وجود

... loading ...

وجود

نیا سیاسی منظر نامہ۔ کیا 90 19کی سیاست لوٹ آئی؟

جمعرات 08 فروری 2018 نیا سیاسی منظر نامہ۔ کیا 90 19کی سیاست لوٹ آئی؟

موچی دروانے میں ہونے والے جلسے میں جناب زرداری بشمول کائرہ اور اعتزاز احسن جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ سب کچھ ن لیگ کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ کہ جس لاہور کی بنیاد پر اُن کی سیاست کا طوطی گذشتہ تین دہائیوں سے بول رہا ہے اُسی لاہور میں وہ بھی عوامی مقام پر کھڑے ہوئے زردار ی نے نواز شریف کو ناسور قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تم کیونکہ مودی کے یار ہو۔ اِس لیے تمھیں نکالا ہے۔جناب نوز شریف پانچ فروری کوآزاد کشمیر میں جاکر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حید ر کو عوامی جلسے میں کہہ رہے ہیں کہ میں پا کستان میں ناہل ہوا ہوں۔ آزاد کشمیر میں نہیں۔ اِس لیے جناب وزیر اعظم آزاد کشمیر میری ڈیوٹی آزاد کشمیر میں لگا دیں۔ جناب سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مزید ارشاد فرمایا کہ اگر میری حکومت ختم نہ ہوتی تو کشمیر میں بے روز گاری ختم ہو چکی ہوتی۔ جناب نواز شریف نے سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں جنہوں نے اُن کے خلاف فیصلہ دیا کو بھی خوب کھری کھری سُنائیں۔

اُدھر سوشل میڈیا پر نواز شریف فورس کے نام پر پانچوں ججوں کے خلاف انتہائی بے ہودگی پر مبنی مہم چلائی جارہی ہے۔ انتہائی گٹھیا زبان اِن ججوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ اِسی مقصد کے لیے نواز شریف اور مریم نواز خاص طور مسلسل سوشل میڈیا ورکرز کنونشن میں خطا ب کر رہے ہیں۔ الیکشن قریب آتے ہی نواز شریف کی جانب سے عدلیہ کے خلاف مہم میں تیزی آتی جارہی ہے۔ ن لیگ کو انتخابی سیاست کا تیس سالوں سے زائد عرصے کا تجربہ ہے۔اِس لیے کہ ن لیگ اپنی انتخابی سیاست سائنسی انداز میں چلاتی ہے۔ شاید پاکستانی فوج کو خبردار کرنے کے لیے جناب نواز شریف نے پاکستانی غدار شیخ مجیب الرحمان کو محب وطن قرار دے دیا۔ لیکن اِس سے جناب نواز شریف کی سیاست کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اِسی طرح ممتاز قادری شہید کو پھانسی دینا اور ختم نبوت کے قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نے بھی مسلم لیگ ن کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔

پاکستان کی جمہور عوام وطن سے محبت اور نبی پاک ﷺ سے محبت کے حوالے سے بہت حساس ہے ۔ ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن نواز شریف ذہنی تنائو کی وجہ سے غلطیوں پہ غلطیاں کرتے چلے جارہے ہیں۔ جس کا خمیازہ اُن کو آئندہ الیکشن میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ فضل الرحمان نے مذہبی ووٹ توڑنے کے لیے مجلس عمل کو دُوبارہ زندہ کر لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کسی بھی وقت کسی بھی پارٹی کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ ایسا وہ نظریہ ضرورت کے تحت کرتے ہیں۔ دوسری طرف لبیک یارسول ﷺ نے بھی ابھی تک ہونے والے ضمنی انتخابات میں لاہور، چکوال اور پشاور میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے۔اگر علامہ خادم رضوی صاحب نے کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد نہ کیا تو وہ نواز شریف کو ہر حلقے میں زبردست نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آئندہ الیکشن میںجماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے حالات کافی غیر تسلی بخش نظر آرہے ہیں ۔

نواز شریف نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کشمیری اکیلے نہیں قوم ان کے ساتھ ہے ہر ممکن جگہ پر کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں گے۔ نوازشریف نے جلسہ کا جوش و خروش دیکھ کر دل خوش ہو گیا ایسا جوش پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ کشمیریوں سے خون کا رشتہ ہے‘ میں نااہل قرار دیدیا گیا ہوں‘ یوم کشمیر پر اس موضوع پر کیا بات کروں دل بہت دکھی ہے لیکن کوئی فیصلہ اس دل کو نہیں توڑ سکتا کوئی فیصلہ عوام سے رشتے کو توڑ نہیں سکتا۔ میں آپ کے ساتھ اور آپ میرے ساتھ ہیں۔ میں جس قابل ہوں آپ کی اور اس پوری قوم کی خدمت کرتا رہوں گا۔ نوازشریف کے ہاتھ صاف ہیں۔ فیصلہ آیا ہے کہ حسن نواز سے تنخواہ نہیں لی اس کی وجہ سے میری چھٹی کرا دی گئی تو نوازشریف نااہل ہو گیا۔ کیا آپ کو یہ فیصلہ قبول ہے۔ آپ کو نوازشریف پر اعتماد ہے تو پھر میرے خلاف کیوں فیصلہ سنایا گیا مسلم لیگ (ن) کی حکومت جتنا پیسہ چاہئے آزاد کشمیر کو دیں گے۔ ہم نے بجٹ کو دگنا کیا ہے۔ میں پاکستان کے لیے نااہل ہو گیا ہوں تو میں نے راجہ فاروق حیدر سے کہا میری ڈیوٹی آزاد کشمیر میں لگا دیں۔ میں یہاں نااہل نہیں ہوا۔ میں اور راجہ صاحب کی ٹیم آزاد کشمیر کے چپے چپے میں جائیں گے۔ انشاء اللہ آپ کی دعائیں قبول ہونے والی ہیں۔ مظفر آباد لاہور کے مقابلے میں شہر بنے گا۔ یہ محبت کہاں ملتی ہے یہ پیسے سے محبت خریدی نہیں جا سکتی ہے۔ اللہ نے آپ کے دلوں میں میری محبت ڈالی۔ نوازشریف کے دل میں بھی آپ کے لیے بہت محبت ہے۔

سابق صدر اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ کبھی یہاں قائد اعظم، شہید لیاقت علی خان، شہید ذوالفقارعلی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو بھی کھڑے تھے آج ہم اور آپ کھڑے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنے گاؤں کا نام تو جاتی امراء رکھتے ہیں لیکن کشمیریوں کا غم دل میں نہیں رکھتے، پاکستان کی سوچ نہیں رکھتے، آنیوالی نسلوں کی سوچ نہیں رکھتے، جب سے پاکستان بنا ابتک جتنا قرضہ لیا ہے انہوں نے ساڑھے چار سال میں تین گنا زیاد ہ قرضہ لے لیا ہے جو ہمارے بچے اتاریں گے۔یہ کہتے تھے کہ پرویز مشرف کو سزا دیں گے لیکن حکومت نے عدالت میں کہا تھا کہ ہمیں مشرف کے باہر جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ انہیں اب یاد آرہا ہے۔حکومت آپ کی ہے۔ پنجاب اور گلگت میں بھی آپ کی حکومتیں ہیں لیکن شاید اب بلوچستان کی حکومت آپ کی نہ رہے۔ میں نے کہاتھا کہ ہم آپ کی حکومتیں ہٹاسکتے ہیں لیکن ہم وقت کا انتظارکررہے ہیں ہم جمہوریت کی خاطر پندرہ سال جیل کاٹی، بھٹو نے پھانسی کے پھندے کو چوما، بینظیر بھٹو نے اپنی جان دی ،انہیں پتہ تھا کہ ان کی جان خطرے میں ہے اس کے باوجود وہ دوبارہ آئیں۔ مشرف تو پہلے دن سے طاقت کی تقسیم پر تیار تھا لیکن ہم نے مشرف کو نکالنا تھا، مشرف ہمارے لیے ایک ڈکٹیٹر کی نشانی تھی اب وقت آگیا ہے کہ کوئی بھی ڈکٹیٹر اس طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا۔

ا نہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا تھا جس کے تحت کشمیر ایک سرمایہ دیر کو دیا جانا تھا،جس کی کاپی میرے پاس موجود ہے تاہم فوج راضی نہ ہوئی اور جب اسے دکھایا گیا تو فوج کے جنرلز اٹھ کر چلے گئے۔۔پیپلز پارٹی آج بھی طاقت رکھتی ہے کہ جتنی بھی انہوں نے قرض اٹھائے ہیں اسلحے پیدا کیے ہیں پاکستان کی ایک ہی جماعت ہے جو ان کو ختم کرسکتی ہے۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ سی پیک کیا ہے۔ سی پیک بہت بڑی سوچ کا پہلا ستون تھا جو ان کو نظر آیا یہ صرف اس سے ڈرامے بنارہے ہیں اور راستے بنارہے ہیں سی پیک سے ہم نے ریجنل اکنامک پاور بننا تھا آج بھی چائنہ فوڈ امپورٹ کرتا ہے لیکن آپ اپنی چینی برآمد نہیں کرسکتے یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے یہ کیوس تھیوری کو استعمال کرکے ہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں مگر ہم اس کو ہرگز ہرگز ایسا نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اب اس کو نکالنا پڑے گا اس کو چھوڑیں گے نہیں، اگر ہم نے اب میاں کو چھوڑ دیا تو اللہ بھی شاید ہمیں معاف نہ کرے یہ قومی اورعوام کا چور ہے غریبوں اورمزدوروں کا چور ہے، اس نے ہاریوں کا عوام کا حق کھایا ہے ہم ایسے درندے کو برداشت نہیں کرسکتے جب کشمیر جاکر کشمیر کی بات نہیں کرنی تو جاکیوں نہیں رہے؟ اگر آپ نے کسی سرمایہ دارکیساتھ مل کر کشمیر میں حکومت بنالی ہے ، آپ نے پاکستان کی جڑیں کاٹیں ایسا انسان دھرتی کے لیے ناسور ہوچکا ہے اس کو سوچنا چاہئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ دھرتی آپ کو لینے کو تیار نہیں ہوتی اور گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے میں اللہ سے دعاکرتا ہوں کہ اس ناسور سے غریبوں کی عوام کی جان چھڑا تاکہ ہم پاکستان کودوبارہ بناسکیں۔

پاکستان اتنا مضبوط ملک ہے کہ اگر اس کو صحیح معنوں میں چلایا جائے تو ان کو پتہ نہیں کہ پاکستان کو کیا بنایا جاسکتا ہے ۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ الیکشن شفاف ہوں گے آپ کو کامیابی ہوگی ہم چاروں صوبوں سے جیتیں گے۔ پاکستان میں جب بھی میں نے دعویٰ کیا ہے تو میں نے کرکے دکھایا ہے پچھلی دفعہ میں نے کہاتھا کہ میں انکی حکومتیں گراسکتا ہوں تو آپ نے دیکھا کہ حکومت گری وہ جاتی امراء سے بیزار تھی۔ ہم نے انہیں خوف سے نکالا تو انہوں نے اپنی لیڈر شپ بنالی۔ اِسی طرح عمران خان بھی ہر جگہ ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ لاہور موچی دروانے میں زردار ی نے عمران کے متعلق ایک لفظ نہیں بولا۔ ایسا محسوس ہو رہا کہ نو کی دہائی کی سیاست پھر سے عود آئی ہے۔ ایک دوسرے کو غدار کہنا۔ن لیگ میں ایک اچھی پیش رفت ہوئی ہے کہ مشاہد حسین جیسا کُہنہ مُشق سیاستدان ق لیگ سے واپس ن لیگ میں آگیا ہے۔یقینی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتری کی طرف لے جانے کے لیے مشاہد حسین جیسا سیاستدان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر