وجود

... loading ...

وجود

داعش کا حماس کے خلاف اعلانِ جنگ 

هفته 27 جنوری 2018 داعش کا حماس کے خلاف اعلانِ جنگ 

میرے کچھ دانشور دوستوں کا اصرار رہا ہے کہ عالم عرب میں برپا جنگوں کا معاملہ روز اول سے براہ راست اسرائیل امریکا کی سازشوں سے جڑا ہے اور وہی ساری تباہی کے ذمہ دار ہیں ۔کچھ لکھے پڑھے اصحاب اپنی اس بات پر بضد ہیں کہ یہ سارا کھیل دراصل ’’حق و باطل ‘‘کی ناگزیر جنگ کا حصہ ہے اور آج نہیں تو کل یہی کچھ ہونا تھا، اچھا ہوا کہ داعش وجود میں آئی اوراس نے خلافت قائم کرتے ہو ئے پہلی فرصت میں شیعہ حضرات کے خلاف جنگ چھیڑ کر ان کی نسل کشی کا آغاز کیا۔بہارِ عرب کے بعد جب شام اور عراق میں داعش چھا نے لگی تو کچھ اصحاب کا شدید اصرار بڑھا کہ میں بھی داعش کی حمایت میں کچھ نہ کچھ لکھ کر ثوابِ دارین حاصل کروں ۔زمینی سطح پریہ جنگ اگر چہ برصغیر سے ہزاروں کلو میٹر دور عالم عرب میں لڑی جا رہی تھی مگریہاں منبر و محراب سے لیکر میڈیا و اخبارات تک ایسی لفظی جنگ چھڑی تھی کہ گویا یہ وہاں نہیں یہاں والوں کی ہی عزت و آبرو کا معاملہ ہو۔بہت سارے مجھ سے عرصہ دراز تک ناراض رہے کہ میں اس مسئلے پر براہ راست لکھنے سے اس لیے اپنا دامن بچا رہا ہوں کہ میں اہلِ تشیع کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہوں اور کچھ احباب اس حد تک مشتعل تھے کہ اس مسئلے پر اپنی رائے کھل کر نہ دینے پر انھوں نے مجھ پر منافقت کا لیبل چسپاں کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ اس مسئلے پر عرصہ دراز تک میں نے اس لیے خاموشی اختیار کی تھی کہ میرے نزدیک یہ خالصتاََ شیعہ سنی مسئلہ نہیں تھا، میرا ماننا تھا کہ جغرافیائی طور پر عالم عرب سے بہت دور ہونے کے سبب ہمیں ’’دیکھو اور انتظارکرو‘‘ کی پالیسی اپنا کر تب تک صبر وضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک تصویر کے تمام رخ کھل کرسامنے نہیں آتے ۔

شیعہ سنی دونوں مسالک کے علماء ،خطباء اور قلمکاروں نے موسم اس قدر گرما دیا تھا کہ کسی بھی لکھے پڑھے کا اس مسئلے سے دامن بچانا ناقابل برداشت صبرکا متقاضی تھا جو عمومی حالات میں ممکن نہیں ہوتا ہے ۔پھر معاملے نے اس قدر طول کھینچ لیا کہ خود سنیوں کے بیچ مصر میں ’’اخوان المسلمون ‘‘کی حکومت گرانے کے بعد ایسی خلیج پیدا ہوئی جس کو برسوں تک پاٹنا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ ’’خون بہنا اور عصمتیں لٹنا‘‘کسی کے اسباب لٹنے کے برابر ہرگز نہیں ہوتاہے ۔اس مسئلے کو اگر ہم ’’مسلکی یا فکری تعصب سے بالاتر ہو کر‘‘ بھی سطحی طور پر دیکھنے کی کوشش کریں گے تو بھی یہ بات سمجھنی مشکل ہو گی کہ عالم عرب اچانک اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں اور کیسے ہو گیا ؟خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی عالم عیسائیت کے سامنے تیرہ سو برس پرانی ناقابل عبور علامتی دیوار ڈھا دینے کے بعد اُمت مسلمہ کو بانٹنا آسان ہوگیا تھاکہ اچانک علامہ محمد اقبا ل، جمال الدین افغانی ،امام حسن البنا شہیدبعض اختلافات کے باوجود ابتداء میں مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اورسید قطب شہیدکی تحریرات اور تحاریک نے نوجوان نسل کو نیاانداز فکر دیکر اسلام کے نام پر ’’مر مٹنے کا ایسا بے مثال حوصلہ ‘‘عطا کیا کہ پورا عالم کفر لرزہ براندام ہوا ۔اس کی نقد مثال سویت یونین کی افغانستان میں شکست تھی ۔عالم عرب کے حکمرانوں نے اسرائیل کے سامنے اس کی عسکری صلاحیت دیکھ کر آہستہ آہستہ عملی طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے کہ ’’جسمانی طورپر مکمل معذور ‘‘اخوان المسلمون سے متاثر ازہری عالم دین ’’شہید شیخ احمد یسٰینؒ ‘‘ نے ایک ایسے انتفاضہ کی بنیاد ڈال دی جو عالم عرب کے حکمرانوں اور افواج کے مقابلے میں بالکل ایک بے کس اور کمزور تحریک تھی ۔حماس نے نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ حیرت انگیز طور پر صدیوں سے متاثراس مسلم ذہن کو بدل ڈالا جو ہر چھوٹی بڑی برائی کے پیچھے’’بے ریاست ‘‘ یہودی ہاتھ دیکھنے یا دکھانے کا خوگر ہو چکا تھا ۔انہی حالات میں امام خمینی کے ہاتھوں ایک انقلابی تحریک کا آغاز ہوا جس نے عالمی سطح پراہلِ تشیع حضرات میں ایک نئی سوچ پیدا کردی ۔

اس طرح چاہے نا چاہے مسلمانوں میں خلافت کی کمی کا شدید احساس جنم لینے لگا ۔خلافت کے خاتمے کے اعلان کے بعد فلسطین کے چھن جانے اور اس کے خلاف جہاد کا آغاز اور افغانستان میں روس کی شکست نے متذکرہ بالا علماء اور دانشوروں کے درد کو ایک عملی صورت بخشی جو مغرب کے لیے خلافت کے خاتمے سے بھی زیادہ منحوس امر تھا لہذا اس علمی اور عملی لہر کو روکنے کے لیے انگریز دماغ نے اپنی زبردست توانائیاں خرچ کیں ۔کیونکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں نے دنیا کی ایک ایٹمی قوت اور بہترین فوج کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔اس سے حوصلہ پاکر نہ صرف فلسطینی عوام کا حوصلہ بڑھا بلکہ کشمیر سے لے کر بوسینیا تک اورچیچنیا سے لیکر فلپائن تک پرعزم نوجوانوں نے سروں پر کفن باندھ کر غاصب اور ظالم طاقتوں کو چیلنج کرنا شروع کردیا جن میں بدقسمتی سے عقل و دانش کی شدید کمی ضرور تھی مگر یہ مغربی اور عیسائی بلاک کے لیے سخت پریشان کن امر تھا ۔انھوں نے اپنے اعلیٰ دماغ دانشوروں اور ماہرین کو حکومتی سرپرستی میں اس کے تجزیہ اور توڑ پرلگا دیا جبکہ ہماری یہ جہادی فورس انتہائی غیر منظم اورعلم و تربیت سے بھی کوری تھی بلکہ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ سویت یونین کو پارہ پارہ کرنے والی قوت اور اسے متاثر ہو کر سارے عالم میں غیر منظم مجاہدین کی جماعتوں کو حکومتی سرپرستی کا بھی ایک خطرناک چیلنج درپیش رہا ۔انہیں آج تک کسی

بھی سنی المسلک حکومت نے قبول نہیں کیا بلکہ کبھی مخالفین کو بلیک میل کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور کبھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بیچ بھی ڈالا۔

ہماری اکثر حکومتیں سیکولر ہیں لہذا انہیں علامہ اقبال سے لیکر سید مودودی تک ہر عالم سے شدید اختلاف ہی نہیں ہے بلکہ ان میں شدید نفرت بھی پائی جارہی ہے اگر چہ اس نفرت کے اظہار کے لیے یہ لوگ ان دانشوروں کا نام براہ راست بہت کم لیتے ہیں بلکہ ان کے نظریوں کو انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے ناموں کی آڑ لے کر نا صرف رد کرتے ہیں بلکہ انہیں جیلوں میں رکھنے ،پھانسیوں پر چڑھانے اور جلاوطن کر کے ذلیل کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔یہی ہے وہ اصل کام جو مغرب نے کیا اور جو وہ تسلسل کے ساتھ بغیر ٹاسک دیے ان ظالموں سے کراتا ہے ۔اس قوت کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے سب سے زیادہ میڈیا اور قلم کا بھرپور استعمال کیا حتیٰ کہ حسبِ ضرورت امریکا،مغربی ممالک ،پاکستان اور سعودی عربیہ کی طرح انہیں کبھی مجاہد اور کبھی دہشت گرد قرار دیدیا ۔اس کے لیے انہیں جس میدان میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ تھا انہی اسلامی یا جہادی قوتوں کو آپس میں تقسیم کرنا اس لیے کہ روس کے خلاف افغان جہاد نے ایک معجزہ یہ بھی دکھایا تھا کہ نہ صرف شیعہ سنی تفریق موجودہونے کے باوجودکم ہوتی ہوئی نظر آنے لگی تھی بلکہ سنیوں میں اخوانی ،سلفی اور دیو بندی وغیرہ مسائل موجود ہونے کے باوجود عملی طور پر غیر مؤثر ہو چکے تھے ۔

اس پر مغربی طاقتوں نے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ مل کر سب سے پہلے مسلمان سیکولروں کو میدان میں اتارا اورساتھ ہی ساتھ بعض مذہبی افراد اور تنظیموں کی خدمات بھی خرید کر نئے نئے مباحث کا دروازہ حسب سابقہ کھلوا کر صورتحال اس سطح تک پہنچا دی کہ عوام تو عوام خواص بھی سنگین نوعیت کے ساتھ اس مرض کے شکار ہو گئے ۔حد یہ کہ وہ ’’مجاہدین ‘‘بھی جو کبھی بھی ان مسائل کی جانب توجہ نہیں کرتے تھے اور میں نے بارہا کہا اور لکھا ہے کہ یہی آخری جماعت بلا لحاظ مسلک و مشرب اس مہم کے نشانے پر تھی ۔
(جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر