... loading ...
ایم کیوایم کبھی شکار ی تھی اب شکار ہے۔تاریخ کا بے رحم چکر یہی ہوتا ہے۔ لاطینی بائبل میں حضرت عیسیٰ ؑ سے ایک فقرہ منسوب ہے جو حیاتِ اجتماعی کے بنیادی راز کو آشکار کرتاہے کہ
ـ’’he who lives by the sword dies by the sword ‘‘
انسان کی جدلیاتی حیات میں تقدیر مبرہن نے اسے ایک کلیہ کے طور پر راسخ کردیا کہ تلوار پر انحصار کرنے والے تلوار کے ہی شکار ہوتے ہیں۔ایم کیوایم کے باب میں یہی حقیقت اب عیاں ہونے جارہی ہے۔ انصاف کا لامحدود الجبرا کراچی کے گلی کوچوں میں اپنا یہی حساب کتاب اُلجھا سلجھا رہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے 23؍ اگست کو ایک نئے رخ ورخسار کے ساتھ اپنی چَھب دکھلانے کے لیے گھونگھٹ تو اُٹھا لیا تھااور اس کے ساتھ اُس کا بانی قائد نہیں تھا مگرا س کی ایک تاریخ تھی جو اب بھی چپکی ہوئی ہے۔ایم کیوایم کبھی موت کی دہشت کا نام تھا۔ بیرونِ جماعت اس کے خلاف لب کشائی ممکن نہیں تھی مگر خود اس کے اندر بھی ایک ایسا ’’نظم وضبط‘‘ رائج تھا کہ ذراسی زبان ہلنے پر موت کے فرشتے حرکت میں آجاتے تھے۔ آج کی متحدہ اس حیات شکن نظم وضبط کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ سینیٹ کے انتخابات میں اس جماعت کے اندر جس طرح جوتیوں میں ڈال بٹتی نظر آرہی ہے وہ اسی حقیقت کی طرف دلالت کررہی ہے۔
ایم کیوایم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کبھی یہ ایک آدمی کے اشارے پر مشینی انداز سے حرکت کرتی تھی اور اب لندن کا سایہ ہٹنے کے بعد وہ کتنوں کے اشارے پر چل رہی ہے اس کا پتہ ہی نہیں چل رہا۔ ایم کیوایم کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو اس الزام کا سامنا ہے کہ اُن میں قائدانہ صلاحیت نہیں۔ مگر عملاً یہ الزام اُنہیں ایک حاشیہ بردار اور طفیلیے قائد کے طور پر رکھنے کے لیے عائد کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مرتبہ پھر ایم کیوایم کے بانی قائد کے طرز عمل اور پارٹی سمیت کراچی پر آہنی گرفت کا فطری ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ درحقیقت ایم کیوایم کی ساخت اور بناؤٹ ہی کچھ ایسی ہے کہ اِسے’’ حضرت عزرائیل ؑ ‘‘کے ساتھ راہ ورسم رکھ کر ہی اپنی ہیئت پر قائم رکھا جاسکتا ہے ۔ایم کیوایم کے ذریعے جو قوتیں کراچی میں اپنے مخصوص مفادات سمیٹتی رہی ہیں اُن کے لیے بھی یہ اُن ہی تیوروں کے ساتھ ایک ’’معاون‘‘ قوت رہی ہے۔ مگر کراچی کے مخصوص اور ملک کے عمومی حالات میں اب یہ ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ فاروق ستا ر کے رابطہ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ تنازع کے بعد وہ جب کارکنان کے درمیان خطاب کرنے آئے تو اُنہوں نے اس کی خاص طور پر نشاندہی کی کہ ’’میرے پاس وہ ڈنڈا نہیں ہے جو بانی متحدہ کے پاس تھا‘‘۔ یہ جملہ ایم کیوایم کی پوری تاریخ کو عریاں کردیتا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار ہی نہیں اس منصب پر کوئی بھی براجمان ہو وہ اس’’ ڈنڈے‘‘ کی موسیقی کے بغیر قائدانہ صلاحیت سے عاری ہی کہلائے گااور ایم کیوایم کے اندر یہ آپا دھاپی جاری رہے گی جو آج کل جاری ہے۔ اس عمومی پس منظر میں کا ایک خصوصی نتیجہ یہ نکلے گا کہ کراچی کے اندر ایم کیوایم کی سیاست کے زیراثر رہنے والے عوام اور کارکنان ہمیشہ پی آئی بی، بہادر آباد ، لانڈھی اور عزیز آباد کے درمیان جھولتے رہیں گے۔اس درمیان پی ایس پی ایک لٹکتی ہوئی تلوار ہوگی جو کس کے سر کب پڑے گی اور کیا نتائج لائے گی، یہ ایک پراز ابہام معاملہ رہے گا۔ کیونکہ کراچی کے اندر حساس حلقوں کے ساتھ روابط کا اثر اُلٹا اور سیدھا دونوں ہی پڑتا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے کردار کی وضاحت کے لیے کراچی کی فضاؤں میں گونجنے والا یہ جملہ کافی ہے کہ ’’ اگر نوازشریف بھی مقدمات سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اُنہیں پی ایس پی میں شامل ہوجانا چاہئے۔‘‘ظاہر ہے کہ اس طرح کی شہرت کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے جو فائدہ اور نقصان دونوں پہنچاتی ہے۔
