وجود

... loading ...

وجود

حریت لیڈروں کے خدشات پر مودی کی مہر

اتوار 04 فروری 2018 حریت لیڈروں کے خدشات پر مودی کی مہر

(دوسری قسط)

 بھارت کی مرکزی سرکار نے کشمیر میں برپا ’’انقلاب برائے حصولِ آزادی‘‘کی رواں تحریک کی شدت اور تسلسل کے پس منظر میں دنیشورشرما کو یہاں کے عام و خاص کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے بھیجاہے ۔اس کی آمد سے پہلے ہی حریت کانفرنسوںنے اس کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت کے ساتھ یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ ضیاع وقت ہے اور کچھ بھی نہیں۔ حریت کے دونوں دھڑوں کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات کرنے نہیں آتے ہیں بلکہ کشمیر کے حالات سے واقفیت اور کشمیر کی موجودہ صورتحال کے مطالعہ کے بعد رپورٹ پیش کرنے آتے ہیں ۔ اسے بھارت کی ہٹ دھرمی کہئے یا کشمیریوں کی بدقسمتی کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بہت ہی غیر سنجیدہ ثابت ہوا ہے گذشتہ ستر برس کی تاریخ گواہ ہے کشمیر کے حوالے سے بھارت کی تمامتر سرکاروں کا رول ’’سامراجی ذہنیت‘‘کی عکاسی کرتا آیا ہے ۔موجودہ صورتحال جو کشمیریوں کے لیے کافی پریشان کن ہے میں بھی مرکزی سرکار کشمیریوں کو تھکانے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے دہلی سمجھتی ہے کہ ’’کشمیر میں طوفان آتے ہیں اور خود ہی تھم جاتے ہیں‘‘ اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں دہلی کو حوصلہ ملنا قابل فہم حقیقت ہے ۔دہلی کو کشمیر کی لیڈر شپ نے ہی ایسے مواقع فراہم کیے جن سے اسے اس بات یقین ہوگیا کہ اس قوم میں ’’یقیں محکم عمل پیہم‘‘کا فقدان ہے ،یہ آج گرم ہے کل آپ سے آپ سرد ہو کر اپنے کیے پر شرمندہ ہوگی لہذا ان کے وقتی اُچھال سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ،اسی سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت دوسری سامراجی قوتوں کے مقابلے میں مسئلے کو حل کرنے کے برعکس ’’وقت خریدنے‘‘میں مصروف ہے ۔

یک نفری مذاکرات کارسے قبل بھی بھارت نے کشمیریوں کی لیڈرشپ کے ساتھ مذاکرات کے لیے کئی وفود بھیجے وہ آئے اور چلے گئے مگر مسئلہ کشمیر اپنی جگہ برقرار رہا ۔نہ ہی مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی بھارت نے اسے مسئلہ مانا ،بھارت آج بھی ایک لاکھ جنازے اُٹھنے کے باوجود کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ۔ضد اور ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ بھارت کشمیر کے الحاق کے برعکس انضمام پر مصر ہے حالانکہ دنیا جانتی ہے اولاََ الحاق ہی نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو ایک ایسے شخص کے ذریعے جس کو کشمیریوں کا منڈیٹ کبھی بھی حاصل نہیں تھا وہ ایک تاجر تھا جس نے انگریزوں کے ساتھ ملکر ایک ظالمانہ سودا کے نتیجے میں کشمیری قوم کو سکھوں سے چند نانک شاہی سکوں کے عوض خریدا تھا ۔کشمیر کاہندوستان کے ساتھ سن سنتالیس سے قبل کوئی تعلق ہی نہیںتھا ۔ کشمیر میں چل رہی ڈوگراہ شاہی کے خلاف تحریک ابھی اپنے حتمی انجام کو نہیں پہنچی تھی کہ سن سنتالیس میں بھارت کی آزادی کا اعلان ہوا، ہانپتے کانپتے مہاراجہ ہر ی سنگھ نے بھارت کے لیڈروں سے ایک سازش کے تحت کشمیر پر قبضے کی دعوت دی یہ مہاراجہ کا جاتے جاتے ایک اور زخم تھا جو اس نے کشمیریوں کو آزادی فراہم کرنے کے برعکس دیدیا اور آج اس زخم کا اثر یہ ہے کہ کشمیر گذشتہ ساٹھ سال سے جل رہاہے ،عسکریت کے اٹھائیس برسوں میں کسی کوسانس لینے کا موقعہ نہیں ملا اور 2018ء سے لے کر اب تک کشمیر کے حالات ’’فلسطین‘‘سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہیں ۔

