... loading ...
ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ کون صحیح اورکون غلط ہے اس کافیصلہ لوگوں نے کرناہے،پاکستان کی عوام ریڑھ کی ہڈی کی صورت میں عدلیہ کے پیچھے کھڑے ہیں، ہمیں کوئی نکال کر باہر نہیں پھینک سکتا، معاشرے بے انصافی پر نہیں چلتے، ادارے انصاف پر چلتے ہیں۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے راجہ ظفرالحق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ راجہ ظفرالحق صاحب آپ عدالت میں آتے ہیں ہمیں خوشی ہوتی ہے آج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ نہیں آتے، ان لوگوں کو پیار سے لے کر آئیں ذرا ہم بھی دیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں، سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہیے تھا، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کاکہنا تھا کہ عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کاقانون ہوگا،مجھے جسٹس اعجازالاحسن نے برطانیاکی عدالت کافیصلہ نکال کردکھایاہے،اگر عدالتی فیصلے پر بلاجواز تنقید ہوتوفیصلے میں لکھاہے ججزجواب دے سکتے ہیں،ہم جلسہ کرسکتے ہیں نہ لوگوں کوہاتھ کھڑاکرنے کاکہہ سکتے ہیں،یہ عدالت آئین کے تحت بنائی گئی ہے، آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے اور بہت مقدس ہے،ہم نے لوگوں پر عدلیہ کے وقار کوبحال کرناہے، توہین عدالت کیس میں مجرم کی سزا6ماہ ہے،عدالت کے پاس اس سے زیادہ ملزم کوجیل بھیجنے کااختیار ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاعدالت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کاجواب دیناپڑتاہے،کسی آئینی ادارے کودھمکانہ تنقید کرنا آرٹیکل 5کی خلاف ورزی ہے۔
سماعت کے موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف نے لوگوں کوبے وقوف بنانے کی کوشش کی18ویں ترمیم میں آرٹیکل62ون ایف کوبرقرار رکھاگیا،ججزکواختیار آئین اورعدلیہ نے دئیے، اثاثوں کا خانہ ختم کرایا گیا تاکہ کوئی پوچھ نہ سکے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی میں اثاثوں کا خانہ ختم کرنے کے لیے تمام جماعتوں نے ووٹ دیا؟، جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ووٹ نہیں دیا، اس موقع پر عدالت نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کی منظوری سے متعلق اسمبلی کی ڈیبیٹ طلب کرلی،سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کی دلیل یہ ہے کہ نوازشریف، زرداری اور عمران خان سینٹ انتخابات کے لیے ٹکٹ دے رہے ہیں؟،کیا آپ کہنا چاہتے ہیں جس شخص کے خلاف پانچ ججز کا فیصلہ آیا وہ ٹکٹ نہیں دے سکتا؟، اگر عدالتی فیصلے کو غیر موثر کرنے کے لیے قانون سازی ہوگی تو کیا ہم اس قانون سازی کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟،اگر کوئی شخص آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت غیر صادق و امین ہو تو کیا وہ پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا؟،کیا سپریم کورٹ صرف اس بنیاد پر قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے؟، آئین کی اصل یہ ہے کہ ملک کا حکمران دیانتدار ہو،اگر کسی ادارے کا سربراہ ٹھیک نہ ہو تو پورا ادارہ خراب ہوتا ہے، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا موجودہ وزیراعظم کہتے ہیں نوازشریف میرا وزیراعظم ہے اور فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ کی عمارت تمام عمارتوں سے اڑھائی فٹ اونچی ہے، معاشرے بے انصافی پر نہیں چلتے،ادارے انصاف پر چلتے ہیں،لطیف کھوسہ نے کہا آجکل ججز کو باہر نکالنے کی باتیں ہورہی ہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا تھامسن صدر تھا اس سے پوچھا فیصلے پر عمل کون کرے گا؟، اس نے جواب دیا عوام فیصلے پر عمل کروائیں گے، پاکستان کی عوام ریڑھ کی ہڈی کی صورت میں عدلیہ کے پیچھے کھڑی ہے، ہمیں کوئی نکال کر باہر نہیں پھینک سکتا،ریاست سے وفاداری عدلیہ سے وفاداری ہے،عوام عدلیہ کے پیچھے کھڑی ہے،نہ ہم پریشان ہیں نہ ہی قوم پریشان ہے۔
اس دوران لطیف کھوسہ نے کہا ٹی وی پر 24 گھنٹے باپ بیٹی تقاریر کررہے ہیں، آپ سب جانتے ہیں پھر صبر کیوں دکھا رہے ہیں؟،جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو حکمت کا بہت کم علم ہے،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا معاشرہ سو نہیں رہا پاکستان جاگ رہا ہے،ملک کے لوگ جانیں دے رہے ہیں،پاکستان میں جمہوریت ابتدائی مراحل طے کررہی ہے،کیا پارٹی مضبوط ہوتی ہے یا پھر شخصیت؟، کیا قائد کے چلے جانے سے پارٹی ختم ہو جاتی ہے؟،بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہیے تھا، لطیف کھوسہ کے خلاف فیصلہ دیا لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی، 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے اور بہت مقدس ہے جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ججوں کو اختیار آئین نے دیئے ہیں، عدلیہ اور فوج کو آئین نے تحفظ دیا ہے، آئین کا تحفظ اصل میں ملک کا تحفظ ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس عدلیہ پر حملہ کس نے کیا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت اتنی رحمدلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون ساز پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرسکتے ہیں، کیا ہم اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون آئین سے متصادم ہے تو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق آئین کی روح یہ ہے کہ ریاست پر ایماندار شخص حکمرانی کرے، عدالت کو ا سیکنڈلائز کیا جارہا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، جو ہوا ہے، جو ہورہا ہے جو آگے ہوگا سب اللہ کی نشانی ہے، پاکستان میں جمہوریت ابھی نوجوان (ینگ) ہے، عدالت نے وزیراعظم کے بیان کی تفصیل طلب کرلی۔
