... loading ...
عورت نے ہی پیغمبروں ولیوں، دانشوروں اور ہیروز کو جنم دیا ہے ارتقائے نسل انسانی پر اس عظیم ہستی کے جو نقوش ہیں وہ ان مٹ اور لاثانی ہیں۔ اس صنف کو پیغمبر اعظم ؒ نے ’’ رحمت ‘‘ قرار دیا ہے ۔ لیکن یہی ہستی ماضی کے مختلف ادواروں سمیت آج بھی مختلف سماجوں میں ظلم و بربریت شقاوتِ قلبی ، حرص و ہوس ، نفرت اور مردوں کی بالا دستی کا شکار بنتی چلی آ رہی ہے ۔ ہم آج کے سماج میں عورت کے مسائل کا نوحہ لکھتے ہیں لیکن ماضی میں عورت کا جتنا استحصال ان راجوں ، مہاراجوں ، بادشاہوں اور شہنشاہوں نے کیا شاید ہی کسی دوسرے طبقے کی جانب سے کیا گیا ہو جن کی داستانیں اور کہانیاں ہم ایک عادل بادشاہ کے طور پر اپنے بچوں کو سُناتے ہیں ۔یہی وہ مقام ہے جہاں ا ردو کے نابغہ روزگار عبد الحئی ساحر لُدھیانوی اپنی نظم ’’ نورجہاں کے مزار پر ‘‘میں کہتے ہیں کہ
’’ کیسے مغرور بادشاہوں کی تسکین کے لیے سالہا سال حسیناؤں کے بازار لگے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لیے
سُرخ محلوں میں جواں جسموں کے انبار لگے
کیسے خوش رنگ مہکتی ہوئی نازک کلیاں
نوچ لی جاتی تھیں تزئین ِ حرم کی خاطر
اور مُرجھا کے بھی آزاد نہ ہو سکتی تھیں
ظلِ سُبحانی کی اُلفت کے بھرم کی خاطر
عورت کا سراپا نہ صرف دنیا کو حَسیِن بنانے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے بلکہ پروردگار عالم نے عورت کے رُوپ میںحُسن و دلکشی ، محبت و مروت ، خلوص اور وفا کے ایک حسین امتزاج کو لاثانی پیکر میں تراشا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ عورت نے اپنی ترتیب عناصر کے مطابق اپنے کردار سے مختلف رشتوں کو اپنی بے پایاں شفقت ، محبت ، خُلوص اور وفا سے نوازا ہے ۔ بیٹی اور بہن کے رشتوں کو تقدس اور احترام کا مرقع بنایا ۔ بیوی اور ماں کی صورت میں قربانی کے لازوال ابواب رقم کیئے ہیں ۔ دنیا کا حُسن اس مرقع حُسن و وفا کے بغیر نہ صرف تہی دامن بلکہ بے رنگ و بو ہے ۔‘‘
بابا بُلھے شاہ کے قصور کی چھ سالہ معصوم زینب کا انجام وطن عزیز کے شہروں، قصبوں اور گلی کوچوں میں ہوا کی بیٹی کے ساتھ ہمارے روز مرہ سلوک کی ایک معمولی سی مثال ہے۔ اس لرزہ خیز واردات میں ایک ننھی کلی اور معصوم پری جس جبر و درندگی کے ساتھ مسلی گئی اُس سے انسانیت شرما گئی ۔ پاکستانی معاشرت کو خودسے گھن آنے لگی ہے ۔یہ توصرف ایک واقعہ ہے ہمارے ہاں ایسی گھناؤنی وارداتیں روز مرہ کا معمول ہیں ۔ عورتوں کے خلاف جرائم کے مطالعے اور مشاہدے سے یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد سے زائد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے ۔ جو واقعات اور وارداتیں پولیس کے پاس جاتی ہیں ان کے مدعیان کو کڑے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے اور پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد اکثر کیسسز کا عدالتوں میں جو حال ہوتا ہے اُس کے تصور سے ہی انسان کانپ اُٹھتا ہے ۔
یہ سب اُسی سماجی رویے سلسلہ کا تسلسل معلوم ہوتا ہے جس میں عورت کبھی لونڈی اور کبھی کنیز کہلائی ۔کبھی اِسے تحفے میں دی جانے والی جنس سمجھا گیا تو کبھی اِسے سجاسنوارکر بازاروں میں فروخت کیا گیا ۔ کبھی محض جھوٹی انا کی خاطر یہ زندہ درگور کی گئی ۔ کبھی وٹہ سٹہ ، کاروکاری اور ونی اور سوار ا جیسی مکروہ رسموں میں اپنے خاندان کے مردوں کے جرائم کی بھینٹ چڑھی ۔ کبھی اس بنت حواہ کو ’’ قران سے شادی ‘‘ کی غیر اسلامی اور غیر انسانی رسم کی قبر میں اُتارا گیا ۔ انسانی تاریخ کا یہ الم ناک باب بھی سب کے سامنے ہیں کہ عیاش حکمرانوں ، بادشاہوں اور شہنشاہوں نے جھوٹی محبت کا محل زمین بوس ہونے سے بچانے کے لیے سینکڑوں عورتوں سے اپنے حرم آباد کیئے رکھے ۔ ماضی کی عورت کی طرح موجودہ سماج کی عورت بھی نادیدہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ۔ کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں خود ہمارے معاشرے اور ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں مجبور و مقہور عورت خواتین کو عزت و تکریم اور عظمت کا مقام دلانے والے محسن انسانیت ﷺ کے نام کی خاموش دہائی دیتی نظر آتی ہے۔
زینب کا کیس ہمارے خوابیدہ سماج کی انگڑائی کا سبب بن سکتا ہے ۔ اگر آواز اُٹھانے والے استقامت سے اپنی جد وجہد جاری رکھیں ۔ ہماری معاشرتی گراوٹ تمام انتہاؤں کو عبور کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ اس قسم کے واقعات کسی بھی قوم کی غیرت و حمیت کے خاتمہ کا اعلان ہونے کے ساتھ ساتھ بطور قوم اُس کے وجود پر سوالیہ نشان بھی لگا دیتے ہیں ۔ بلا شُبہ ’’ سانحہ قصور ‘‘کی دلدوزی اور المناکی سے پوری قوم پر سکتہ کی سی کیفیت طاری ہے ۔ لیکن اس قسم کے درجنوں واقعات ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے ۔ ملک کے چَپے چُپے پر الم کدے ہیں جہاں بنی شرف کا نشان دوشیزاؤں اور عورتوں کو دلدوز حالات و واقعات کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
واقعہ کی المناکی اور دلدوزی میں نہ تو کوئی شک ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی غمزدہ کی نیت پر شک کیا جا نا چاہئے پوری پاکستانی قوم مہذب دنیا کے سامنے اور خود اپنے ضمیر کی عدالت میں شرمندگی اور ندامت محسوس کر رہی ہے ۔
ایسی صورتحال میں ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ احتجاج کرتے وقت ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جس سے انسانی جانوں اور قومی املاک کے نقصان کا احتمال پیدا ہو ۔ ننھی زینب کے ورثاء کے مطالبات نہ صرف جائز ہیں بلکہ ان کی تکمیل ریاست کی ذمہ داری بھی ہے ۔
بھیانک واقعہ کے بعد کی صورتحال میں امُید اور امکان کی شمع اس لیے بھی روشن نظر آتی ہے ۔ ریاست کے تمام اداروں نے یک جہتی کا مظاہرہ کیا اور ہر ادارہ ننھی زینب کے قاتلوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کے عزم کا اعادہ کر رہا ہے ۔ یہی زینب کے دُکھی والدین کا مطالبہ اور اس قوم کی آواز ہے ۔
حکومت اورتمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقات کو دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ معاشرتی سطح پر پُشتہ بندیاں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے قابل نفرت واقعہ کو دوہرانے کی کوئی جرات نہ کر سکے۔ اس سلسلہ میں ہم سب کو اپنے جذبات کے دھارے کو کنٹرول کرتے ہوئے دانش کا استعمال بھی کرنا ہوگا ۔
سانحہ قصور کے نتیجے میں آسودہ خاک ہونے والی معصوم بچی زینب کی قربانی کو بے ثمر ہونے سے بچانے کے لیے اور آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کی جدوجہد میں زندگی کے تمام شعبوں اور تمام سیاسی پارٹیوںسے تعلق رکھنے والے مردو زن کو متحد ہو کر اپنا فرض ادا کرنا ہوگا ۔ اس سانحہ سے اگر ہم نے اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنی اپنی بد اعمالیوں کے جواز پر ڈٹے رہے تو پھر تباہی و بربادی کو ہمارے سماج کا مقدر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور ہم ہمیشہ مہذب اقوام کے سامنے شرمساررہیں گے ۔