... loading ...
گزشتہ دنوں پولیس مقابلوں کے ماہر سابق ایس ایس پی راو انوار سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی کہ اس نے ایک ایسے شخص کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جس کا تعلق پاکستان کے محسن قبیلے محسود سے تھا نقیب اللہ محسود کے والد کی ولادت بھی شاید قیام پاکستان کے بعد کی ہو لیکن یہ یقین ہے کہ اس کے دادا ضرور اس لشکر کا حصہ رہے ہوں گے جس نے پاکستان کی شہ رگ (کشمیر) کے ایک بڑے حصے کو 1947میں پاکستان آرمی کے اس وقت کے چیف جنرل گریسی کے واضح انکار کے بعد بھارتی درندوں کا کشمیر میں مقابلہ کیا تھا اور آزاد کشمیر انہی قبائلیوں کی قربانیوں کا ثمر ہے ۔ نقیب اللہ محسود ، راو انوار کا پہلا شکار نہیں تھا راو انوار کو انسانی خون منہ لگے تقریبا22سال کا عرصہ گزر چکا اور شکاریات میں کہتے ہیں کہ جس درندے کو انسانی خون منہ لگ جائے پھر وہ دوسرا شکار نہیں کرتا ۔
راو انوار نے ریکارڈ میں موجود پولیس مقابلے میں پہلا مقابلہ 20ستمبر 1996کو کیا تھا جب ڈاکٹر شعیب سڈل DIGکراچی ہوتے تھے اور راو انوار اے ایس آئی، یہ مقابلہ کراچی کے معروف علاقہ کلفٹن میں رونماء ہوا تھا جہاں ملک کی موجود وزیر اعظم کا بھائی اور رکن سندھ اسمبلی میر مرتضیٰ بھٹو اپنے 8ساتھیوں سمیت اس قاتل ٹولے کا نشانہ بنا تھا ۔22سال گزر چکے لیکن میر مرتضیٰ کے قاتل آج تک بے نقاب نہ ہوسکے اس مقابلہ کا دوسرا کردار چودھری اسلم تھا جو اپنے انجام کو پہنچ چکا اب راو انوار کا انجام کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔
پولیس مقابلوں کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن حالیہ دور میں ان میں کافی شدت آئی ہے اور کراچی خصوصی ہدف رہا ہے ۔ کیا وجوہات ہیں کہ کراچی پر خصوصی نظرکرم ہے اور اس میں بھی کراچی کے مضافاتی علاقوں کے باشندے ہی نشانہ بنتے ہیں اس موضوع پر ہم بعد میں بات کریںگے پہلے ذرا ماضی کا جائزہ لے لیں ۔1992میں سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن شروع ہوا تھا لیکن اس آپریشن کی ضربیں جہاں پڑ رہی تھیں ان کے مفاد میں نہیں تھا غیر جانبدارانہ اور پورے سندھ میں آپریشن جاری رہے یوں چند عناصر نے ٹنڈو بہاول میں ہلاک ہونے والے افراد کو بے گناہ اور معصوم دیہاتی قرار یتے ہوئے خبر بریک کرنے کا اعزاز ایک سینئر صحافی نے حاصل کیا لیکن اس پورے واقعے کی حقیقت کیا تھی اس کو 26سال بعد بیان کیا جائے تو انصاف کے خلاف نہ ہوگا 1992کے اس واقعے سے قبل بھی 1987میں ٹنڈو بہاول ہی کے 23افراد درندگی کا شکار ہوئے تھے لیکن اس وقت کسی کو معصوم دیہاتی نظر نہیں آئے تھے کہ اس وقت ان معصوم دیہاتیوں کی جانیں کسی سیاسی ایجنڈا میں استعمال نہیں ہوسکتی تھیں لیکن 1992میں سیاسی منظر نامہ بدل چکا تھا سندھ میں ڈاکو راج تھا تو کراچی ایک مخصوص گروہ کی گرفت میں تھا،سندھ کے ڈاکوئوں اور کراچی کے اس مخصوص گروہ کے مابین روابط کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںاور خبر بریک کرنے والے سینئر صحافی کا تعلق بھی اس مخصوص گروہ سے موجود ہے۔
