... loading ...
رمضان رفیق
شاہراہِ قراقرم پر چلاس سے ہنزہ کی طرف جائیں تو نومل نامی علاقے سے نلتر نامی جھیل کی سمت جانے کیلیے جیپ کرائے پر حاصل کی جاسکتی ہے اِس جھیل کے لیے جیپیں جاتی ہیں۔ یہ جھیل کیا ہے قدرت کی صناعی کا نادر ثبوت ہے ،کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کہ کیا اِسے جھیل بھی کہنا چاہیے یا ابسٹرکٹ آرٹ کا قدرتی نمونہ؟ پہلی نظر میں ہَرا رنگ جھیل کے رنگ پر غالب نظر آتا ہے، اگلی نظر میں کہیں دور ایک نیلگوں رنگ کا بھی احساس ہوتا ہے، کہیں کہیں قوس قزاح کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے، ایسی جگہ جو اشجار کے عکس کو تصویر کردے، بالکل شیشے کی بوتل میں بند کسی آرٹ کے نمونے کی طرح۔کئی بار سوچ بیٹتھا ہوں کہ دیکھنے والے اِن تصاویر کو شاید فوٹو شاپ فیکٹری کا کمال ہی سمجھیں، لیکن دوستو، دستِ قدرت کی صنائیاں وہاں شروع ہوتی ہیں جہاں انسانی عقل ختم ہوتی ہے۔
شاہراہِ قراقرم کے کنارے ’نلتر 17 کلو میٹر‘ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ نومل کی جن گلیوں سے ہوکر ہم جھیل کی جانب آئے تھے، اْس پر ایک آدھ بینک، دو میڈیکل اسٹور، اور اسکول کے بچوں کے انگریزی طرز کے یونیفارم دیکھ کر احساس ہو رہا تھا کہ نومل ایک گاؤں سے بڑھ کر کچھ ہے۔، خوبصورت، بہت خوبصورت، اْف خوبصورت، کیا چیز ہے یہ رنگ برنگی جھیل۔
موسم خزاں میں اکتوبر کی 28 تاریخ کو مجھے اِس رنگ برنگی جھیل کو دیکھنے کا موقع ملا، جو دیکھا وہ بیان سے باہر ہے۔ وہ سب لمحے جو اِس چھوٹی سی جھیل کے کنارے گزرے، لگتا ہے کسی اور جہاں میں گزرے۔ عطا آباد جھیل کا نیلگوں رنگ ہو یا سیف الملوک کے رنگوں کا تصور، اِس جھیل کا رنگ اتنا گہرا سبز دکھائی دیا کہ لگتا ہے کہ کسی نے ہَرے رنگ کا پینٹ پانی میں ملا رکھا ہے۔ قریب آئیں تو پتہ چلتا ہے کہ خرد بینی مخلوق یا کائی کی طرز کی دبیز سبز تہیں اِس جھیل کے اِس رنگ کا اصل سبب ہیں۔ اِس سے پہلے کہ میں ایک ہی سانس میں جھیل کنارے رنگوں کے تذکرے میں کھو جاؤں، میں تھوڑا سا نلتر اور اِس کے علاقے کا تعارف کروا دوں۔کیوں کہ اْن دنوں ٹوئرسٹ سیزن نہیں تھا، اِس لیے جیپ کا ڈرائیور ہمارا منتظر تھا ورنہ تو شاید ہمیں اْس کے انتظار میں کتنا وقت بتانا پڑتا۔ اْس راستے پر پولیس کی ایک چوکی بھی موجود تھی جہاں سیاحوں سے شناخت طلب کی جاتی ہے۔ اِس کی ایک وجہ اْس علاقہ میں 3 چھوٹے ڈیم ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ اِن میں سے 2 ڈیم کامیابی سے چل رہے ہیں اور ایک نیا بنایا جا رہا ہے۔
جیپ کا یہ 17 کلومیٹر طویل راستہ خاصا دشوار گزار ہے بلکہ اِس راستے کو راستہ کہنا بھی مناسب نہ ہوگا۔ کچھ جگہوں پر تو جیپوں کے ٹائروں کے نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں راستے یا سڑک طرز کی کوئی چیز ہوگی، وگرنہ موسمی نالوں، پائن کے درختوں کے درمیان سے جیپ یوں گزرتی ہے کہ آپ اگر ہاتھ بھر ہاتھ دروازے سے باہر نکالیں تو کسی درخت کے تنے کو چھو جائے۔ایسے راستے پر جیپ چلانا انتہائی مہارت کا کام ہے۔ محمد عباس جو ہماری جیپ چلا رہا تھا، 16 سالوں سے اْسی سڑک پر جیپ چلا رہا ہے۔ اْس کی جیب ایسے درجنوں واقعات سے بھری ہوئی تھی کہ کیسے من چلے اپنی قیمتی گاڑیوں کے زعم میں اْس راستے پر چلے آتے ہیں، اور بالآخر اپنی گاڑی کا نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ اْس نے ایک واقعہ ایسا بھی سنایا جس میں ایک جوڑا آٹو میٹک گاڑی سمیت نلتر نالے میں جاگرا تھا اور جان کی بازی ہار گیا۔
نلتر نالے کے کنارے چلتے چلتے ہم ایک گاؤں میں آ پہنچے جس کا نام نلتر پائن ہے۔ چند درجن گھروں پر مشتمل یہ گاؤں پہاڑوں کے دامن میں ایک پْرسکون بستی دکھائی دیتا ہے۔ گھریلو پیمانے پر لگائی گئی سبزیاں، مکئی کے ایک دو چھوٹے چھوٹے کھیت، دودھ دینے والے جانور، بکریاں اور بھیڑیں اِس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ یہ گاؤں ابھی شہری مصنوعات سے خاصا دور ہے۔ اِس گاؤں کے بعد اگلا گاؤں نلتر بالا ہے، یہاں پر چائے پینے کے لیے ایک چھوٹی سی بریک لی گئی۔
جھیل پر پہنچنے سے پہلے خزاں رسیدہ درختوں کا ایک جھرمٹ نظر آیا، میں چشمِ تصور سے دیکھ سکتا تھا کہ ایک مہینہ پہلے یہاں درختوں کے پتے گرنے سے پہلے اپنے رنگوں سے ماحول کو طلسماتی بنائے ہوئے ہوں گے، اْسی جھنڈ سے آگے ڈرائیور نے گاڑی روکی تو دور سے مجھے یہ چھوٹی سی جھیل ایک جوہڑ کی صورت دکھائی دی۔ چند ہی لمحوں بعد بصارت نے اْس کے سبز رنگ کو دیکھنے کا آغاز کیا، جوں جوں قدم اْس جھیل کی جانب بڑھ رہے تھے، سبز رنگ گہرا سبز ہونے لگا، اور بالآخر پہلی بھرپور نظر نے نگاہ کو حیران کرکے رکھ دیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ جیسے اوپر شفاف شیشے کی برف کی تہہ ہو اور اْس کے نیچے ہرے رنگ کی جھالریں بنی ہوئی ہوں، سبز کائی کی دبیز تہیں قدرتی طور پر اِس رنگ کو پیدا کر رہی تھیں، کچھ جگہ پر ایسا لگ رہا تھا کہ مٹی کے تیل میں ہَرے رنگ کا پینٹ گرا ہوا ہو۔ جہاں کائی کی تہہ گہری اور مکمل تھی وہاں اْس پر ایک خوبصورت پینٹگ کا سا گماں ہو رہا تھا۔یہ سچ ہے کہ اِس سے ملتی جلتی جھیل میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، یہ چھوٹی سی جھیل بس قدرت کے ہاتھوں بنی ہوئی ایک تصویر تھی جو اِن برف پوش پہاڑوں کے دامن میں رکھی گئی تھی۔ جس کنارے پر میں کھڑا تھا وہاں اْس پر سبز رنگ غالب تھا، لیکن کچھ جگہ تبدیل کرنے سے دور نیلگوں رنگ کے کچھ شیڈز بھی سْجھائی دیتے تھے، میں نے جھیل کے 3 اطراف کھڑے ہوکر اِس کی تصویر کشی کی اور مجھے ہر انداز سے یہ جھیل ایک شاہکار محسوس ہوئی۔
17 کلو میٹر طویل جیپ کا یہ سفر کم از کم دو،ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر مشتمل ہے، اور اتنا ہی وقت واپس جانے کے لیے درکار ہے، جاتے وقت یہ 17 کلو میٹر بہت کٹھن معلوم ہوتے ہیں، لیکن واپسی کے 17 کلومیٹر اور اڑھائی گھنٹے کا سفر ایک نشے سے لبریز تھے۔ قدرت کے ایک شاہکار کو دیکھ لینے کا نشہ، بہت دیر تک یہ گماں ہوتا رہا کہ شاید کسی خواب کی کھڑکی سے کوئی رنگ برنگا منظر دیکھا ہو، لیکن میرے کیمرے کی تصاویر گواہ ہیں، اِن سبھی دیدہ زیب لمحوں کے جو اِس جھیل کنارے بسر ہوئے۔واپسی پر اْسی راستے پر برفانی چیتے کا ایک کنزرویشن سینٹر دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ یہاں اِس سینٹر میں صرف ایک چیتا موجود تھا، یہ دنیا کے نایاب جانوروں میں سے ایک ہے۔
اِس سینٹر کے رکھوالے کے بقول اْس نے اِس علاقے میں 9 کے قریب ایسے چیتے دیکھ رکھے ہیں، لیکن اِن چیتوں کو پکڑنا بہت مشکل کام ہے۔ پاکستان کی نایاب ڈولفن ہو یا سنو لیپرڈ، ہمیں اپنے ملک کی ایسی اقسام کو محفوظ کرنے کے لیے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ اِس کنزرویشن سینٹر کا قیام ہی درست راستے پر ہمارے قدموں کی نشاندہی کرتا ہے۔
واپسی کے راستے میں نلتر بالا کے پاس ہماری گاڑی کا ایک ٹائر اپنی ہوا قائم نہ رکھ سکا۔ اب جب تک عباس بھائی ٹائر بدلتے ہم نے گاوں میں پیدل چلتے ہوئے پہلے والے ریسٹورنٹ تک جانے کا فیصلہ کیا، گاوں کی یہ شام مجھے بچپن کی اْن شاموں میں لے گئی جہاں اسکول کے بعد کھیلنے کے لیے فرصت ہی فرصت ہوا کرتی تھی۔ بچے اور بچیاں اپنے گھروں سے باہر کھیل کود میں مصروف تھے، کہیں کہیں دھواں شام کے کھانے کی تیاری کا پتہ دے رہے ہوتے تھے۔ ایسے سادہ لوگوں کی ایسی خوبصورت شام دل میں اترتی جا رہی تھی۔ ہماری مصروف زندگیوں کی دوڑتی بھاگتی شامیں اب فراغت سے نا آشنا ہیں، صرف میڈیا کے رنگ زندگی سے نکال کر دیکھئے دوستوں سے ملنے کا ڈھیروں وقت ہماری جیب میں پڑا ہے۔اب بھی نلتر جھیل کی یہ تصاویر کسی خواب کے سفر کی کہانی لگتی ہیں، آپ بھی کبھی اِس خواب کے سفر کے نکلیے اور اِس گوہر رنگ دار سے اپنی آنکھوں کو خیرہ کیجئے۔
8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...
عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...
روس نے 2003میں افغان طالبان کو دہشت گردقرار دے کر متعدد پابندیاں عائد کی تھیں 2021میں طالبان کے اقتدار کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی روس کی سپریم کورٹ نے طالبان پر عائد پابندی معطل کرکے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نام نکال دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے ...
وزیراعظم نے معیشت کی ڈیجیٹل نظام پر منتقلی کے لیے وزارتوں ، اداروں کو ٹاسک سونپ دیئے ملکی معیشت کی ڈیجیٹائزیشن کیلئے فی الفور ایک متحرک ورکنگ گروپ قائم کرنے کی بھی ہدایت حکومت نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں ا...
فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کے پیچھے بیرونی قوتیں،مائنز اینڈ منرلز کا حساس ترین معاملہ ہے ، معدنیات کے لیے وفاقی حکومت نے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، 18ویں ترمیم پر قدغن قبول نہیں لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا، نہریں نکالنے اور مائنز ا...
قابل ٹیکس آمدن کی حد 6لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کاامکان ہے، ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے ،تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہوگی انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا ، ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی، ب...
بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان اور سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو فیملی اور وکلا سے نہیں ملنے دیا جا رہا، جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بانی سے ملاقات کیلئے بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن...
پنجاب، جہلم چناب زون کو اپنا پانی دینے کے بجائے دریا سندھ کا پانی دے رہا ہے ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ، سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے ، وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ حکومت کے اعتراضات کے باوجود ٹی پی لنک کینال سے پانی اٹھانے کا سلسلہ بڑھا دیا گیا، اس سلسلے میں ...
ہمیں یقین ہے افغان مہاجرینِ کی دولت اور جائیدادیں پاکستان میں ضائع نہیں ہونگیں ہمارا ملک آزاد ہے ، امن قائم ہوچکا، افغانیوں کو کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے ، پریس کانفرنس پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے کہا ہے کہ افغانستان آزاد ہے اور وہاں امن قائم ہ...
عدالت نے سلمان صفدر کو بانی پی ٹی سے ملاقات کرکے ہدایات لینے کیلئے وقت فراہم کردیا چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کی عمران خان کے ریمانڈ سے متعلق اپیل پر سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرانے کے لیے تحریری حکم نامہ جاری کرنے کی ان کے وکی...
جب تک اس ملک کے غیور عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہیں فوج ہر مشکل سے نبردآزما ہوسکتی ہے ، جو بھی پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوگا ہم مل کر اس رکاوٹ کو ہٹادیں گے جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ سن لیں یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے ،بیرون ملک مقیم پاکستانی ا...
اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے کوششیں تیز کی جائیں ، ممکنہ اتحادیوں سے بات چیت کو تیز کیا جائے ، احتجاج سمیت تمام آپشن ہمارے سامنے کھلے ہیں,ہم چاہتے ہیں کہ ایک مختصر ایجنڈے پر سب اکٹھے ہوں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین سے ملاقات تک مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پر کوئی بات نہیں ہوگی، ہر...