... loading ...
ء 1990 سے لے کر آج تک کشمیری صحافیوں اور قلمکاروں نے بہت سارے ایشوز کو لے کر نہ صرف اپنے تحفظات پیش کیے ہیںبلکہ سخت تنقید کا بھی نشانہ بنایا، جن میں میںبھی شامل ہی نہیں ہوں بلکہ سرفہرست ہوں اس لیے کہ ہمیں شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہے کہ ہماری تحریک کے ساتھ انسانی جانوں اور بہنوں کی عصمتوں کی ایسی قربانی جڑی ہے جس کے ڈوبنے کے تصور سے ہی لرزہ طاری ہوتا ہے ۔لیڈرشپ کو دو دہاری تلواروں کے بیچ انتہائی سوچ سمجھ کر پالیسی کا تعین کرنا پڑتا ہے ۔ان کے کسی بھی قدم سے نا ان کے بکنے کا پیغام جانا چاہیے نا ہی قوم کو خود کشی یا شکست کی طرف لے جانے کا احساس ابھرنا چاہیے، البتہ لیڈرشپ پر فیصلے لینے میں دباؤ نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ بہت ساری چیزیں عوام تو عوام خواص کو بھی معلوم نہیں ہوتی ہیں ۔ہر ایسا موقع لیڈرشپ کے لیے مکمل طور پر کھرا ثابت کرنے کا موقع میسر کرتا ہے ۔ فیصلے لینے میں غلطی کا بھی امکان ہوتا ہے اور کبھی کبھار لیڈرشپ کے پاس وقت کی تنگی بھی حائل رہتی ہے یہ غلطی چھوٹے اشوزپرفیصلہ لیتے وقت ناقابل گرفت ہوسکتی ہے مگر بڑے فیصلے جن کے اثرات قوموں کی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں میں قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے جس کے لیے شوریٰ کو وسعت دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قوم کے کسی بھی طبقے کی رائے جاننے کے امکانات معدوم نا ہو جائیں ۔چند ماہ قبل دلی سرکار نے ’’سابق آئی ،بی ڈائریکٹر دنیشور شرما ‘‘کو کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے نامزد کیا ہے جس سے مشترکہ مزاحمتی قیادت بشمول دیگر حریت لیڈران نے یہ کہتے ہو ئے ملنے سے انکار کردیا کہ یہ ضیاع وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش اور سازش ہے ۔یہاں تک کہ اب نریندر مودی نے مدت بعد مذاکرات کار کی تقرری پر منہ کھولتے ہو ئے کہا کہ ’’ کشمیرکے لیے مذاکرات کارکی تقرری معمول کاعمل ہے اورآئین ہند پریقین رکھنے والوں کے لیے مرکزی سرکارکے دروازے کھلے ہیں‘‘۔مودی نے کہاکہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ہم نے کشمیر کے لیے کسی کوبطورمذاکرات کارنامزد کیاہے کیونکہ ایسااسے پہلے بھی ہوتاآیاہے ۔وزیراعظم نے کشمیری مزاحمتی لیڈرشپ یاآئین ہندکی حدودمیں مذاکرات سے انکاری افراداورکسی گروپ کانام لیے بغیرکہاکہ ہمارے دروازے ایسے لوگوں کے لیے کھلے ہیں جوملک کے آئین پریقین رکھتے ہوں ،اوربقول نریندرمودی اْن لوگوں کیساتھ مرکزبات چیت کے لیے ہمیشہ تیارہے جواس ملک کے لیے جیتے اورمرتے ہیں۔اس طرح نریندر مودی نے حریت کے تمام تر خدشات پر خود ہی مہر لگا دی کہ دنیشور شرما سے ملنا ہی فضول ہے جو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کرنے نہیں بلکہ آئین ہند ماننے والوں سے ’’بات چیت ‘‘کرنے آیا ہے ۔
مزاحمتی قیادت یا حریت لیڈران کو پہلے سے اس بات کا اندازہ تھا کہ دنیشور شرما کا تقرر بالکل ویسا ہی تقرر ہے جیسے اسے قبل کئی افراد کا تقرر ہوا ہے جن سے ملنے یا نا ملنے سے کچھ بھی نہیں بدلا ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ خود حریت قیادت تقسیم ہوگئی جب حریت عین بشمول یسٰین ملک مرکزی سرکار کے مذاکرات کاروں سے کئی مواقع پر ملے ۔ان کے حصے میں بدنامی اورمشکوکیت کے سوا کچھ بھی نہیں آیا ۔اس دفعہ مرکز نے برہان وانی کی شہادت سے پہلے ہی ’’پنڈت کالونی اور فوجی کالونی ‘‘کا راگ الاپ کر تین لیڈران کو ایک حاشیہ پر کھڑے ہونے پر مجبور کردیا تھا کہ اسی بیچ 2016ء کی عوامی تحریک نقطہ عروج کو چھوگئی ۔نئی دہلی کے تیس سالہ کردار کو سامنے رکھتے ہو ئے حریت نے جب دنیشورشرما سے نہ ملنے کا فیصلہ کیا تو کشمیر کے دانشور طبقے کوبالکل بھی حیرت نہیں ہوئی اس لیے کہ اب کی بار سید علی گیلانی ،میرواعظ عمر فاروق اور یسٰین ملک الگ الگ نہیں بلکہ ’’مزاحمتی لیڈرشپ کے ایک علامتی بینر‘‘کے نیچے متحد ہیں لہذا مرکز کو چھید لگانے کے ماضی کے تمام امکانات نا ہونے کے برابر ہیں ۔مرکز ی سرکار آج بھی پچاس ساٹھ سال پرانے وہی نسخے کشمیریوں کو زیر کرنے کے لیے استعمال میں لاتی ہے جب کشمیر میں نا ہی کوئی لاپتہ تھا نا ہی ایک لاکھ انسانی جانوں کا نقصان ہوا تھا ،جب کشمیر میں نا حزب المجاہدین تھی نا ہی لشکر طیبہ تب شیخ عبداللہ کی شکل میں ایک ہی لیڈر تھا اور اب کشمیر میں بہت کچھ بدلاہے بلکہ مناسب ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اب سارا کشمیر بدل چکا ہے ۔اب فیصلے لیتے وقت سو بار ہر فرد سوچتا ہے کہ کہیں میں قوم کی نگاہوں میں گر نا جاؤں اور میرا بھی شیخ عبداللہ کے ساتھ شمار نہ ہونے لگے ۔نہیں تو مرکزی حکومت باربارفرسودہ ذہنیت لے کرپرانے مستردشدہ نسخے کیوں آزما رہی ہے ؟
نئی دہلی نے مسئلہ کا کوئی قابل عمل راہ تلاش کرنے کے لیے جب اہم پیش رفت کے طور پر آئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو مذاکرات مقرر کیا تو اس پہل سے سیاسی وعوامی حلقوں میں کوئی زیادہ جوش دکھائی نہیں دیاکیوں؟خود ہند نواز پارٹیوں نیشنل کانفرنس، کانگریس ،جموں وکشمیر نیشنل پینتھرس پارٹی اوربہت سارے سیاسی مبصرین نے ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو بھی وقت گذاری کی فضول مشق سے تعبیر کیاکیونکہ آج تک مرکز نے کشمیر کے حوالہ سے جوبھی مذاکرات کار یا گروپ تشکیل دیئے ان کی طرف سے پیش کردہ رپورٹوں اورسفارشات پر غور کرنا تو دور کی بات، انہیںقابل مطالعہ بھی نہیںسمجھاگیا۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر غلام نبی آزاد نے جموں و کشمیر میں تمام فریقوں سے بات چیت کی حکومت کی تازہ پہل کو مشکوک قراردیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت کی نیت پر شبہ ہورہا ہے اور انہیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس کا مقصد محض تشہیرکرنا ہے۔ آزاد کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے ساڑھے تین سال بے کار کر دیئے اور اب مدت کے اختتام پر بات چیت کی پہل کی ہے اس طرح کے خدشات کا اظہار دیگرلیڈران نے بھی کیا۔
کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہونے کے بعد مارچ 1990ء کواس وقت راجیو گاندھی کی قیادت میں کل جماعتی وفد نے کشمیر کا دورہ کیاتھا۔ اس دورہ کے بعد نئی دہلی نے عسکری تنظیموںاور آزادی پسند قیادت سے بات چیت کی کوششیں کیں جس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ سال 2001ء اپریل میں سابق مرکزی وزیردفاع کو سرکاری مذاکرات کار مقرر کیاگیامگر حریت کانفرنس نے اسے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ اس نے شبیر احمدشاہ سے ملاقات کی جواس وقت حریت کا حصہ نہیں تھے۔ یہ پہل سال 2002ء میں بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پذیر ہوئی۔ اسی سال ہندوستان کے نامور وکیل رام جیٹھ میلانی کی قیادت میں آٹھ نفری کشمیر کمیٹی بنائی گئی جنہوں نے آزادی پسندوںکے علاوہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔ اس کمیٹی میں عدالت عظمیٰ کے وکیل اشوک بہن، سابقہ وزیر قانون شانتی بھوشن، صحافی دلیپ پڈگاؤنکر، ایم جے اکبر اور سبکدوش آئی ایف ایس آفیسر وی کے گورور اور نامور جج فالی نریمان شامل تھے۔ پھر فروری2003ء کو سابقہ داخلہ سیکریٹری این این ووہراجوآج بھی جموں وکشمیر کے گورنرہیںکومذاکرات کار بنایاگیا لیکن حریت لیڈران نے بات چیت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ وہ وزیر اعظم کے بغیر کسی سے بھی بات نہیں کریں گے۔ پھر نئی دہلی نے سینئر بھاجپا لیڈر ارون جیٹلی جوآج کل مرکزی سرکار میں وزیر خزانہ ہے ، کو اور RAWکے سابقہ چیف اے ایس دُلت کو بھی استعمال کیا۔ 2002ء میں یو،پی، اے قیادت والی کانگریس مخلوط حکومت نے گول میز کانفرنس کا اعلان کیا جس میں حریت لیڈران نے شرکت کرنے سے انکاکردیا۔اسے پہلے بھی حکومت نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں اس وقت پانچ ورکنگ گروپ نامزد کیے جس میں سابقہ نائب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر حامد انصار ی کی قیادت والا گروپ بھی شامل تھا۔یو پی اے حکومت نے دلیپ پڈگاؤنکر کی قیادت میں مذاکرات کار نامزد کیے اسی طرح سال 2010ء میں ایجی ٹیشن کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں120شہری جاں بحق ہونے کے بعد پیدا شدہ صورتحال سے نپٹنے کے لیے حکومت ہند نے تین رکنی مذاکرات کاروں کی تقرری عمل میں لائی جن میں دلیپ پڈگاؤنکر، ایم ایم انصاری اور پروفیسر رادھا کمار ی شامل تھی ۔ان بہت سارے گروپوں اور مذاکرات کاروں کی سفارشات کو دیکھنے کی بھی دلی والوں نے زحمت گوارا نہیں کی حتیٰ کہ تازہ ترین پیش رفت میں جب 2016ء کی عوامی ردعمل اور بیزاری میں پھر سے ایک سو سے بھی زیادہ نوجوان شہید ہو گئے تو حیرت انگیز طور پر کسی بااختیار نامور اور غیر جانبدار گروپ کے بجائے یک نفری مذاکرات کار کو کشمیر مذاکرات کاربناکر بھیجا جس سے خود ہندنواز لیڈروں نے بھی ملنے میں رتی بھر دلچسپی نہیں دکھائی ۔
(جاری ہے )