کراچی سمیت پورے سندھ میں رینجرزاس آپریشن میں فعال کردار ادا کر رہی تھی اور رینجرز میں فوجی کے آفیسرہی کمانڈنگ آفیسرہوتے ہیںٹنڈو بہاول میں ہونے آپریشن کی کمانڈ بھی ایک فوجی آفیسر میجر ارشد جمیل کر رہے تھے اگر سندھ میں ڈاکووں کے معاملات دیکھے جائیں تو ان کی اکثریت کا تعلق بھارت نواز علیحدگی پسند تنظیموں سے ثابت ہوتا ہے اور انہیں عناصر نے ستمبر 1996میں ٹنڈو بہاول کی زینب کو خودکشی پر آمادہ کیا،مسماۃزینب نے جس مقام پر خود کو آگ لگائی وہ میڈیا کے نمائندوں او ر فوٹو گرافروں کی عمومی دسترس سے دور ہے لیکن جس وقت مسماۃ زینب نے خود کو آگ لگائی اس وقت مخصوص اخباری نمائندے اور فوٹوگرافر وہاں موجود تھے جنہوں نے اس تکلیف دہ واقعے کی فوٹو گرافی تو کی لیکن جس وقت انہیں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ حیدرآباد کے علاقے میں یہ خواتین خود کو آگ لگا ئیں گی انہیں نہ تو انسانی حقوق یاد آئے تھے نہ ہی انسانی جان کی اہمیت ان پر واضح تھی نہ قانون کی پاسداری ان پر واجب تھی ۔
راقم نے 3دسمبر 2016کو روز نامہ جرات میں شائع شدہ اپنے کالم “قاتل قانون “کے تحت حیدرآباد میں ایس ایس پی عرفان بلوچ کی ہدایت پر ہونے والے واقعات کے حوالے سے لکھا تھا کہ کیا انسان مرغی کا انڈا ہیںجنہیں ہاف اور فل فرائی کیا جاسکے ،ان دنوں حیدرآباد میں نام نہاد پولیس مقابلوں میں زخمی ہونے والوں کو ہاف فرائی اور جان کی بازی ہار جانے والوں کو فل فرائی کہا جاتا تھا میں یہ نہیں کہتا کہ اس طرح زخمی اور ہلاک ہونے والے بے گنا ہ تھے لیکن عدالتی نظام کی موجودگی میں کس قانون کے تحت پولیس اہلکاروں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اسطرح قانون ہاتھ میں لیں اور ججوں کے کام خود کرنے لگیں ۔ قتل قانون میں سب سے بڑا جرم ہے جس کی سزا عموما موت کی صورت میں سنائی جاتی ہے لیکن قتل کے ملزم کو بھی اپنی صفائی اور بے گناہی ثابت کرنے کے ایک نہیں کئی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، قتل کے ملزم کو عموما سیشن کورٹ یا انسداد دہشت گردی کی کورٹ سے سزا سنائی جاتی ہے اور اسے اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ تک اپیل داخل کر سکے اور کسی بھی سطح پر اپنی بے گناہی ثابت کر کے رہائی حاصل کر سکے لیکن فل اور ہاف فرائی والے معاملے میں پولیس نے ہی سیشن جج سے چیف جسٹس آف پاکستان تک کے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے تھے اور کسی ذمے دارکو توفیق نہیں تھی کہ وہ پولیس کی اس لاقانونیت کا نوٹس لے اوراس قانون شکنی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کر ے اور اعلانیہ قانون شکنی پر سب نے منہ پر ٹیپ لگا رکھی تھی۔
نقیب اللہ محسود کا قتل پولیس کی اس لاقانونیت کا ایک بڑا ثبوت ہے اور اب بھی وقت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے والی عدلیہ اپنا کردار ادا کرے تحقیقات کا دائرہ صرف نقیب اللہ محسود کے قتل تک نہ رکھے بلکہ حیدرآباد میں ہاف اور فل فرائی ہونے والوں کے معاملات کا جائزہ بھی لے اور حیدرآباد پولیس کے ان ماہر نشانہ بازوں کا ٹیسٹ لیا جائے کہ ان کا شکار ہونے والے افراد کو لگنے والی گولیاں کس طرح سے لگیںکہ ہاف فرائی ہونے والوں کا ایک مخصوص گھٹنہ ہی نشانہ بنا اور فل فرائی ہونے والے مقابلہ آبادی کے درمیان موجو د قبرستانوں میں ظاہر کیے گئے لیکن گرد نواح کی آبادی ان مقابلوں سے لاعلم رہی کسی نے گولی چلنے کی آواز نہیں سنی۔ صرف راو انوار کو پکڑ لینا مسئلے کا حل نہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ ہر پولیس مقابلے کی غیر جانب دارانہ شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور اب تک ان مقابلوں سے صرف نظر کرنے والے اعلیٰ حکام کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے کوئی ایس ایس پی کسی نہ کسی سرپرستی کے بغیر ایسے غیر قانونی کام نہیں کر سکتا اصل امر چور کو نہیں چور کی ماں کو مارنے کا ہے ورنہ را و انوار پیدا ہوتے رہیں گے نقیب اللہ محسود یوں ہی بے گناہ قتل ہوتے رہیں گے۔