... loading ...
پاکستان میں ہی نہیں ہندوستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا دور گذرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اب بہت سے شاعر ، ادیب ، قلمکار اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ عالِم اور سیاستدان بھی مطالعہ سے دورہوتے نظر آتے ہیں ۔ اکثر ٹی وی اینکرز( مردو زن ) کا دامن اس سوز سے خالی ہی نہیں بلکہ تہی دامنی کی حدوں کو چھوتا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا عام ہوتے ہی بہت سارے لوگ اسی کی معلومات پر قناعت کرتے ہیں ۔
مطالعہ سے بے زاری کی خرافات نے ہم سے کشادہ دلی سمیت بہت کچھ چھین لیا ہے ۔ گذشتہ کئی سالوں سے ہمارے ہاں ہرسال درجنوں نہیں سینکڑوں کی تعداد میں شعری مجموعے شائع ہو رہے ہیں ۔ فنی اعتبار سے ان مجموعوں کی جانچ کے لیے اب مشفق خواجہ جیسا صاحب علم نقاد خال خال بھی نہیں ملتا۔ گروہ بندی اور ادبی لابیوں کے طرز عمل سے تخلیقی سرگرمیوں کا سچا عکس بہت ہی کم نظر آتا ہے۔ کچھ شاعر دوستوں اور احباب کی شاعری کی نئی شائع شُدہ کُتب زیر مطالعہ ہیں ۔ شاعر اور ادیب نہ ہونے کے باجود یہ جان پایا ہوں کہ تخلیقی عمل کی جستجو کو آرزو کی خوشبو بنانے کا عمل معدوم نہیں تو سُست روی کا شکار ضرور ہے۔ کہنے دیجیئے کہ جس کے پاس کتاب شائع کروانے کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہیں وہ اُتنی ہی کتابوں کا مصنف ہے۔
شاعری میں اب خیال اور لب و لہجے کی یکسانیت سی در آئی ہے۔ ایک محترم کایہ کہنا درست لگنے کے ساتھ ساتھ من کو بھی بھاتا ہے کہ یہ سب کُتب بینی سے دوری اور فیس بُک پر ’’ بہت خوب ‘‘ ۔ ’’ کیا کہنے ‘‘ ۔ ’’ واہ واہ ‘‘ جیسے کمنٹس کی تکرار کا نتیجہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر آراء دینے والے بھی مجبور ہیں اگر کوئی ناقدانہ کمنٹس دیئے جائیں تو ’’ شعرائے فیس بُک ‘‘ کی جانب سے ’’ ان فرینڈ ‘‘ اور ’’ بلاک ‘‘ کرنے کے آپشن استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ عمر بھی دشمنی بھی آ جاتی ہے ۔ بس کمنٹس اور داد و تحسین کا ’’ وٹہ سٹہ ‘‘ انجمن ستائش باہمی ‘‘ کی محفل سجائے ہوئے ہے ۔
حال ہی میں داغ مفارقت دے جانے والے معروف براڈ کاسٹر ظفر خان نیازی کی جانب سے ترجمہ کی گئی عالمی شہرت یافتہ نظموں کی کتاب ’’ پرائی نظمیں ‘‘ نے مجھے تجسس کے جس راستے پر ڈالا اُس پر سفر کرتے ہوئے مجھے چلی کے معروف شاعر ’’نیرودا ‘‘یا دآ گئے ۔ اردو ادب کے معروف حلقوں کی طرح یہ میرا بھی پسندیدہ شاعر ہے ۔ اس کی شاعری کا اردو ترجمہ کثرت سے ہوا ہے لیکن ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے آج سے دس سال پہلے اردو دان طبقے کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ نیرودا کے Sonnets کا اُردو ترجمہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔ ’’One hundred Love Sonnets ‘‘ 1959 ء میں ماتلدے کے نام سے معنون ہو کر منظر عام پر آیا۔ شاعرکی زندگی میں ماتلدے کی آمد نے اُس کی عشقیہ شاعری میںسرشاری اور لطف و کیف کی ایک نئی لہر پیدا کردی تھی۔بلا شُبہ یہ سانیٹ شاعر کے عشق کا بہترین اظہار تھے ۔ اس رومانوی مجموعے کے اردو ترجمے کے بارے میں ابھی تک میرے پاس کوئی مزید معلومات نہیںہیں ۔ شاعرانہ کمال پر قدرت اور دسترس سے محرومی کے باجود سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے نوخیز شعراء ان کا مطالعہ کرلیں تو نئے شائع ہونے والے مجموعہ ہائے کلام میں خیال و بیان کی یکسانیت اور تکرارکے مسائل کم ہو جائیں گے ۔
پیار کی ان ایک سو نظموں میں سے بہت کم کو میں پڑھ اور سمجھ پایا ہوں۔اس مجموعے کا جواز بننے والی کہانی کی دلکشی بھی پُر فسوں جاودانی کی حامل ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی تحریر سے نقل کر رہا ہوں ۔ صرف اور صرف عام قارئین کے لیے ۔ مجھے یقین ہے کہ علمی اور ادبی حلقے اور پڑھے لکھے معروف شعرائے کرام فن کی غواصی کے ماہرہونے اور اپنے وسیع مطالعہ کے سبب اس شعرہ آفاق شاعر کے فنی کمالات سے واقف ہیں ۔
’’ میکسیکو میں ورود سے پہلے نیرودا(Pablo Neruda ) چلی میں کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیا جاتا تھا ۔اس کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ مزدور انجمنوں میں جائے اور ان کے مسائل پر کھل کر بات چیت کرے۔چلی میں وہ کان کُنی کے علاقوں میں بھی جاتا تھا۔جہاں مزدور تحریک کو حکومت نے کچل دیا تھا۔ایک ایسے ہی علاقے میں ایک بار جب وہ تقریر کرنے کے لیے گیاتو اسے اس کام سے روک دیا گیامگر نیرو دا بضد رہا کہ وہ کان کنوں سے ضرور خطاب کرے گا ۔نیرودا کو طاقت سے روکنے کے لیے اس کے سامنے ایک فوجی ٹینک کھڑا کردیا گیا۔جہاں وہ فوجی افسر کے نشانے پر ثابت قدمی سے کھڑا رہا ۔اُس نے ان حالات میں بھی مزدوروں سے خطاب کیا ۔ا س دور میں چلی کا صدر Videlex تھا ۔فوج کی طرف سے اس پر شدیددباؤ ڈالا گیا کہ نیرودا کو گرفتار کیا جائے ۔اس نے گرفتاری کے احکامات جاری کردیئے ۔ گرفتاری کا مطلب تھا قید خانہ کی بدترین زندگی یا موت ۔۔ اس خطرناک صورتحال کو دیکھ کر اُس کے ہمدرد دوست اُسے چھُپا کر ارجنٹینا لے گئے ۔ جہاں سے 1949 ء میں وہ پیرس جا پہنچا اور وہاں سے میکسیکو آیا اور یہاں وہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے لگا ۔
میکسیکو میں نیرودا رگوں کی سوزش کی تکلیف دہ بیماری Phlebitis کے سبب اذیت کا شکار تھا ۔مگر وہاں پراس کے دوستوں، مداحوں اور خیرخواہوں کی ایک بڑی تعداد اس کی صحت یابی کے لیے دعاگو بھی تھی ۔یہاں کے ادیب و شاعر اور فنکار اس سے بھر پور محبت کا اظہار کر رہے تھے۔ بیماری کے دوران میں نیرودا کا اپارٹمنٹ مداحوں سے بھرا رہتا تھا جو اس کی خیریت دریافت کرنے آتے رہتے تھے۔
ان ایام میں اس کی تیمار داری میں ایک خاتون پیش پیش نظر آتی تھی۔یہ خاتوں اُس کے کمرے کی دیکھ بھال کرتی تھی ۔کمرے میں پھول سجاتی تھی اور نیرودا کو سہارا دے کر بستر میں بٹھاتی اور دوائی کھلاتی تھی۔ نیرودا کو یہ بھی یاد نہ تھاکہ وہ اس خاتون سے اس سے پہلے بھی کبھی مل چُکا ہے یا نہیں۔ نیرودا کے دریافت کرنے پر خاتون نے بتایا تھا کہ ہم تین سال پہلے ایک محفل موسیقی میں پہلی بار ملے تھے۔ یہ1946 ء کا زمانہ تھا ۔ نیرودا کے ذہن میں اس ملاقات کا کوئی بھی نشان باقی نہ بچا تھا۔خاتون کا تعلق شعبہ موسیقی سے تھا۔وہ لاطینی امریکا کے کئی ملکوں کے دورے کے بعد اب میکسیکو میں مقیم تھی۔ وہ موسیقی کا ایک ا سکول چلا رہی تھی۔اور ساتھ ہی ساتھ نیرودا کی نرس بھی بن چُکی تھی ۔یہ خاتون ماتلدے اُرویتا(Matilde Urrutia) تھیں جو نیرودا کی دلنواز محبوبہ بننے والی تھیں ۔
نیرودا کی جلا وطنی کا زمانہ ماتلدے کے ساتھ گذرا ۔ وہ ہندوستان، چین اور اٹلی کی مسافت میں بھی اُس کے ہمرکاب رہی ۔اٹلی میں ان کا قیام کیپری (Capri ) جزیرے کے خوبصورت ماحول میں رہا ۔جہاں انہوں نے پُر نشاط دن گزارے۔ کیپری کے قیام کی یادگار نظموں کا The Captain’sVerses 1952 ء میں نیپلز سے شائع ہوا تھا۔اس مجموعے کے پہلے ایڈیشن پر نیرودا کا نام بہ حیثیت شاعر درج نہیں تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت تک اُس کی دوسری بیوی Delia del carril سے اُس کا تعلق برقرار تھا اور وہ اُسے آزردہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ ‘‘
اور اسی طرح نئے شعراء کی شاعری پر میں کسی قسم کا غیر شاعرانہ تبصرہ کرکے کسی کو آزردہ اور خود کو ’’ادبی ٹینکوں ‘‘ کے نشانے پر کھڑا نہیں کرنا چاہتا۔