دہلی والے کشمیر میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے برعکس ’’قیام امن‘‘کے ایجنڈے پر بات کرنا چاہتے ہیں یہ خود ہی ایک کنفیوژن ہے کہ کشمیر میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنی ہے کہ قیام امن پر ۔۔۔پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں طرف ’’قیام امن ‘‘کے الفاظ کے مفاہیم اور تعین میں اختلاف ہے دہلی with in the bordersامن چاہتی ہے جبکہ کشمیر کا مسئلہ حل کرتے وقت سرحدوں کو پھلانگے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے ۔یہاں بد امنی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جب کہ دہلی اس سے نظر انداز کرنے کی پالیسی پر قائم ہے ۔سید علی گیلانی کی اس دلیل میں کافی وزن ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کس بات پر کرنے ہیں؟ وہ کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف میں لچک ہی نہیں لا رہا ہے اور وہ اپنے پرانے اٹوٹ انگ والے اسٹینڈ پر اب تک قائم ہے لہذا مذاکرات سے پہلے بھارت اپنے اسٹینڈ میں تبدیلی لائے تب جا کر مذاکرات کے ذریعے طرفین میں بات بنے گی ۔سید گیلانی کی یہ اسٹینڈ کافی وزن دار معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اب تک جو ڈیڑھ سو کے قریب مذاکراتی دور ہوئے ہیں ان میں ناکامی کی بنیادی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ کشمیر کو بھارت نے اکھنڈ بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھا ہے متنازعہ علاقہ نہیں ۔

بھارت ابتدأ سے ہی مسئلہ کشمیر کے حل سے پنڈ چھڑانے کے لیے غیر حقیقت پسندانہ رویہ اپناتے ہوئے فرار کی راہیں تلاش کرتا ہے اور آج کی تازہ کوشش بھی اسی مہم کا ایک حصۂ معلوم ہوتا ہے ۔دہلی جان بوجھ کر ان افراد کو جنہیں ’’کچھ لینے یا دینے کا منڈیٹ‘‘ ہی حاصل نہیں ہوتا ہے مقرر کر کے دنیا کو بظاہر یہ تاثر دینے کی کامیاب کوشش کرتی ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کافی سنجیدہ ہیں البتہ وہاں کی آزادی پسند لیڈر شپ کافی شدت پسند ہیں کہ وہ میز پر ہی نہیں آتی ہے ۔ہم اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں برتتے ہیں ،ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ حریت قیادت پاکستان کے اشاروں پر ناچتی ہے انھیں پاکستان سے ابھی اجازت حاصل نہیں ہوئی ہوگی انھیں جوں ہی وہاں سے اجازت ملے گی وہ دہلی کے ساتھ بات چیت ضرور کرے گی ۔بھارت نے بظاہراسی مقصد کے لیے مذاکرات کار کا انتخاب کیا تاکہ بین الاقوامی برادری کے شکوے کا جواب بھی موجود ہو اور مخالفین کا منہ بھی بند کرنے کی سبیل بھی نکل آئے۔

بھارت اگر مخلص ہے جیسا کہ کشمیر کی زمینی صورتحال اب تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکر اخلاص کے ساتھ سامنے آکر مسئلہ کشمیر کا ایک پائیداراور حتمی حل تلاش کریںتاکہ کشمیر میں خونین صورتحال پر روک لگ جائے اس کے لیے لازم یہ ہے کہ بھارت اس کے لیے اپنے موقف میں تبدیلی لائیں’’ sky is the limit ،unique issue. ،کشمیریت جمہوریت انسانیت اور گلے لگانے‘‘ کے خوبصورت الفاظ کے سہارے صورتحال کو اور زیادہ مخدوش نہ بنائیں اس لیے کہ گذشتہ سات دہائیوں سے جاری کشت و خون اب کشمیر کی نئی نسل کے لیے ناقابل قبول ہے وہ مسئلہ کشمیر کے نام پر اپنے عزیزو اقارب اور معصوم طالب علموں کا خون بہتا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں ۔وہ اپنے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنا گوارہ نہیں کر سکتے ہیں ۔مرکز کو فرار کی راہیں تلاشنے اور وقت خریدنے کی پالیسی تبدیل کر کے جرأت کا مظاہراہ کرتے ہوئے سامنے آنا چاہئے ۔۔۔یہ ایک قوم کے مستقبل اور آزادی کا مسئلہ ہے ۔تاریخ انسانیت کسی بھی ایسی قوم کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہی ہے جس نے اپنی آزادی پر کمپرومائز کیا ہو ۔
(ختم شد(


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر