وجود

... loading ...

وجود

قصور وار کون

جمعه 02 فروری 2018 قصور وار کون

گزشتہ دنوں پولیس مقابلوں کے ماہر سابق ایس ایس پی راو انوار سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی کہ اس نے ایک ایسے شخص کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جس کا تعلق پاکستان کے محسن قبیلے محسود سے تھا نقیب اللہ محسود کے والد کی ولادت بھی شاید قیام پاکستان کے بعد کی ہو لیکن یہ یقین ہے کہ اس کے دادا ضرور اس لشکر کا حصہ رہے ہوں گے جس نے پاکستان کی شہ رگ (کشمیر) کے ایک بڑے حصے کو 1947میں پاکستان آرمی کے اس وقت کے چیف جنرل گریسی کے واضح انکار کے بعد بھارتی درندوں کا کشمیر میں مقابلہ کیا تھا اور آزاد کشمیر انہی قبائلیوں کی قربانیوں کا ثمر ہے ۔ نقیب اللہ محسود ، راو انوار کا پہلا شکار نہیں تھا راو انوار کو انسانی خون منہ لگے تقریبا22سال کا عرصہ گزر چکا اور شکاریات میں کہتے ہیں کہ جس درندے کو انسانی خون منہ لگ جائے پھر وہ دوسرا شکار نہیں کرتا ۔

راو انوار نے ریکارڈ میں موجود پولیس مقابلے میں پہلا مقابلہ 20ستمبر 1996کو کیا تھا جب ڈاکٹر شعیب سڈل DIGکراچی ہوتے تھے اور راو انوار اے ایس آئی، یہ مقابلہ کراچی کے معروف علاقہ کلفٹن میں رونماء ہوا تھا جہاں ملک کی موجود وزیر اعظم کا بھائی اور رکن سندھ اسمبلی میر مرتضیٰ بھٹو اپنے 8ساتھیوں سمیت اس قاتل ٹولے کا نشانہ بنا تھا ۔22سال گزر چکے لیکن میر مرتضیٰ کے قاتل آج تک بے نقاب نہ ہوسکے اس مقابلہ کا دوسرا کردار چودھری اسلم تھا جو اپنے انجام کو پہنچ چکا اب راو انوار کا انجام کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔

پولیس مقابلوں کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن حالیہ دور میں ان میں کافی شدت آئی ہے اور کراچی خصوصی ہدف رہا ہے ۔ کیا وجوہات ہیں کہ کراچی پر خصوصی نظرکرم ہے اور اس میں بھی کراچی کے مضافاتی علاقوں کے باشندے ہی نشانہ بنتے ہیں اس موضوع پر ہم بعد میں بات کریںگے پہلے ذرا ماضی کا جائزہ لے لیں ۔1992میں سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن شروع ہوا تھا لیکن اس آپریشن کی ضربیں جہاں پڑ رہی تھیں ان کے مفاد میں نہیں تھا غیر جانبدارانہ اور پورے سندھ میں آپریشن جاری رہے یوں چند عناصر نے ٹنڈو بہاول میں ہلاک ہونے والے افراد کو بے گناہ اور معصوم دیہاتی قرار یتے ہوئے خبر بریک کرنے کا اعزاز ایک سینئر صحافی نے حاصل کیا لیکن اس پورے واقعے کی حقیقت کیا تھی اس کو 26سال بعد بیان کیا جائے تو انصاف کے خلاف نہ ہوگا 1992کے اس واقعے سے قبل بھی 1987میں ٹنڈو بہاول ہی کے 23افراد درندگی کا شکار ہوئے تھے لیکن اس وقت کسی کو معصوم دیہاتی نظر نہیں آئے تھے کہ اس وقت ان معصوم دیہاتیوں کی جانیں کسی سیاسی ایجنڈا میں استعمال نہیں ہوسکتی تھیں لیکن 1992میں سیاسی منظر نامہ بدل چکا تھا سندھ میں ڈاکو راج تھا تو کراچی ایک مخصوص گروہ کی گرفت میں تھا،سندھ کے ڈاکوئوں اور کراچی کے اس مخصوص گروہ کے مابین روابط کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںاور خبر بریک کرنے والے سینئر صحافی کا تعلق بھی اس مخصوص گروہ سے موجود ہے۔

