... loading ...
انگریز فلسفی ہر برٹ اسپنسر نے اٹھارویں صدی کے اواخر میں فطری چناؤ کے ایک اُصول پر غور کیا تھا جس کے تحت طاقت ور ہی زندہ رہتا ہے۔ عملی اور سیاسی زندگی میں یہ اُصول خطرناک طور پر غنڈوں سے غنڈوں کے مقابلے کی صورت میں ظاہر ہوا۔سینیٹ انتخابات میں یہ بات بآنداز دگر ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں پیسوں کا مقابلہ پیسوں سے ہوتا ہے۔ حیرت انگیز مغالطے کے طور پر اسے سیاسی جماعتوں کا مقابلہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ دولت نے طاقت کو اب اپنے خادم کے طور پر چُن لیا ہے۔ اس لیے قومی ریاست میں طاقت کی تمام شکلیں دولت کی خدمت گار بن کر رہتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو ملک ریاض کو دیکھ لیں۔ بسا اوقات پوری کی پوری ریاست اُن کی خادم دکھائی دیتی ہے۔ اس میں عسکری اور سیاسی امتیاز بھی ختم ہو جاتا ہے!
تیری سرکار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے
سینیٹ انتخابات میں دولت کی چکاچوندی کا یہ پورا کھیل دراصل سرمائے کی عالمی کشاکش سے پیدا ہونے والے سیاسی نظام کی مکروہ ترین شکل ہے۔ قومی ریاستیں جمہوریت کے جس تصور سے آشنا ہے اس کے مظاہر اس سے مختلف نہیں ہو سکتے ۔پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات میں سرمائے کے منتر نے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔ آخری تجزیے میں کوئی بھی جماعت اس سے محفوظ نہیں ۔ جمہوریت کا پروپیگنڈا یہ ہے کہ جمہوریت میں تبدیلی بتدریج وقوع پزیر ہوتی ہے۔مگر پاکستان میں جمہوریت مسلسل روبہ زوال ہے اور یہ ہر گزرتے دن خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ سینیٹ کا انتخاب اس کی تازہ مثال ہے۔پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا انتخاب مارچ میں ہوگا۔ جس میں ہر ووٹر کی قیمت لگ چکی ہے۔ بلوچستان میں سینیٹ کا انتخاب جیتنے کے لیے ایک امیدوار کو آٹھ ، خیبر پختونخوا میں سولہ، سندھ میں اکیس اور پنجاب میں سینتالیس ووٹر درکار ہیں۔ان میں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ کے جو بھاؤ سامنے آئے ہیں ، اس کے مطابق بلوچستان میں ایک ووٹر کی قیمت تیس کروڑ تک جاپہنچی ہے۔ اس طرح بلوچستان میں منتخب ہونے والے ایک سینیٹر کی قیمت دو ارب چالیس کروڑ ہوگی۔خیبر پختونخوا میں ایک ووٹر کی قیمت سات کروڑ کے لگ بھگ ہے اس طرح وہاں پر ایک سینیٹر ایک ارب بارہ کروڑ کا پڑے گا۔ سندھ میں ایک ووٹر کی قیمت تاحال پانچ کروڑ تک ہے اس لیے یہاں پر ایک سینیٹر کی قیمت صرف ایک ارب پانچ کروڑ تک محدود ہے۔ فاٹا اور دیگر علاقوں کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ایک لمحے کے لیے ٹہر کر سوچئے کہ جو سینیٹر دو ارب چالیس کروڑ خرچ کرکے منتخب ہوگا وہ بعد میں اسے واپس کیسے وصولے گا؟ یا جس سینیٹر کے انتخاب کے لیے کسی بھی خریدار (بشمول پارٹی قیادت یا کوئی کاروباری شخصیت )نے یہ قیمت لگائی ہوگی تو وہ اس رقم کی واپسی کے لیے قومی خزانے کو کہاں کہاں سے بھنبھوڑے گا؟ یہ نظام کی بدقسمتی ہے کہ وہ بدعنوانی کے اس کھلے میلے پر کوئی روک لگانے سے قاصر ہے مگر جب بعد میں ترقیاتی کاموں میں بدعنوانیوں کے اسکینڈلز سامنے آئیں گے تو پھر نیب حرکت کرے گااور انصاف کی بارگاہوں سے شور اُٹھے گا۔
سینیٹ انتخابات میں کھلی منڈی لگنے کا معاملہ اس قدر عیاں اور عریاں ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خود یہ انکشاف کیا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو سینیٹ کے ٹکٹ کے ایک امیدوار نے بیس کروڑ روپے کی پیشکش کی۔ کیا چیئرمین نیب کو فوراً حرکت میں آکر عمران خان سے اُس شخص کے بارے میں فوری معلومات نہ جمع کرنا چاہئے تاکہ اس پر ہمیشہ کے لیے کسی بھی انتخابی عمل میں شرکت پر پابندی لگادی جائے۔ معاشرے مثالیں قائم کرنے سے صراط مستقیم پر آتے ہیں۔
سیاست دان عام طور پر اس نوع کی باتیں عوام میں نہیں کرتے کیونکہ ایسی صورت میں خود اُن کے کپڑے بھی سرک کر تن کو عریاں کردیتے ہیں ۔ مگر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے نہ جانے کیوں اس پر بول پڑے۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنی جماعت کے حال اور ماضی تو نظرانداز کردیے مگر سوال درست اُٹھایا کہ صوبائی اسمبلی میں جس شخص کی جماعت کا ایک رکن بھی نہ ہو وہ سینیٹر کیسے منتخب ہوسکتا ہے؟ یہ بات بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ سودے بازی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ مگر وزیراعظم نے پھر کہا کہ لوٹ کھسوٹ، ضمیر فروشی اور ووٹوں کی خریداری کی سیاست قومی مفاد کے منافی ہے۔ وزیراعظم سے مگر ایک سوال ہے کہ وہ یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ یہ خریداری کون کرے تو قومی مفاد کے منافی ہوگی؟ کیونکہ چھانگا مانگا کی سیاست سے لے کر عدل کی بارگاہوں تک کو سجدہ ریز رکھنے کے لیے مسلم لیگ نون کی قیادت نے ’’بریف کیسوں‘‘ کے سہارے لیے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کو بلوچستان میں خود اپنے ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے قیمتیں لگانی پڑ رہی ہیں اور وہ لگا بھی رہی ہے۔ اس کے باوجود اُن کا روئے سخن مسلم لیگ ق کی طر ف تھا اور درست تھا کیونکہ مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں، پھر بھی کامل علی آغا کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اُن کے لیے ووٹ کہاں سے آئیں گے؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں۔ سینیٹ انتخابات میں خریدوفروخت کا یہ عمل کوئی ناقابل فہم ریاضی کا سوال نہیں۔ امیدواروں اور اُن کی تجوریوں پر غور کر لیجیے ہر بات سمجھ میں آتی ہے۔دراصل کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جس کا انحصار کامران ٹیسوری پر نہ ہو۔
بدقسمتی یہ نہیں کہ سینیٹ کا موجود انتخابی عمل تاریخِ پاکستان کا سب سے مہنگا اور بدعنوانی کا سب سے بڑااسکینڈل بن چکا ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ اس کی جمہورت کے نام پر تکریم بھی واجب بنائی جاچکی ہے۔ دولت کے انبار سے پنپنے والے نظام کی بدعنوانیوں کی آکاس بیل ایسی بڑی اور گہری ہے کہ اس نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ذرائع ابلاغ تو خیر سے اس کے فیض یافتہ ہیں اور سرمائے کی اسی منتر سے حرکت کرتے ہیں۔ مگر دانشوروں کی بھی ایک اتنی بڑی کھیپ یہاں وجود میں آچکی ہے جو اس پورے عمل پر دھیان دینے کو تیار نہیں کہ یہاں غنڈوں کا مقابلہ غنڈوں اور دولت مندوں کا مقابلہ دولت مندوں سے ہوتا ہے۔عوام اس کا محض نمائشی حصہ ہے جنہیں حرکت میں لانے کے لیے دولت اور سیاست کے اپنے جادو ہوتے ہیں۔