے اور بصیرت‘‘پر بہتر سیاسی فیصلوں کے برعکس عوامی مزاج کے اتاروچڑھاؤ کو ہی مد نظر رکھتے رہے ۔ہم نے 2010ء میں لیڈرشپ سے متعلق کھلے عام یہ کہا کہ اگر ان حضرات نے ہڑتال ختم نہ کی ہوتی تو ’’آزادی‘‘اپنے تمام تر جمال و کمال کے ساتھ کشمیریوں کا مقدر بن چکی ہوتی اور حیرت یہ کہ جن ’’خود ساختہ دانشوروں‘‘کواس وقت تین مہینے کے ہڑتال کی کوکھ سے آزادی جنم لیتی ہوئی نظر آرہی تھی انہی دانشوروں کو آج اس کے برعکس اسے ہزار گنا سخت اور شدید بلکہ پر تشدد احتجاج سے سو فیصد مایوسی ہوئی ہے ۔یہ سوال ان کی دانشورانہ بصیرت پر ہے تحریکی قیادت اور اسے جڑی عوام پر نہیں ۔مجھے یا د آرہا ہے کہ میں نے جب ایک محفل میں ’’صف دوم‘‘کے مشہور قائدین اور دانشوروں کے ساتھ نومبر 2010ء میں ملاقات کی تو وہ لیڈرشپ کو موردِ الزام نہ ٹھہرانے کی میری گذارش سے طیش میں آگئے ،میں چپ چاپ کئی گھنٹوں تک ان کی خوش گمانیوں پر اندر ہی اندر کڑھتا رہا ۔جب ہڑتالوں سے متعلق دانشوروں کے تصورات کا حال اس قدر سطحی ہو اور ان کی باتیں عوام الناس میں پھیل چکی ہوں توآپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چھ برس بعد جب 8جولائی2016ء کو دوبارہ ’’کلینڈروں‘‘کا آغاز کیا گیا تولیڈرشپ کے ذہن میں کن کن خدشات نے جنم لیا ہوگا اس لیے کہ وہ بھی ہماری طرح ہی کے انسان ہیں کوئی فرشتے یا مافوق الفطرت مخلوق نہیں۔
(جاری ہے )