ایم کیوایم کے اندر حالیہ تنازع اگرچہ کامران ٹیسوری کے چوتھے سینیٹر کے لیے نامزدگی کے مسئلے پر کھڑا ہوا ہے۔ مگر ایم کیوایم کے اندر تنازعات اُٹھنے کے لیے کامران ٹیسوری کا معاملہ ہونا ضروری نہیں۔ تنازعات کا طوفان اب ایم کیوایم کے اندر فطری محرکات پیدا کر چکا ہے۔ اور تاریخ کی قوتیں اگر ایک بار بے لگام ہوجائیں تو پھر یہ کبھی بھی قابو نہیں آتیں۔ اس کے باوجود کامران ٹیسوری کا کردار ایک زبردست مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اپنے’’ شوق‘‘ کی شوخیوں، شوریدگیوں اور شرر ریزیوں کے باوجود ایم کیوایم کی کھیپ میں قدرے بہتر آدمی ہیں۔ جبکہ کامران ٹیسوری صرف ایم کیوایم نہیں کسی بھی جماعت کے اندرموجود چند بدتر لوگوں میں شمار کے قابل ہیں مگر اس کے باوجود ایسا کیا ہے کہ فاروق ستار ایسے لوگ کامران ٹیسوری کے رحم وکرم پر چلے جاتے ہیں۔ یہ محض ایک مسئلہ نہیں بلکہ درحقیقت ایک موذی مرض ہے جس نے ہماری اجتماعی زندگی کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کامران ٹیسوری ایسے لوگ دراصل جرم اور سیاست کے درمیان کسی فاصلے اور فرق کو نہیں سمجھتے۔ ایم کیوایم کے نوے فیصد رابطہ کمیٹی کے ارکان کامران ٹیسوری کے خلاف ہیں مگر ڈاکٹر فاروق ستار اُنہیں کسی طور بھی نظرانداز کرنے کو تیار نہیں۔ عام طور پر اس طرح کے حالات میں ایسے فیصلے کسی’’ فائدے‘‘ سے زیادہ کسی ’’مجبوری‘‘ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ ایک فضول کٹ حجتی ہے کہ کامران ٹیسوری حساس حلقوں سے اپنے مخصوص روابط کے باعث ایم کیوایم کو کچھ فائدہ پہنچانے کے اہل ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار اس حوالے سے کامران ٹیسوری سے زیادہ بڑا حلقہ رکھتے ہیں۔ اور پھر اُن کے اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ درحقیقت کامران ٹیسوری کا معاملہ اس سے سوا اور کچھ انوکھا لگتا ہے۔ جس کی تمام تر اسباب خارجی سے زیادہ داخلی بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود دوتین پہلو ایسے ہیں جو ایم کیوایم کے اندر کچھ حلقوں کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ کامران ٹیسوری کی ایم کیوایم میں شمولیت اور تیزرفتاری سے فیصلہ سازی کے عمل میں غالب شرکت نے ایم کیوایم کے پرانے لوگوں کو چونکایا ہے۔ اس حیرت میں اضافہ ایم کیوایم کے آئین میں تبدیلیوں سے مزید ہوا ہے جس میں کامران ٹیسوری کا بھی مبینہ طور پر کوئی کردار موجود ہے۔
اب یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی میں زیادہ سے زیادہ ارکان کی شمولیت نے اس کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ ایم کیوایم کو وسیع البنیاد اور اس کے حلقۂ اثر کو بڑھانے کے لیے تھا مگر اس نے برعکس نتائج دیے۔ طاقت کے بھرم پر چلنے والے گروہ زیادہ عیاں ہو کر اپنے آپ کو کمزور کرتے ہیں۔ ایم کیوایم کی نفسیات سیاسی سے زیادہ تنظیمی ڈھانچے کی سخت گیری میں گندھی تھی جسے اس فیصلے نے تہ وبالا کردیا۔ ایم کیوایم کو مجموعی طور پر اب اندرونی طور پر جس خلفشار کا سامنا ہے یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ درحقیقت ایم کیوایم کی بناؤٹ میں جو عناصر کارفرما تھے، اُن میں سے کوئی بھی عنصر اپنی جگہ نہیں۔ پھر ان عناصر میں سے کوئی ایک بھی حقیقی نہیں تھا۔ بانی متحدہ کی شخصیت کامل مصنوعی تھی۔ اُن کی آہنی گرفت مکمل غیر فطری تھی۔ اُن کے تنظیمی ڈھانچے کی حرکت پزیری مکمل غیر سیاسی تھی۔ اُن کے ساتھ پارٹی رہنماؤں کی وابستگی بھی غیر انسانی تھی ۔ پھر اس سب نے مل کر جو ماحول بنایا وہ سب کا سب غیر اقداری اور مصنوعی تھا۔ایم کیوایم کے موجودہ انتشار میں نظر آنے والی وجوہات یہ نہ ہوتیں تو کچھ اور ہوتیں مگر انجام ہر گز مختلف نہ ہوتا۔الغرض یہ کچھ اور نہیں مصنوعیت کی موت کا منظر ہے۔