عدالت میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر دکھانے پر پابندی کی استدعا کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے بول کر بھی جواب دیںگے۔قانون کی حاکمیت کی بات ہر حکمران کرتا ہے کیونکہ اُس کی حکمرانی کو قانون نے ہی سہارا دے رکھا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اسمبلی میں بیٹھے زیادہ تر ارکان ہر قسم کے کبائر کاشکار ہیں۔ تھانے کچہری کی سیاست کرنے والے یہ قانون ساز۔ قانون کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔کینگرو کورٹس کا نعرہ لگانی والی پیپلز پارٹی اب قانون کی حکمرانی کا راگ الاپ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی توہین کرنے والے بابر اعوان عوام کو حقوق العباد پر لیکچر دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے تین دہاہیوں تک حکمرانی کے مزے لینے کے بعد پانچ ججوں کے خلاف ہر روز ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جو آزادی حاصل کرنے کے باوجود بھی بد ترین غلامی میں ہے۔ اگر تو آزادی آئین و قانون کی حد تک دیکھنی ہو تو پاکستان کا آئین قران پاک پر مبنی ہے۔ قانون بھی ظاہر ہے اِسی آئین کے پیر امیٹرز پر بنا یا گیا ہے۔ لیکن اِس قانون کی عملداری کا یہ عالم ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو دن رات ایک سابق وزیر اعظم اور اُسکے حواری گالیاں دیتے ہیں۔
عام آدمی کو تو قانون پر عمل درآمد کرنے کا کہا جاتا ہے لیکن جب دو مرتبہ وزیر اعلیٰ اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ہی عدالت عظمیٰ کے خلاف دن رات بھڑاس نکال رہے ہیں تو اِس کا تو مطلب یہ ہی ہے کہ قانون کی عملداری صرف عوام کا معاملہ ہے اشرافیہ اِس سے بری الذمہ ہے۔ اگر موجودہ حکمرانوں نے یہ ہی سب کچھ کرنا ہے تو عدالتیں بند کردیں اور موجودہ حکمران، چیف جسٹس اور فوج کے سپہ سالار کا عہدہ بھی خود سنبھال لیں اور پوری قوم کو زہر دے دیں تاکہ وہ اپنے حکمرانی کے لیے نئی رعایا کا بندوبست کریں۔میری جناب چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ نا اہل وزیر اعظم نے خوب اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ہے۔ اب ذرا نظر کرم نہال ہاشمی کے بعد اِن پر بھی فرمائی جائے۔ تاکہ اِن عقل کے اندھوں کو بتایا جاسکے کہ قانون کی عملداری کے بغیر معاشرے تباہ برباد ہوجاتے ہیں۔ یقینی طور پر حکمران اپنی حکمرانی کے گھمنڈ میں بولتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن جناب چیف جسٹس خدارا کچھ تو عوام پر رحم ہونا چاہیے اور عدالتِ حضور کے خلاف دن رات بولنے والوں کو لگام دی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب نے ایک تاریخی فیصلہ نہال ہاشمی کے حوالے سے کیا ہے ۔ کہ اُن کو جیل بھیج دیا ہے۔ یقینی طور پر چیف جسٹس صاحب نے درست قدم اُٹھایا ہے۔عمران خان نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ میں سپریم کورٹ کو نہال ہاشمی کی توہین پر اس کے خلاف فیصلہ دینے پر سپریم کورٹ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نہال ہاشمی کو سزا دینے پر سپریم کورٹ کو مبارکباد پیش کی۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ نہال ہاشمی نے فاضل عدالت کے ججز اور انکے اہلخانہ کو گالیاں اور دھمکیاں دیں میں سپریم کورٹ کی جانب سے نہال ہاشمی کو سزا دینے پر سپریم کورٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔انکا کہنا تھا میں فاضل عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ پوری قوم انکے ساتھ کھڑی ہے اور انکے شریف خاندان اور انکے درباریوں کی بد زبانی کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔جمعرات کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نوٹس میں پاکستان مسلم لیگ کے رہنما طلال چوہدری کو 6 فروری کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔طلال چوہدری کیخلاف توہین عدالت کیس اوپن کورٹ میں مقرر کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جس طرح کا اب انداز اپنا یا جارہا ہے لگ رہا ہے کہ اب اگلی باری نواز شریف اور مریم صفدر کی ہوگی۔ جناب چیف جسٹس نے راست قدم اُٹھایا ہے ۔ پوری قوم کو نظر آنا چاہیے کہ قانون کی عملداری یقینی بنائے جائے۔ جناب چیف جسٹس مشرف کو بھی انٹر پول کے ذریعہ سے واپس لانے کا حکم جاری فرمایا جائے کیونکہ مشرف آئین پاکستان کو توڑنے کا مرتکب ہوا تھا ۔اِس لیے اگر نہال ہاشمی کو سزا دی جاسکتی ہے تو پھر نواز شریف اور مشرف کو کیوں نہیں۔ قانون کی عملدار تو تب ہی ہوگی۔