کراچی سمیت پورے سندھ میں رینجرزاس آپریشن میں فعال کردار ادا کر رہی تھی اور رینجرز میں فوجی کے آفیسرہی کمانڈنگ آفیسرہوتے ہیںٹنڈو بہاول میں ہونے آپریشن کی کمانڈ بھی ایک فوجی آفیسر میجر ارشد جمیل کر رہے تھے اگر سندھ میں ڈاکووں کے معاملات دیکھے جائیں تو ان کی اکثریت کا تعلق بھارت نواز علیحدگی پسند تنظیموں سے ثابت ہوتا ہے اور انہیں عناصر نے ستمبر 1996میں ٹنڈو بہاول کی زینب کو خودکشی پر آمادہ کیا،مسماۃزینب نے جس مقام پر خود کو آگ لگائی وہ میڈیا کے نمائندوں او ر فوٹو گرافروں کی عمومی دسترس سے دور ہے لیکن جس وقت مسماۃ زینب نے خود کو آگ لگائی اس وقت مخصوص اخباری نمائندے اور فوٹوگرافر وہاں موجود تھے جنہوں نے اس تکلیف دہ واقعے کی فوٹو گرافی تو کی لیکن جس وقت انہیں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ حیدرآباد کے علاقے میں یہ خواتین خود کو آگ لگا ئیں گی انہیں نہ تو انسانی حقوق یاد آئے تھے نہ ہی انسانی جان کی اہمیت ان پر واضح تھی نہ قانون کی پاسداری ان پر واجب تھی ۔

راقم نے 3دسمبر 2016کو روز نامہ جرات میں شائع شدہ اپنے کالم “قاتل قانون “کے تحت حیدرآباد میں ایس ایس پی عرفان بلوچ کی ہدایت پر ہونے والے واقعات کے حوالے سے لکھا تھا کہ کیا انسان مرغی کا انڈا ہیںجنہیں ہاف اور فل فرائی کیا جاسکے ،ان دنوں حیدرآباد میں نام نہاد پولیس مقابلوں میں زخمی ہونے والوں کو ہاف فرائی اور جان کی بازی ہار جانے والوں کو فل فرائی کہا جاتا تھا میں یہ نہیں کہتا کہ اس طرح زخمی اور ہلاک ہونے والے بے گنا ہ تھے لیکن عدالتی نظام کی موجودگی میں کس قانون کے تحت پولیس اہلکاروں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اسطرح قانون ہاتھ میں لیں اور ججوں کے کام خود کرنے لگیں ۔ قتل قانون میں سب سے بڑا جرم ہے جس کی سزا عموما موت کی صورت میں سنائی جاتی ہے لیکن قتل کے ملزم کو بھی اپنی صفائی اور بے گناہی ثابت کرنے کے ایک نہیں کئی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، قتل کے ملزم کو عموما سیشن کورٹ یا انسداد دہشت گردی کی کورٹ سے سزا سنائی جاتی ہے اور اسے اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ تک اپیل داخل کر سکے اور کسی بھی سطح پر اپنی بے گناہی ثابت کر کے رہائی حاصل کر سکے لیکن فل اور ہاف فرائی والے معاملے میں پولیس نے ہی سیشن جج سے چیف جسٹس آف پاکستان تک کے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے تھے اور کسی ذمے دارکو توفیق نہیں تھی کہ وہ پولیس کی اس لاقانونیت کا نوٹس لے اوراس قانون شکنی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کر ے اور اعلانیہ قانون شکنی پر سب نے منہ پر ٹیپ لگا رکھی تھی۔

نقیب اللہ محسود کا قتل پولیس کی اس لاقانونیت کا ایک بڑا ثبوت ہے اور اب بھی وقت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے والی عدلیہ اپنا کردار ادا کرے تحقیقات کا دائرہ صرف نقیب اللہ محسود کے قتل تک نہ رکھے بلکہ حیدرآباد میں ہاف اور فل فرائی ہونے والوں کے معاملات کا جائزہ بھی لے اور حیدرآباد پولیس کے ان ماہر نشانہ بازوں کا ٹیسٹ لیا جائے کہ ان کا شکار ہونے والے افراد کو لگنے والی گولیاں کس طرح سے لگیںکہ ہاف فرائی ہونے والوں کا ایک مخصوص گھٹنہ ہی نشانہ بنا اور فل فرائی ہونے والے مقابلہ آبادی کے درمیان موجو د قبرستانوں میں ظاہر کیے گئے لیکن گرد نواح کی آبادی ان مقابلوں سے لاعلم رہی کسی نے گولی چلنے کی آواز نہیں سنی۔ صرف راو انوار کو پکڑ لینا مسئلے کا حل نہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ ہر پولیس مقابلے کی غیر جانب دارانہ شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور اب تک ان مقابلوں سے صرف نظر کرنے والے اعلیٰ حکام کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے کوئی ایس ایس پی کسی نہ کسی سرپرستی کے بغیر ایسے غیر قانونی کام نہیں کر سکتا اصل امر چور کو نہیں چور کی ماں کو مارنے کا ہے ورنہ را و انوار پیدا ہوتے رہیں گے نقیب اللہ محسود یوں ہی بے گناہ قتل ہوتے رہیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر