... loading ...
ترقی (پہلی قسط)
بے روزگاری،رشوت ستانی ،بلیک منی اور اچھی حکمرانی دینے میںناکام و نا مراد نریندر مودی اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے روز کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر مسلمانان ہند کی پریشانیوں میں اضافے کا موجب بنا ہوا ہے ۔ دو دہائیں قبل بعض دانشوروں کی باتیں ایک ایک کر کے سچ ثابت ہو رہی ہیں کہ گجرات میں مودی حکومت ’’سنگھ پریوار کی لیبارٹری‘‘ہے جس میں کامیاب تجربوں کو یہ لوگ بعد میں پورے ہندوستان میں عملانے کی کوشش کریں گے ۔آج بلا شک و شبہ مودی اینڈ کمپنی ’’گجرات تجربات ‘‘کو پورے ملک میں آزمانا چاہتی ہے ۔حکومت میں آنے کے لیے انھوں نے بہت دلفریب نعرے بلند کیے مگر دہلی فتح ہوتے ہی نریندر مودی نے مسلمانان ہندکو نفسیاتی طور سخت ہزیمت اور خوف کا احساس دلانے کا آغاز دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ کیا ۔سچائی یہی ہے کہ ابھی تک اس شخص نے اسے بڑھکر اگر کچھ کیا بھی تو صرف یہ کہ ر وز نئے نئے شوشے چھوڑ کرملک کے عوام کو ذہنی خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے ۔تین طلاق کے معاملے میں بھی اس شخص کی سوچ اسی کے ارد گرد گھوم پھر رہی تھی کہ مسلم اور غیر مسلم سماج کواسلام کے ہاتھوںمسلمان عورت کے ساتھ ’’ناروا سلوک‘‘ برتنے کا احساس دلاکر ’’دعوت و تبلیغ کا راستہ‘‘بند کردیا جائے ۔اور پوری دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام نے مسلمان عورتوں کے ساتھ جو ’’ظلم ‘‘روارکھا ہے ’’گجرات کے مسیحا‘‘نے وزیر اعظم بنتے ہی سب سے پہلے اس کا ازالہ کر لیا ۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جہاںسوا ارب کی آبادی کو ہر شام درجنوں ٹیلی ویژن چینلز پر قابض سنگھ پریوار کے ’’چیخنے چلانے والے تنخواہ دار ایجنٹ‘‘مسلمانوں کے خلاف فضا زہر آلودہ کرتے ہیں ،وہیںساتھ ہی مسلمانوں میں سے بعض ’’بدؤں‘‘کو بٹھاکر دق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ تے ہیںتاکہ بھارت کی پچیس کروڑ مسلم آبادی کو یہ بھی احساس دلایا جائے کہ تم میں ایک بھی عقلمند قابل شخص موجود نہیں ہے ۔
حال ہی میں تین طلاق پرپابندی لگانے کے لیے پارلیمنٹ میں بحث کے بعد ووٹنگ پر مسلمانانِ ہند کے جذبات کی جھوٹی دعویدار’’کانگریس ‘‘نے اس قانون کو لانے میں بالکل ویسا ہی رول ادا کیا جیسا بی جے پی نے نبھایا ۔بعض لوگ اس پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ یہ بالکل بھی حیرت کی بات نہیں ہے ۔مسلمانوں پر پچاس ہزار سے زیادہ حملے کانگریس حکومت میں ہو ئے ہیں ،مسئلہ کشمیر کو تخلیق کرنے میں سارا رول کانگریس کا ہے ،پاکستان کو ایک منفرد وجود قبول کرنے کے بعد اس کو دولخت کرنے کا سارا کارنامہ کانگریس کا ہے ۔ٹاڈا اورپوٹا جیسے سیاہ ترین قوانین لانے اور ان کے ذریعے مسلمانان کشمیر کو بالخصوص اور مسلمانان ہند کو بالعموم تہہ تیغ کرانے کی ساری ’’بدی اور گناہ‘‘کانگریس کے کھاتے میں جمع ہے لہذا دانشمندانِ ہند کو بالکل بھی حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔اس سب سے افسوس ناک معاملہ چند گنے چنے مسلمان ممبران پارلیمنٹ کا رہا جنہوں نے اولاََ اس ظالمانہ مسلم مخالف بل کو روکنے کی ذرا بھر بھی کوشش نہیں کی سوائے ایک اسد الدین اویسی صاحب کے ۔گویا باقی سب یا تو مر گئے تھے یا ایسے بیمار کہ بستروں میں ہلنا جلنا بھی ممکن نہیں تھا ۔ایک ممبر پارلیمنٹ نے مختلف مصروفیات کا بہانہ بنا کر بدترین ضمیر فروشی کا ثبوت دیدیا اور ایک صاحب نے ’’ٹریفک جام‘‘میں پھنس جانے کی خبر چھپوائی ۔المیہ یہ ہے کہ جب اسلام کے وجود پر حملہ کی تمام تر تیاریوں کے ساتھ سنگھ پریواراپنے ’’غلاموں ‘‘ کو لیکردہلی کے پارلیمنٹ ہاوس میں جمع ہو چکاتھا ایسے نازک موقع پر بھی ان لوگوں نے مختلف مصروفیات اور ٹریفک جام کا بہانہ بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گویا یہ لوگ اس قدرغریب اور مفلوک الحال ہیں کہ آج ان کے لیے2017ء نہیں بلکہ 1917ء ہے جس میں دہلی پارلیمنٹ ہاوس پہنچنے کے لیے گاڑی نہیں صرف ٹانگہ میسر ہے اور بدقسمتی سے ممبر پارلیمنٹ ہونے کے باوجود بھی ان کے پاس وہ ٹانگہ یا رکھشا نہیں ہے ۔
جہاںتک کشمیر سے تعلق رکھنے والے دو ممبران پارلیمنٹ فاروق عبداللہ اور مظفر بیگ کی مذہب سے واقفیت اور اس کے دفاع کا تعلق ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ لکھے پڑھے تو بے شک ہیں مگر مذہب کے حوالے سے ان کے ریمارکس’’ جو کچھ اور جتنے کچھ‘‘اب تک سامنے آچکے ہیں کی روشنی میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے انہیں اس کے اصول و فروع دونوں کا علم نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس کے باوجود مذہب پر بات کرنے سے ذرا بھر نہیں جھجکتے ہیں۔ان کے نزدیک مذہب سے تعلق کے لیے اسلامی نام تجویز کرنے کے بعدعیدین کی نمازوں میں شرکت کافی ہے اوربس ۔لہذا ان سے اس کی امید رکھنا ہی کار عبث ہے کہ وہ لوگ طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں کوئی رول نبھاتے ۔اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بل کو روکنا ان کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے خلاف سینہ سپر ہوتے اس لیے کہ یہ لوگ جس عوامی منڈیٹ سے پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں ان کی اکثریت تین طلاق پر وہی عقیدہ رکھتی ہے جو جمہور امت کا ہے کہ یہ دنیا ناجائز اور گناہ ہے مگر اس کے باوجود جب کوئی تین طلاق دیدے تو اس کے واقع ہونے سے انکار نہیں کیا جا ئے گامگر جس کے نزدیک قوم بیچنے کی شئی ہو اس کے لیے قوم کیا حیثیت رکھتی ہو گی ۔
پارلیمنٹ میں یہ بل پاس ہونے کے بعد زبانی ، تحریری یا ایس ایم ایس اور وہاٹس ایپ کے ذریعے کسی بھی شکل میں تین طلاق یا طلاق بدعت کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے اور شوہر کو تین سال کی سزا کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اس قانون کو پارلیمنٹ سے قبل مرکزی کابینہ نے منظوری دی تھی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے نریندر مودی کے نام ایک خط میں اسے پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ بورڈکے صدر اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنوکے ناظم اعلیٰ مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی نے اس بل کو شریعت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی آئین میں حاصل ضمانتوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند جنھا نے طلاق ثلاثہ بل پیش کرکے اسے لوک سبھا میں اکثریت سے پاس کرانے پر مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مرکزی حکومت کے وزیر کا ٹریپل طلاق بل پیش کرنے کے وقت یہ کہنا کہ تین طلاق سیاست کا نہیں انسانیت کا معاملہ ہے ‘ حیران کن ہے‘‘۔انہو ں نے طلاق ثلاثہ بل پیش کیے جانے کے دن کو پارلیمنٹ کے لیے شرمناک دن قراردیا۔ انہو ں نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ’’2002ء کے دوران گجرات میں جو ہوا اور جو کیاگیا اور آج ملک میں جو ہورہا ہے اور کہاجارہا ہے اسے سمجھے، سال2002ء میں گجرات کے وزیراعلی نے کہاتھا کہ ہمیں کیمپوں( جہاں فساد متاثرین نے پناہ لی تھی جن میں خواتین بھی تھیں) کو توڑ دینا چاہئے ہم دہشت گرد پید اکرنے والے اڈہ نہیں بناسکتے ۔پروفیسر صاحب نے درست کہا کہ اور یہ خصوصیت صرف ہندوستان کی ہے کہ جہاں انسانیت کا قاتل ہی انسانیت کا درس دیتا ہے جہاں ظالم مظلوم کی وکالت کرتا ہے اور جہاں اسلام دشمن ہی اس کی ہمدردی کا جبہ زیب تن کیے اس کی ہمدردی کے آنسؤ بہاتا ہے۔ (جاری ہے)