... loading ...
29 دسمبر 1979 ء کی ایک جمادینے والی ٹھنڈی رات میں دُنیا کی دوسری بڑی قوت سوویت یونین کے فوجی ٹینکوں پر سوار غرور و نخوت کے ساتھ مدہوشی کے عالم میں افغانستان میں داخل ہو گئے ۔ دنیا میں جہاں جہاں اس غاصبانہ قبضے کی خبر پہنچتی تو سناٹا چھا جاتا ۔ ہر طرف خاموشی اور خوف ڈیرے ڈالنے لگا ۔ اگلے ہی روز دہشت ناک سناٹے کوچیرتی ہوئی پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی آوازبلند ہوتی ہے کہ ’’ پاکستان روسی افواج کے افغانستان پر قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا ۔ اور افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی تک پاکستان افغان عوام کی سفارتی اور اخلاقی امداد جاری رکھے گا ‘‘۔
یہ 1971 ء میں دو لخت ہونے والے ملک پاکستان کے فوجی سربراہ کاایسا اعلان تھا ۔ جس نے مغربی دنیا میں مزید سراسیمگی پھیلا دی ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان نے اپنی مغربی سرحد کو افغان پناہ گزینوں کے لیے کھول دیا ۔ لاکھوں کی تعدا د میں لُٹے پُٹے افغان مہاجرین کے قافلوں کا خوش دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا ۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں جگہ جگہ افغان مہاجر کیمپ قائم کر دیے گئے ۔ آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈیئر امتیاز(جو اُن دنوں آئی ایس آئی میں خدمات سر انجام دے رہے تھے) نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ افغانستان پر روسی حملے کے فوری بعد جنرل ضیاء الحق نے آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا تھا ۔ اُس وقت ہمارے پاس افغانستان کے مکمل نقشے بھی نہیں تھے ۔ جنرل ضیاء الحق نے جاتے ہوئے ہمیں مخاطب ہو کر کہا تھا کہ اگر ہم لاٹھیاں لے کر بھی روس کو بھگانے کا عہد کر لیں تو ہم انہیں افغانستان سے باہر دھکیلنے میں کامیاب ہو جائیں گے ‘‘۔
ان ابتدائی دنوں سے ہی پاکستان نے مکمل فتح تک کے لیے افغانستان میں تمام تر توجہ مرکوز کر دی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ کم و بیش پہلے دوسال پاکستان اپنے وسائل سے تنہا سُپر پاور روس کے مقابل تھا ۔ابتداء میں امریکی صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو چالیس ملین ڈالر کی امداد کی پیش کش کی تھی جسے جنرل ضیاء الحق نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا تھا کہ ’’ ہم مونگ پھلی کا سودا نہیں کرتے ‘‘ ۔ صدر پاکستان کے اس جملے کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت کے امریکی صدر’’ جمی کارٹر‘‘ کا شمار امریکا میں مونگ پھلی کے صف اول کے کاشتکاروں میں ہوتا تھا ۔
امریکی امداد کی پیشکش ہونے سے پہلے اور بعد میں پاکستان نے افغان پالیسی میں اپنے مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھا اور امریکا سمیت مغربی ممالک سے اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق امداد حاصل کی ۔ اُس وقت کے پاکستانی پالیسی سازوں نے جہاں حکمت اور دانائی سے پالیسیاں ترتیب دیں وہاں جرأت مندی کا مظاہرہ بھی کیا ،ورنہ اس قوم کے نصیب میں ایسے حکمران بھی رہے ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ’’ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ‘‘ ۔۔ لیکن جب ’’وقتِ قیام‘‘ آیا تو امریکی وزیر دفاع ’’ جنرل کولن پاول ‘‘ کی ایک ہی کال پر ’’ ڈھیر ‘‘ ہو گئے ۔
افغان جنگ کے دوران امریکا نے پاکستان کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے کے لیے دباؤ ،امداد کی بندش اور دھمکیوں سمیت ہر قسم کا حربہ بھی آزمایہ تھا مگر پاکستان نے اس پروگرام کو جاری رکھا ۔ اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی پاکستان غیر اعلانیہ ایٹمی طاقت بن چُکا تھا ۔ یہ دور اس پروگرام کے لیے بنیادی اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی دباؤ کے حوالے سے جنرل ضیاء الحق نے ایک مرتبہ خود کہا تھا کہ ’’ وہ افغان پالیسی میں ہمارا ہمنواہے مگر ایٹمی توانائی کے پروگرام کو ترک کرنے کی قیمت ہم سے وصول کرتا رہا ہے ۔ اس مسئلہ پر بار بار دباؤ ڈالا جاتا ہے ۔ امداد بند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ مگر خدا کے فضل و کرم سے ہم نے اپنی خودمختاری کا سودا کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اور بھارت کے مقابلے میں اپنی مساوی حیثیت برقرار رکھی ہے ‘‘۔۔
ہمارے موجود ہ’’ ثنا خوانِ تقدیسِ جمہوریت ‘‘ کی اکثریت جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کو سطحی نظر سے دیکھتی ہے۔ دسمبر1979 ء سے لے کر 1988 ء تک کے اقدامات کو ہم میں سے ہر کوئی اپنی خواہشات ، توقعات ، اپنی سوچ ، فکر اور ملک کو درپیش حالات کے تناظر میں ہی دیکھتا رہا ۔ایسی ہی نظر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بنائے گئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی رکھتے تھے ۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے گئے اس وزیر اعظم کو صرف اس لیے بر طرف کر دیا تھا کہ وہ اُس افغان پالیسی کو سمجھنے کی صلاحیت سے محرومی کی وجہ سے جنیوا میں سمجھوتا کر بیٹھے تھے ۔ ایسا انہوں نے امریکی دباؤ میں آکر کیا تھا۔ جبکہ جنرل ضیاء الحق جنیوا معاہدے سے پہلے افغانستان میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی حکومت کے حامی تھے ۔
افغانستان ۔ پاکستان ۔ بھارت اور ایران عراق جنگ یہ چار نکات تھے جن پر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنی توجہ مرکوز کر رکھی تھی ۔ ہمارے ہاں غالب اکثریت کا خیال ہے کہ ’’ افغانستان کی لڑائی امریکا کی لڑائی تھی ‘‘ ۔۔ جبکہ جنرل ضیاء کا موقف تھا کہ ’’ افغانستان کا مسئلہ ہمارے اپنے وجود اور سلامتی کا مسئلہ ہے ۔ روس کو یہاں سے نہ نکالا گیا تو نہ صرف پاکستان بلکہ پورا برصغیر اور خلیج کے عرب ممالک سب خطرے میں پڑ جائیں گے ‘‘ ۔وہ اس صورتحال کو پاکستان کے حق میں اس لیے بھی استعمال کرنا چاہتے تھے کہ روسی جارحیت سے افغانستان کا کردار یکسر تبدیل ہورہا تھا ۔ اس سے پہلے یہ ملک ہمیشہ سے روس اور بھارت کی گرفت میں رہا تھا ۔ انہوں نے افغانستان کو اولیت خطے میں اسلامی بلاک کی تشکیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بھی دی تھی ۔
جب ہمیں داخلی محاذوں پر اُلجھانے کی کوشش کی گئی تو اور ہماری مشرقی سرحدوں پر جب بھی شورش پیدا کرکے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی سازش ہوئی تو انہوں نے خیر سگالی اور دوستی کا ہاتھ بڑھا کر بھارتی مقاصدکو خاک میں ملا دیا ۔ اُس وقت مشرق وسطیٰ میں ایران اور عراق جنگ کو پاکستان نے برادر کُشی کی جنگ سمجھتے ہوئے اُس کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ۔ ان کے دور میں پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھا ۔ اس سے پہلے پاکستان کو صرف اپنے مشرقی بارڈر کی جانب پیش بندی پر توجہ دینا ہوتی تھی ۔ ایرانی انقلاب اور سوویت یونین کی افغانستان پر فوج کُشی سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان ہوا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کابل میں مجاہدین کی مستحکم حکومت کے قیام ، اور افغانستان سے آخری روسی فوجی کے انخلاء تک اقتدار پر بیٹھنا چاہتے تھے ان کے اس ارادے کا سانحہ بہاولپور (17 ۔ اگست1988 ) سے گہرا تعلق ہے ۔ بعد کی صورتحال سب کچھ واضح کرتی ہے ۔
امریکی صدر ٹرمپ نے جو طرز عمل پاکستان کے ساتھ اپنایا ہوا ہے اُس کے جواب میں پاکستان کی فوجی قیادت کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اُس نے ہماری غیرت کا بھرم رکھ لیا ہے۔ ہماری موجودہ قیادت اور نسل کو جنرل ضیاء الحق مرحوم کی خارجہ پالیسی کا مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ ہمیں ماضی جیسی پالیسی کی ایک مرتبہ پھر ضرورت ہے اور مقام شکر ہے کہ پاک فوج کی قیادت جنرل پرویز مشرف کے نہیں جنرل قمر باجوہ جیسے دلیرو دلاور جرنیل کے ہاتھوں میں ہے۔