وجود

... loading ...

وجود

پی آئی اے کی فروختگی یا نجکاری کیوں؟

پیر 22 جنوری 2018 پی آئی اے کی فروختگی یا نجکاری کیوں؟

کسی زمانے میں پی آئی اے دنیا کی اہم ترین فضائی کمپنیوں میں سے ایک تھی، اس کی سر پرستی میں عالم اسلام کی بہت ساری فضائی کمپنیوں نے جنم لیااور ترقی کے مراحل طے کیے۔ پاکستان کے اندر بلیو ائیر لائن نامی فضائی کمپنی ہمارے ہی محترم وزیر اعظم خاقان عباسی کی ملکیت ہے اور اب ان کا ایسا بیان دینا کہ اگر پی آئی اے خسارے میں جارہی ہے تو اسے بیچ ڈالنے میں کیا حرج ہے؟ ذرا غور فرمائیں کہ ایک فضائی کمپنی کا پاکستانی مالک ایسی باتیں کیوں کر رہا ہے، ان کی ذاتی فضائی سروس کیوں منافع بخش ہے اور اسی ملک کی دوسری کمپنی پی آئی اے کیوں اور کیسے خسارے میں جارہی ہے؟ ائیر مارشل نور خان کے دور میں پی آئی اے بہت منافع بخش تھی ۔اب کئی سالوں سے اس کو یونین ازم نے سیاسی بکھیڑوں میں ڈال رکھا ہے جس سیاسی گروہ کی بھی یونین منتخب ہوکر سودا کا ر ایجنٹ بن جاتی ہے وہ اپنے خاص ڈھیروں بندے اہم عہدوں پر بھرتی کروالیتی ہے اور یہ سلسلہ سالہا سال جاری رہنے سے اب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ڈیڑھ درجن سے زیادہ افسران ایسے ہیں جو کہ اہم ترین عہدوں پر براجمان اور قابض ہیں مگر کبھی اپنی دیوٹیوں پر نہیں آتے اور بدستور سالوں سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول فرما رہے ہیں ،دوسری طرف سر پلس ملازمین کی پوزیشن یہ ہے کہ ایک ایک طیارے کے لیے 7سے8 درجن سے بھی زائد ملازم بھرتی کیے گئے ہیں جب کہ اتنی زیادہ تعداد کی قطعاً ضرورت نہیں اور یہ سبھی بھاری مشاہرے اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ پی آئی کے ملازمین کی تنخواہیں پہلے ہی ملک کے تمام دیگر اداروں سے دو تین گناہ زیادہ ہیں اور یوں”اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ کے اپنیاں نوں”کی صورات مکمل قائم ہے ۔پی آئی اے ہمارا ایسا قومی ادارہ ہے جس کے ذریعے ہمارے اہم افراد اندرون و بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور زیادہ تروی وی آئی پی شخصیات بھی اسی میں سفر کرنے پر ہمہ قسم تحفظ اور فخر محسوس کرتی ہیں۔اگر یہ ادارہ کسی غیر کو بک گیاتو کوئی بھی انہونی واردات ممکن ہوسکتی ہے جیسے کہ سابق صدر ضیاء الحق کے طیارے کے بارے میں آج تک چہ میگوئیاں جاری ہیں۔

اب جو خطرہ منڈلاتا ہوا موجود ہے وہ یہ کہ دوسرے اداروں کی فروختگی یا نجکاری کی طرح یہاں بھی خریدار خود ہی حکومت کے اہم افراد ہوں گے مگر فرنٹ پر نام کوئی دوسرا ہوگا تاکہ پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے اور یہ عمل ٹیلی فون کی فروختگی نما نجکاری میں واضح ہوچکا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کھربوں روپوں کی ڈیل ہورہی ہو اور ہمارے ملک کے مقتدر طبقات کے لوگ ایسا بٹیرا پنے ہاتھ سے نکل جانے دیں پھر جو بھی اسے خریدے گا وہ صرف منافع کمانے کے لیے نہ کہ اپنا انوسٹ شدہ سرمایہ ضائع کرنے کے لیے ۔جو چند افراد پر مشتمل کمیٹی کمپنی یا گروہ اسے خریدے گاوہ فوراً سینکڑوں افراد کی چھٹی کرواڈالے گا اور پی آئی اے کا مزدور بیروزگاری کے شکنجوں میں پھنس کر رُل جائے گا ۔اگر یہ ادارہ سفید ہاتھی بنا خسارے میں جارہا ہے تو کوئی باکردار ومحنتی شخص اس کا سربراہ مقرر کرکے ادارے کی اصلاح کی جاسکتی ہے وہ کسی رد عمل کو در خور اعتنا نہ سمجھے ا ور زبردستی نااہل بھرتی کیے گئے افراد کی چھٹی کروا کر اہل اور قابل افراد کی تعیناتی کرسکتا ہے ۔ اور ملازمین کو بیرون ملک مفت سفر و دیگر فضول مراعات کو بند کر ڈالے تو پی آئی اے کا خسارا کم ہوکر منافع میں بدل سکتاہے۔ کئی گراؤنڈ کیے گئے طیاروں کی مرمت کا کام اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک افراد کی کمپنیوں سے ذاتی نگرانی میں بہت کم رقوم خرچ کرکے کروائی جاسکتی ہے۔ یہ طیارے بھی پروازوں کے قابل ہو کر منافع بخش کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک طیارہ بیرون ملک بیچ ڈالاگیا مگر ریکارڈ نہ ہونے جیسی دھاندلی تو یک قلم ختم ہوسکتے ہیں جب سربراہ گہرائی میں جائے گا تو اسے اس کمپنی کے نظام میں بیشتر لوپ ہول نظر آئیں گے جن کو بند کرنے سے کروڑوں روپوں کی بچت ہوگی ۔پی آئی اے ملازمین کی بہت ساری تنظیمیں اس کی قطعاً فر وختگی نہیں چاہتیں۔ وہ ہڑتالیں اورمظاہرے کر رہی ہیں کہ اس طرح ان کا مستقبل بھی تاریک ہوگا۔ اس میں تخریب کاری کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے کیونکہ بیرون ملک سے لائے گئے افراد کی بھرتی سے ملک دشمن ایجنسیاں اس میں اپنے ایجنٹ بھی شامل کرواسکتی ہیں ۔جب بھی نیا خریدار مالک بنے گاتو وہ اپنے عزیز و اقارب و دوست احباب کو لازماً بھرتی کرے گا اور ہمارے پہلے سے بیچے گئے ادارے ٹیلی فون کی طرح 1/3حصہ تعداد کو زبردستی گولڈن ہینڈ شیک دیکر فارغ کریگا اور انھیں رقوم حاصل کرنے کے لیے سالوں چکر لگانے پڑیں گے اور جس طرح ٹیلی فون کی نجکاری فروختگی پر عمارات و دفاتر کی کل رقوم سے بھی تقریباً دسویں حصے پر اسے فروخت کر ڈالا گیا تھا۔ اسی طرح پی آئی اے کی قیمتی عمارات، دفاتر اور طیاروں کی فروختگی کا بھی یہی حشر ہوگا اور خریدار اس کی عمارات کو کمرشل بنیادوں پر بیچ بیچ کر سرمایہ بیرون ملک منتقل کرتے رہیں گے اور راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ2018کے انتخابات سے قبل ہی پی آئی اے کی فروختگی کا واضح مطلب یہ نظر آرہا ہے کہ انتخابات کے لیے شریفوں اور پارٹی کے اہم عہدوں پر براجمان افراد کو ڈھیروں سرمایہ حاصل ہوسکے تاکہ آئندہ انتخاب جو کہ پہلے کی طرح اب بھی مہنگے روپے پیسے کا کھیل بن چکا ہے اس کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مہیا ہو سکیں۔ جو امید وار جتنی زیادہ رقم خرچ کرے گا وہ اتنے ہی زیادہ ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوسکے گا کہ اب کی بار تو ووٹر بھی خرید و فروخت کے کریہہ بدبودار عمل سے گزرے بغیر ووٹ دینے کو تیار نہیں ۔ووٹر کو پتا ہے کہ ہمارے منتخب وڈیرے جاگیردار یا سود خور نودولتیے سرمایہ دار نے بھی انتخاب مال بنانے کے لیے لڑنا ہے تو وہ بھی کیوں نہ اس کے جتنے کپڑے انتخابات کے دوران اتارسکیں وہ اتار لیں ۔حکومتی امیدواروں کے لیے یہ بھی آسانی ہے کہ جو آجکل ڈویلپمنٹ فنڈز وصول ہورہے ہیں انہیں انتخابات کی جنگ میں جھونک کر جیتو اور پھر عوام کی کھالیں اتار اتار کر ان رقوم کو پورا کرلو، ڈھیروں مال خرچ کرکے کسی نہ کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرکے منتخب ہو جانا مفاد پرست طبقات کے جغادری سیاستدانوں کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور اسی طرح نا اہل لوگوں سے اسمبلیاں بھری پڑی ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر