... loading ...
(پانچویں قسط)
ثناء اللہ زہری ، زہری قبائل کے نواب ہیں ۔ ماضی میں بلوچ قوم پرستانہ سیاست کی ہے۔ 90اور 93کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔ 1997ء سے مارچ 2000تک سینیٹر بھی رہے ۔ پرویز مشرف کے کرائے گئے 2002کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر تیسری بار بلوچستان اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ۔ ان کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلمدان تھا۔ بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کا انضمام ہوا تو نیشنل پارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم ہوئی ۔نیشنل پارٹی نے 2008ء کے انتخابات کا اے پی ڈی ایم کے فیصلے کے تحت بائیکاٹ کیا۔ تو نواب زہری نے پارٹی فیصلہ تسلیم نہ کیا اور نیشنل پارٹی پارلیمینٹرین بنا کر انتخابات میں حصہ لیا۔صوبے میں گورنر راج کے نفاذ تک ان کے پاس سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی وزارت رہی ۔ جنوری 2010ء میں مسلم لیگ نواز میں شامل ہوئے اور پارٹی کے صوبائی صدر بنائے گئے۔ دشمنیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں ، خاندان کے اندر بلکہ اپنے سوتیلے بھائیوں میر اسرار زہری اور میر ظفر زہری سے بھی رنجشیں ہیں ۔ بلوچ مسلح شدت پسندوں کے نشانے پر بھی ہیں ۔ کالعدم ،بلوچ لبریشن آرمی نے 16 اپریل 2013 ء انجیرہ میں نواب زہری کی انتخابی مہم کے دوران ان کے قافلے پر بم دھماکے سے حملہ کیا۔ جس میں بیٹا میر سکندر زہری،بھائی مہر اللہ زہری اور بھتیجا میر زیب زہری جاں بحق ہو گئے ۔ اس واقعے نے نواب زہری کو شدید صدمے سے دوچار کیا۔ اور یقینی طور پر یہ حملہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ نواب زہری بھی اُن بلوچ سیاسی و قبائلی شخصیات میں سے ہیں کہ جو شدت پسندوں کی سوچ اور طرز عمل کے خلاف رائے رکھتے ہیں ۔القصہ، پہلی حکومتوں کی طرح ان کی حکومت بھی عوام میں مثبت رائے نہ قائم کرسکی۔ نواب زہری اپنی جماعت کے ممبران کو ساتھ رکھنے میں بھی کما حقہ کامیاب نہیں ہوئے ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ نواب زہری، پشتونخوامیپ کے دباؤ میں رہے ہیں ۔ الزامات ان کے ایم پی ایز یہ لگا چکے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز زیادہ تر پشتونخوا میپ اپنے حلقوں میں لے جاتی تھی ۔ پی اینڈ ڈی کا محکمہ پشتونخوا میپ کے پاس تھا ۔ محمود خان اچکزئی کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی اس محکمے کے وزیر تھے ۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر حامد خان کا دامن صاف ہے ، بد عنوا ن نہیں ہیں ۔ نیب نے بلوچستان اسمبلی کے اندر اس بھونچال میں پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی عبید اللہ جان بابت کے خلاف چار جنوری کو دبئی میں پراپرٹی، کراچی میں تقریبا 130 ملین کی جائیداد، ملتان میں 2 بنگلے، ڈیرہ غازی خان میں 75 ملین روپے کا پٹرولیم پمپ اور کوئٹہ میں ایک بنگلہ بنانے کی تحقیقات شروع کردی ۔نیب نے پانچ جنوری کو میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کر دیاہے کہ کارپوریشن ذمہ داران نے کے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے شہر کے وسط میں واقع انتہائی قیمتی اراضی کی لیز اور تعمیرات کر کے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا ہے ۔ کارپوریشن کا ریکارڈ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔اس میں جھٹکا مارکیٹ کی الاٹمنٹ 25 مئی 2015 کو پشتونخوامیپ کے رکن قومی اسمبلی عبد القہار ودان کے نام پر ہوئی۔اور مسجد طوبیٰ کے ساتھ کارپوریشن کی جائیداد کی منتقلی 20 مئی 2015 کو عبد المجید خان اچکزئی کے نام ہوئی ہے۔رکن اسمبلی عبدالمجید خان اچکزئی جو حال ہی میں ٹریفک سارجنٹ قتل کیس میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں ۔مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ پشتونخوا میپ کو سیاسی انتقام کا نشانا بنایا جا رہا ہے ۔ عبدالمجید خان کو جس طرح ٹریفک سارجنٹ ہلاکت کیس میں پھنسایا گیا وہ سراسر بد دیانتی پر مبنی ہے ۔ اور ایک کار حادثے کے الزام میں ان پر دہشت گردی کے مقدمات بھی قائم کیے گئے ۔ البتہ اگر یہ کہا جائے کہ کسی نے غیر قانونی ذرائع سے املاک یا جائیدادیں بھی نہیں بنائی ہیں تو اس بات کو بھی قبول نہیں کیا جا سکتا ہے ۔نیب نے اگر تحقیقات شروع کر رکھی ہیں تو محض گمان کی بنیاد اور ہوا میں شروع نہیں کی ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ایسے وقتوں میں کہ جب صوبائی حکومت بحران کا شکار ہوئی، ادھر نیب کی سرگرمی پر اُنگلیاں اٹھی ہیں ۔ کیونکہ ہارون اور عتیق پلازہ کا مسئلہ آج کا نہیں ہے اس کے خلاف میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اندر حزب اختلاف نے بلوچستان ہائی کورٹ سے فوری ر جوع کیا تھا ۔ ڈی سی کوئٹہ نے کچھ عرصہ کام بند بھی کر دیا تھا ۔لیکن شاپنک پلازہ تعمیر کر ہی دیا گیا ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ عین اُس وقت جب ابھی پرانی عمارتیں یعنی یونین کونسل ون کا دفتر اور ایک سرکاری ڈسپنسری کی عمارتیں کھڑی تھیں اور اخبار میں اس کے خلاف بیانات بھی چھپ چکے تھے اُس وقت کارروائی کیوں نہ کی گئی ۔ کیونکہ اگر وقت پر کارروائی ہوتی تو گورنمنٹ کی پراپرٹی اپنی اصل حالت میں موجود رہتی ۔ 9جنوری کو نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا مسودہ پیش کیا جانا تھا کہ عین اُسی روز وزیر اعلیٰ کا پرسنل سیکٹری ایوب قریشی کراچی میں گرفتار ہوئے اور ذرائع ابلاغ پر یہ خبر چلی کہ یہ شخص سرکاری محکموں سے ماہانہ کرورڑوں روپے بٹور کر نواب زہری کو دیا کرتے تھے ۔ اگر اس میں صداقت ہے تو پھر اس شخص پر ان ساڑھے چار سالوں میں ہاتھ کیوں نہیں ڈالا گیا۔ بہر حال نواب زہری کے مخالفین موقع کی تلاش میں تھے ، موقع آیا تووہ اپنا داؤ بڑی مہارت اور مربوط انداز میں کھیلا۔ دو جنوری 2018ء کو نواب زہری کے خلاف بلوچستان کے چودہ ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع کرادی۔ جس پر مسلم لیگ ق کے میر عبدالقدوس بزنجو، میر عبدالکریم نوشیروانی، میر امان اللہ نوتیزئی، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، حمل کلمتی، نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو ، مجلس وحدت المسلمین کے سید آغا رضا، اے این پی کے انجینئر زمرک اچکزئی، جے یو آئی کے خلیل الرحمان دُمڑ، عبدالمالک کاکڑ، حُسن بانو، شاہدہ رؤف اور آزاد بینچوں پر بیٹھے رُکن اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی نے دستخط کیے تھے ۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 136کے تحت جمع کرائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی سے استدعا کی گئی تھی کہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے ۔ آئین میں وزیر اعلیٰ کی صوبائی اسمبلی کے سامنے جوابدہی کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ جب وزیر اعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو تو وہ اقتدار میں رہے گا۔ اور جب وہ اس اعتماد سے محروم ہو جائے گا تو اسے ہٹا دیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 136کے مطابق سب سے پہلے صوبائی اسمبلی کے کل اراکین کے بیس فیصد یعنی1/5اراکین وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پاس کرینگے ۔جس دن یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کی جائے گی اس کے تین یوم بعد اور سات ایام گزرنے سے قبل ا س قرارداد پر اسمبلی کا ووٹ لیا جائیگا۔ اگر صوبائی اسمبلی کے کل اراکین کی اکثریت قرارداد کے حق میں ووٹ دے تو وزیراعلیٰ اپنے عہدے سے محروم ہوجائیگا۔ اگر کل اراکین کی اکثریت اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دے تو وزیراعلیٰ بدستور اقتدار میں رہے گا۔ عدم اعتماد کی تحریک منظور کرنے کے لیے اسمبلی میں موجود اراکین کی اکثریت کافی نہیں بلکہ کل اراکین کی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تو ہے عدم اعتماد کی تحریک کا آئینی طریقہ کار ۔ اب بلوچستان اسمبلی میں اراکین اور جماعتوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ کس جماعت کے کتنے اراکین اور کون کون ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے عام انتخابات میں دس امیدوار کامیاب ہوگئے تھے جن میں نواب ثناء اللہ زہری، طاہر محمود، سردار دُر محمد ناصر، نواب جنگیز مری ، میر جان محمد جمالی ، محترمہ راحت جمالی ، عبدالغفور لہڑی، میر اظہار حسین کھوسہ اور اکبر آسکانی شامل ہیں۔ (عبدالغفور لہڑی کے نا اہل ہونے کے بعد اس نشست پر ن لیگ کے محمد خان لہڑی کامیاب ہوئے)۔ میر سرفراز بگٹی، میر عامر رند، میر سرفراز چاکر ، عاصم کرد گیلو، سردار صالح بھوتانی، عبدالماجد ابڑو، پرنس احمد علی اور غلام دستگیر بادینی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے بعد ازاں مسلم لیگ نواز میں شامل ہوگئے ۔خواتین کی مخصوص نشستوں پر راحیلہُ درانی، کشور جتک اور ثمینہ خان جبکہ اقلیت کی مخصوص نشست پر سنتوش کمار کامیاب ہوئے ۔ مسلسل غیر حاضری پر ان کی نشست خالی قرار دی گئی تو اس نشست پر ن لیگ کی انیتاعرفان منتخب ہوئیں۔ اس طرح ن لیگ کے ارکان کی کل تعداد21ہوگئی۔ دوسری بڑی جماعت پشتونخوا میپ کے عبدالرحیم زیارتوال،نواب ایاز جوگیزئی ، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، عبدالمجید خان اچکزئی، سردار مصطفی ترین، لیاقت آغا، منظور احمد کاکڑ، عبیداللہ بابت، نصر اللہ زیرے، سردار رضا محمد بڑیچ جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اقلیتی نشست پر ولیم برکت اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر سپوژمئی اچکزئی، عارفہ صدیق اور معصومہ حیات منتخب ہوئیں۔ اس طرح اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد14ہوگئی۔ نیشنل پارٹی کے عام نشستوں پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، رحمت بلوچ، میر خالد لانگو، نواب محمد خان شاہوانی،سردار اسلم بزنجو، فتح بلیدی اور حاجی اسلام منتخب ہوئے۔ مجیب الرحمان محمد حسنی آزاد حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد نیشنل پارٹی کا حصہ بنے۔خواتین کی مخصوص نشستوں پر ڈاکٹر شمع اسحاق اور یاسمین لہڑی اور اقلیتی نشست پر گھنشام داس منتخب ہوئے۔اس طرح نیشنل پارٹی کے ارکان کی تعداد11ہوگئی۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے کل آٹھ ارکان اسمبلی ہیں۔ جے یو آئی ف کے جنرل نشستوں پر مولانا عبدالواسع، عبدالمالک کاکڑ، مفتی گلاب، سردار عبدالرحمان کھیتران ،مفتی معاذ اللہ اور خلیل الرحمان دُمڑ ( گل محمد دُمڑ کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے خلیل الرحمان دُمڑ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے) جبکہ شاہدہ رؤف اور حسن بانو خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں ۔مسلم لیگ قائداعظم کے شیخ جعفرمندوخیل، امان اللہ نوتیزئی، عبدالکریم نوشیروانی اور عبدالقدوس بزنجو جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اس جماعت کی رقیہ ہاشمی خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئیں ۔ ق لیگ کے کل ممبران پانچ ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل اور حمل کلمتی کامیاب ہوئے یعنی اسمبلی میں محض دو ارکان ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے صرف میر ظفر اللہ زہری کامیاب ہوئے۔ مجلس وحدت مسلمین کا ایک رکن آغا سید رضا اور اے این پی کا بھی ایک زمرک اچکزئی اسمبلی پہنچ سکا۔ نوابزادہ طارق مگسی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی،بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور بی این پی عوامی حزب اختلاف کے بینچوں پر بیٹھ گئیں جبکہ ن لیگ ، ق لیگ ، نیشنل پارٹی ، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور مجلس وحدت مسلمین نے حکومت بنائی۔ یہ حکومت اڑھائی اڑھائی سال کے فارمولے پر بنائی گئی ۔پہلے اڑھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک اور اس کے بعد نواب ثناء زہری وزیراعلیٰ بن گئے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو نیشنل پاٹی اول تو وزارت اعلیٰ کا منصب پانچ سال کیلئے لیتی دوسری صورت میں اڑھائی سال پر قناعت نہ کی جاتی کیونکہ ان اڑھائی سالوں میں نیشنل پارٹی اپنے منشور کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی ہے، الٹا بدنامی حصے میں آئی۔ شدت پسندوں کی دشمنی الگ مصیبت ہے جو گلے پڑ گئی ہے۔
(جاری ہے )