... loading ...
اگر حکومت خود ہی عدلیہ کی بے عزتی پر اُت�آے تو پھر قانون کی حاکمیت کہا ں جاتی ہے۔لاہور میں قادری نیازی زرداری کا اپوزیشن شو ناکام کیا ہوا۔ حمید الدین سیالوی صاحب بھی حکومت کو پریشان نہیں کر سکے۔ ن لیگ اب فرنٹ فُٹ پر آکر کھیل رہی ہے۔ حالانکہ ننھی زینب کا قتل اور پھر میڈیا کی بھر پور آواز لیکن ن لیگ کی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی پنجاب پولیس کو مہلت بھی دی لیکن کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ سُننے میں یہی آرہا ہے کہ حکومتی شخصیت اِس میں شامل ہے۔ بہرحال چند دن پہلے وکلاء سے خطاب میں چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی اور ساتھ ہی وکلاء کا خود کو کمانڈر قرار دیا لیکن چیف جسٹس صاحب شاید اپنے خطاب کی رو میں زیادہ ہی بہہ گئے کہ لاہور بار کے صدر کو جلی کٹی بھی سُنا ڈالیں۔ ایشاء کی سب سے بڑی بار کے منتخب صدر کو جس انداز میں لاہور ہائی کورٹ بار کے سیمینار میں ڈانٹا۔ یہ بات چیف جسٹس کے عہدے کے منافی ہے اور پھر خود کو وکلاء کا کمانڈر بھی کہہ رہے ہیں۔
عدالتوں کی جوحالت ہے یقینی طور رپر انصاف نام کی کوئی چیز عدالتوں میں نہیں ہے۔سول کیس تیس چالیس سال چلتا ہے۔ عدالتوں میں بیشتر جج صاحبان کام درست طور پر نہیں کر رہے۔ بس تاریخ پہ تاریخ دے دیتے ہیں۔ اوپر سے ملک کی حکمران جماعت کے ساتھ عدلیہ کی جو ٹسل چل رہی ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے اگر ہسپتالوں، پینے کے پانی و صحت کے حوالے سے ازخود نوٹس لیے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ حکومت کا م نہیں کر پارہی۔ لیکن حکمران کہاں برداشت کرتے ہیں کہ اُن سے کوئی پوچھ گچھ کرے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے ملکی تاریخ کا خطرناک وزیراعظم ہوں جو کچھ بھی کہہ اور کر سکتا ہے، ماضی کی طرح کرپٹ ترین شخص کو نگران وزیراعظم نہیں لگایا جائے گا، سابقہ نگران وزیراعظم کے دور میں اتنی رشوت تھی کہ ان کے دو سیکرٹریز بھی استعفیٰ دے کر چلے گئے، پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے، نواز شریف کی قیادت ہی میں انتخابات 2018ء لڑیں گے۔ شہباز شریف یا میری تصویر لگانے سے کوئی ووٹ نہیں دے گا، نوازشریف کی تصویر ہی چلے گی تمام سیاسی جما عتو ں کے مستقبل کا فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے۔ ختم نبوت پر حلف کو اقرار میں تبدیل ہونے کے بارے میں راجہ ظفر الحق کی رپورٹ مکمل جائزہ لینے کے بعد ہی جاری کی جائے گی۔ این آر او کا سہارا چور لیتے ہیں، ہم نے کوئی ڈاکہ نہیں مارا۔
مسلم لیگ (ن) نے حکومتی نظام بڑے صاف اور شفاف انداز میں چلایا ہے اس لیے ہمیں کسی این آر او کی کوئی ضرورت نہیں۔ گالیاں دینے والوں کے ساتھ کیا سیاسی مکالمہ کیا جائے؟ ان سے بات آئندہ الیکشن کے موقع پر ہی ہوگی۔ ہر ادارہ اپنی حدود کار میں رہ کر کام کرے تو بہتر ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے جو کردار ادا کیا ہے وہ پوری دنیا کی فوج اکٹھی ہو کر بھی افغانستان میں ادا نہیں کرسکی۔ نواز شریف ہمیں کہہ دیں تو ہم قومی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے، اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ سازشوں پر یقین نہیں رکھتا، میرے خلاف کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ سینیٹ الیکشن بھی ہو جائیں گے۔ آمرانہ دور میں ملک کو جنگ میں دھکیلنے والے دبئی اور لندن بیٹھے ہیں سیاستدانوں کو نیب اور عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دینے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی لانے سے پہلے انہوں نے فوج اور جہازوں سے پہلے اسے فتح کیا جبکہ چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے حالات مختلف ہیں۔ چین کی دوستی کی قدر کرتے ہیں۔ سی پیک کی سرمایہ کاری ملک کے فائدے میں ہے۔ فاٹا اصلاحات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ فیض آباد دھرنا‘ حکومتی فیصلہ اور طے پانے والے معاہدے سے ختم ہوا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ امریکاسے پاکستان کو کسی قسم کا عسکری خطرہ رہا ہے نہ ابھی ہے۔ مشرف سے جس نے این آر او کیا آج وہ مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں بیٹھے ہیں، ججز نامزدگیوں کے لیے عوامی سماعت ہونی چاہیے، اگر ہم کمزور ججز لگائیں گے تو اس کے نتائج تو بھگتنے پڑیں گے، چھٹا بجٹ بھی یہی حکومت بنا کر جائے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ججز تقرریوں پر بھی عوامی بحث ہونی چاہیے، ججز کی ٹیکس ادائیگیوں کا بھی قوم کو علم ہونا چاہیے۔ ملک میں ان تقرریوں کے موجودہ طریقہ کار پر تحفظات ہیں، سب کو اپنے اپنے گھروں کی فکر کرنی چاہیے، اپنا اپنا گھر ٹھیک رکھنا چاہیے اور آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ تقرریوں سے پہلے ججز کے چہروں سے عوام کو آگاہ ہونا چاہیے۔ پوری دنیا میں یہی طریقہ کار ہے کیونکہ ججز زندگی و موت، اربوں روپے اور ملکی معاملات کے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر ہم کمزور ججز لگائیں گے تو اس کے نتائج تو بھگتنے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں لعنتیے کو سمجھ آ جائیگی۔ حکومتی کارکردگی کے اصل منصف عوام ہیں۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہوتا ہے، سیاستدان سب کو جواب دہ ہوتا ہے۔ آج پرویز مشرف کے دبئی، لندن پتہ نہیں کہاں کہاں فلیٹس ہیں، سیاستدان کبھی نا اہل کبھی جلا وطن بھی ہوتے ہیں۔ انہیں سسلین مافیا اور پتہ نہیں کیا کیا کہا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آمروں سے تو کوئی پوچھنے والا نہیں، تاہم سیاستدانوں کو عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو کبھی ہائی جیکر اور کبھی سسلین مافیا کہا جاتا ہے، ہر ادارہ جگہ بنانے کی کوشش کررہا ہے، عوام اسے قبول کرتے ہیں جو فطرت کے مطابق ہو۔ پارلیمنٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔ وزیر اعظم جناب عباسی نے خوب نمک حلالی کی ہے اور عدلیہ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اِن حالات میں قوم کو سمجھ جانا چاہیے کہ حکمرانی کے لیے ایسے لوگوں کو چُنیں جو اداروں کا احترام کریں۔