... loading ...
آج کل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھارت کے6 روزہسرکاری دورہ پر ہیں۔گزشتہ 15 برسوں کے دوران کسی بھی اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورہ بھارت ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے کے حوالے سے بھارت میں بھرپور تیاریاں کی گئی ہیں اور ان کے دورے کو بھارتی میڈیا بھی خاص اہمیت دے رہا ہے۔
مودی کے دورہ اسرائیل کے بعد نیتن یاہو کا یہ پہلا بھارتی سرکاری دورہ ہے اس سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی سطح پر بھی بات چیت کی گئی۔ دونوں ملکوں کے وزراء اعظم نے ملاقات بھی کی جس کے بعد نیتن یاہو نے کہا کہ یہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان دوستی کا نیا دور ہے۔ دونوں وزرائاعظم کے درمیان سکیورٹی اور دفاع کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ بھارت اور اسرائیل میں دفاع، سائبر سکیورٹی‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ خلائی تعاون‘ فلم پروڈکشن‘ تیل اور قدرتی گیس‘ سولر تھرمل ٹیکنالوجیز‘ ہوائی سفر اور ہومیو پیتھک ادویات سازی کے حوالے سے 9 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی بھارت آمد پر نئی دہلی سمیت دیگرشہروں میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کی مخالفت میں مظاہرے کیے گئے۔ نئی دہلی میں مسلمانوں نے فلسطینیوں پراسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ مظاہرین نے اسرائیل مخالف بینرز بھی تھام رکھے تھے۔اسرائیل مخالف نعرے لگاتے ہوئے شرکاء نے اسرائیلی وزیر اعظم سے اسرائیل واپس لوٹنے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں شریک افراد نے نتین یاہو کا پتلا بھی جلایا۔ کارگل میں بھی اسرائیل مخالف مظاہرہ کیا گیا۔
بھارت اوراسرائیل کے درمیان یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں مسلمانوں کے صریح دشمن ہیں اور مسلم علاقوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔بھارت کشمیر میں مسلمانوں کے علاقے پر قبضہ کرکے بیٹھا ہواہے جبکہ اسرائیل مسلمانوں کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کرکے بیٹھا ہواہے۔
مودی برسر اقتدار آنے کے بعد اس بات کا دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے ۔اسی لیے ہندوستان نے اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد پر ووٹ دینے کے بجائے غیر حاضری مناسب جانی۔ یہ قرارداد غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر پیش کی گئی تھی۔ ہندوستان نے رائے شماری سے غیر حاضری کا جواز یہ پیش کیا کہ اس میں عالمی عدالت انصاف کا ذکر تھا جسے وہ تسلیم نہیں کرتا ۔
اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کوئی نئی بات نہیں۔ بی جے پی کی پہلی حکومت جو 1998 سے 2004 تک رہی اس دور حکومت میں اسرائیل بھارت تعلقات کو بہت فروغ دیا گیا۔ہندوستانی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے تل ابیب کا دورہ کیا، اس دورے کے موقعے پر جسونت سنگھ نے کہا تھا کہ ہندوستان اسرائیل تعلقات میں پیشرفت شعوری تبدیلی ہے۔
اسرائیل ، بھارت گٹھ جوڑ کا ایک مقصد مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کو دبانا بلکہ ختم کرنے میں اسرائیلی مدد حاصل کرنا ہے کیونکہ اسرائیل کو فلسطین میں تحریک آزادی کو دبانے کا تجربہ ہے۔ اسی تجربے سے بھارتی فوج کو بہرہ مند کرنے کے لیے اسرائیلی فوجی افسران متعدد بار مقبوضہ کشمیر اور نئی دہلی کا دورہ کر چکے ہیں۔چند ماہ پہلے اسرائیلی فوجی جنرل کا ادھمپورمیں بھارتی فوجی اڈے کا دورہ واضح کرتا ہے کہ دونوں ملک کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں اور دونوں کے درمیان یہ تعاون محض مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ اس وقت یہود و ہنود مسلمانوں کے خلاف ایکا کیے ہوئے ہیں اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم انکی مکروہ سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق کو مضبوط بنائیں۔کشمیریوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انکا واسطہ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ہے اس لیے ممکن ہے کہ مستقبل میں ہماری مشکلیں اور بڑھ جائیں اس لیے ہمیں بھی مزاحمت میں مزید طاقت پیدا کرنا ہوگی۔
بھارت عالمی برادری کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی میں ایک نئی سرعت پیدا ہوگئی ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ بھارت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا بدترین بازار سرگرم کر رکھا ہے اور بھارتی جیل کشمیریوں سے بھرے پڑے ہیں۔10 سالہ بچوں سے لے کر 80 برس کے معمر افراد تک کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے جنکا واحد قصور یہ ہے یہ لوگ حق خود ارادیت کی بات کر رہے ہیں۔ نظر بندوں کو عدالتی احکامات کے باوجود رہا نہیں کیا جارہا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما آغا روح اللہ نے انکشاف کیا کہ کہ بھارت بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ادارے’’موساد ‘‘کی مشاورت سے مقبوضہ علاقے میں ایک جعلی’’ دولت اسلامیہ ‘‘ گروپ بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔موساد کے تعاون سے مقبوضہ کشمیر میں ایک ایسے نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اسے بے دردی سے کچلنے کا جواز مل سکے۔ایک جعلی ’’دولت اسلامیہ ‘ ‘ گروہ قائم کر کے کشمیریوں کے خلاف مزید طاقت آزمائی کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آغا روح اللہ نے کہا کہ انہیں پتہ چلا ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ نے ’’موساد‘‘ کے سربراہ سے نئی دلی میں ملاقا ت کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت جو صورتحال ہے وہ پاکستان کی پیدا کردہ نہیں اور بھارت مقبوضہ علاقے میں بری طرح سے ناکام ہوا ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ بھارتی حکومت کا برتاؤ ظالمانہ اور غیر انسانی ہے۔
حال ہی میںمقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے گراؤنڈ فورسز کے سربراہ میجر جنرل یعقوو بیرک نے جموں میں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ہیڈکوارٹرکا دورہ کے دوران بھارتی فوج کے کمانڈر اور دیگر سینئر افسروں سے ملاقات کی تاکہ فلسطین اور کشمیر میں جاری آزادی کی جائز تحریکوں کو دبانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعلقات کے پس منظر میں باہمی دلچسپی کی اصطلاح کو مقبوضہ کشمیر میں جاری عوامی تحریک کودبانے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی طرز کے مظالم کو دہرانے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ ملاقات میں بھارتی فوج کے کئی دیگر افسران نے بھی شرکت کی۔
کشمیری پچھلے 70 برس سے مصائب برداشت کررہے ہیں لیکن اسکے باوجود انکے حوصلے بلند ہیں اور وہ تحریک آزادی کو ا س کے منطقی انجام تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