... loading ...
بیسویں صدی میں اقبال اور جوش سے شروع ہونے والی اردونظم کی پرعظمت شاعری کا تسلسل نصف صدی کے بعد تک بغیر تعطل کے جاری رہا اور فیض گویا اس کلاسیکی روایت کے آخری امین ٹھہرے۔ 1950ء کی دہائی سے ذرا پہلے انگریزی شاعری کے براہ راست اثر کے تحت نظم کی نئی ہیئت آزاد نظم کی صورت میں وجود میں آئی جو اردو نظم کا تسلسل ہی تھا مگر ہیئت کی تبدیلی کے سبب سے افکار و خیال میں اور ان کے اظہار میں بھی تبدیلی بہرحال رونما ہوئی۔ آزاد نظم کی اس نئی روایت کا آغاز پاکستان میں ن م راشد اوربھارت میں غلام ربانی تاباں نے بیک وقت کیا تھا جس کے ساتھ ہی تصدق حسین خالد اور میرا جی نے اس کے سرمائے میں قابل قدر اضافہ کیا تھا۔ انگریزی شاعری کے اثرات میں مزید وسعت 60 کی دہائی کے آخری حصے میں آئی جب فکر و تخیل میں اور شاعری کے موضوعات میں تبدیلی کے ساتھ مختصر بلکہ مختصر ترین نظموں کی نئی ہیئت سامنے آئی جب کہ خواتین شعراء کے کلام میں نسائی احساس اور نسائیت کی تحریک کے اثرات نمایاں ہوئے۔ اس کیفیت اظہار کی نمائندہ شاعرات میں فہمیدہ ریاض کے بعد پروین شاکر کا نام آتا ہے۔ اس سے بہت پہلے ادا جعفری نسائی احساس کی شاعری کی بنیاد رکھ چکی تھیں مگر انہوں نے خود کو محدود نہیں کیا تھا۔
متذکرہ دونوں تبدیلیوں کی نمائندہ شاعری فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر کے کلام کے بنیادی اوصاف میں شامل ہے۔ اس سے قبل نسائی اظہار کی شاعری کے اثرات زہرہ نگاہ اور کشور ناہید کے یہاں پائے جاتے تھے مگر پروین شاکر نے نسائی احساسات میں خصوصاً عورت کے جنسی احساسات کے اظہار کو نرم لفظوں میں بیان کرکے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ واضح رہے کہ وہ نسائی شاعری تک محدود رہیں اور فہمیدہ ریاض کی طرح نسائیت کی شاعرہ نہیں بن سکیں۔ تاہم فہمیدہ ریاض کے بعد پروین شاکر 70 کی دہائی میں بہت مقبول شاعرہ ثابت ہوئی تھیں۔
پروین شاکر کی مقبولیت کا بڑا سبب نازک نسوائی احساسات کے اظہار سے لبریز شاعری تھی مگر مختصر نظم میں بھی پروین شاکر کو اختصاص حاصل تھا۔ مختصر نظم کا طریقۂ اظہار 60 کی دہائی کے آخری حصے میں رائج ہوچکا تھا مگر اکثر نظمیں جو مشاعروں میں سنائی جاتی تھیں ان میں اظہار کے تاثر میں اتنی کمی پائی جاتی تھی کہ شاعر کو بتانا پڑتا تھا کہ حضرات نظم ختم ہوگئی ہے۔ اسی طرح جو نظمیں شائع ہوتی تھیں ان میں تاثر اور تاثر اظہار میں کمی کے باعث شدید تشنگی کا احساس ہوتا تھا۔ پروین شاکر کو فخر حاصل تھا کہ اس کی مختصر نظمیں جو تین مصرعوں سے سات آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہوتی تھیں تاثر سے خالی نہیں ہوتی تھیں اور ان میں اکثر کسی خیال کے اظہار کی تکمیل نظر آتی تھی۔ یہ دراصل جدید انگریزی شاعری کے براہ راست اثرات کا مسئلہ تھا۔
مختصر نظموں کی صورت میں کسی خیال کی فوری اور تنہا لہر کو گرفت میں لانے کی یہ کیفیت پروین شاکر کے شعری اظہار میں غزل کے ساتھ ساتھ ابتدا سے وجود میں آگئی تھی۔ مختصر نظموں کی مختصر ترین صورت پروین کے پہلے مجموعۂ کلام ’’خوشبو‘‘ میں زیادہ نظر آتی ہے تاہم یہ سلسلہ ’’خود کلامی‘‘ اور پھر آخری مجموعہ شعری انکار تک جاری رہا اور پسند کیاگیا تھا۔ تاہم اس پسندیدگی کا سبب محض اختصار نہیں تھا بلکہ ان نظموں کا نفس مضمون تھا جہاں کسی نو خیز لڑکی کے رومانی احساسات کی لہروں کو قلم بند کیا گیا تھا۔ مختصر نظموں کا سلسلہ جب وسیع ہوا تو اس میں کہیں کہیں جنسی احساس کی لطیف لہریں بھی نظر آئیں۔ اس طرح پروین شاکر کی شاعری میں مختصر نظم نوجوان نسل بلکہ نو خیز نسل میں مقبولیت کا سبب بنی۔ واضح رہے کہ جنسی احساسات کے بارے میں نوخیز جذبوں کے اظہار کے شیدائی ہر عمر کے قاری میں اور خصوصاً غیر سنجیدہ قاری میں کثرت سے پائے جاتے ہیں اور سنجیدہ قاری کی مخصوص تعداد بھی اس کی اسیر ہوتی ہے۔ سو پروین شاکر کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 70 کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔ مگر پروین شاکر کی مقبولیت میں ان کی غزل کے اشعار کے ساتھ اس زمانے کے معروف ٹی وی اینکرز کا بڑا حصہ تھا۔ اس وقت صرف ایک ہی چینل یعنی PTV ہوا کرتا تھا جس کے معروف معدودے چند اینکرز طارق عزیز، دلدار پرویز بھٹی سمیت موقع بے موقع پروین شاکر کے اشعار سنایا کرتے تھے۔
ابھی میں نے یہ عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ پروین شاکر کی غزل کے اشعار ٹی وی اینکرز کی جانب سے بار بار پڑھے جانے کے سبب اس کی مقبولیت میں اضافے کا سبب بنے تھے اور اس سے قبل میں نے یہ عرض کیا ہے کہ رومان اور نوخیز محبت نازک جنسی جذبات اور اس سے ملحق احساسات سے مملو پروین شاکر مختصر اورنسبتاً مختصر نظمیں کی مقبولیت بلکہ ایوان ادب میں اس کی پہلی شناخت کا سبب بنی تھیں۔ اب میں نظم اور غزل کو علیحدہ علیحدہ مقبولیت کا سبب بتانے یعنی ان دونوں باتوں کے ظاہری تضاد اس کو ختم کرنے کے لیے یہ عرض کرتا ہوں کہ غزل کے اشعار میں بھی پروین شاکر کے وہی اشعار زبان زد خاص و عام ہوئے تھے جن میں جنسی احساس کی خفی یا جلی لہر موجود تھی۔ مثلاً ؎
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھیلتیں
صبح میرے جوڑے کی ہر کلی سلامت تھی
گونجتا تھا خوشبو میں رات بھر کا سناٹا
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
وہ رات پھر مجھے سوتے میں ڈسنے آئے گا
وہ جانتا ہے کہ کھلتا ہے مجھ پہ زہر کا رنگ
کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک
جسم برسات میں بھیگے ہوئے جنگل کی طرح
پروین شاکر کی مقبولیت کے مسلم ہونے میں مہدی حسن کی آواز کا بڑا حصہ ہے جب کہ مہدی حسن کی گلوکاری تک پروین شاکر کی رسائی میں ٹی وی اور ٹی وی اینکرز کا بڑا دخل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پروین شاکر اپنے آخری مجموعے انکار تک آتے آتے اپنی غزل کے حوالے سے پہچانی جانے لگی تھی لیکن پروین کی پہلی پہچان نظم ہی تھی میں نے پروین شاکر کی نظم کو اپنا موضوع اسی لیے قرار دیا ہے کہ نظم میں پروین شاکر اپنا الگ تشخص رکھتی ہے جب کہ غزل میں چند مقبول غزلوں اور معدودے چند اشعار کے علاوہ اسے اختصاص حاصل نہیں ہے کیونکہ اس کی غزل کا اپنا الگ کوئی اسلوب نہیں ہے بلکہ الگ لہجہ بھی مرتب نہیں ہونے پایا تھا۔
نظم میں پروین شاکر کے اختصاص کے محور اور اس کی اساس یعنی اس کے موضوع سخن اور رومانی احساسات کے بے باکانہ اظہار کی بات میں ابتدا ہی میں کرلی تھی مگر وہ اجمالی بیان تھا جسے تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہے۔ یعنی پروین کے موضوع سخن اوربے باک اظہار کی تفصیل کے لیے اس کی نظموں کے حوالے بھی ضروری ہیں مگر اس سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں پروین شاکر کو نسائی احساس کے اظہار تک محدود رہنے والی شاعرہ اور نسائیت کی شاعرہ نہ بن سکنے کی بات کیوں کرتا ہوں۔
سو اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہر چند اردو کی شعری روایت میں خواتین کا نام یعنی خواتین شعرا کا نام بیسویں صدی کے آخری نصف حصے میں بار سماعت ہو پایا اور اس سے قبل انیسویں صدی میں مہہ لقا چندا بائی اور بیسویں صدی کی ابتداء میں علامہ اقبال کے زمانے میں صرف ز خ ش (زاہدہ خاتون شیروانیہ) کا نام ہی ملتا ہے۔ یا مذہبی شاعری میں روپ کماری کا نام مستند ہے مگر 40 کی دہائی میں 1936ء کی ترقی پسند تحریک کے باضابطہ اعلان و ترویج کے بعد سے آج تک اردو میں خواتین شاعرات کی خاصی تعداد سامنے آئی تھی تاہم اس فہرست کو بھی تین ذیلی فہرستوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے یعنی خواتین کی شاعری، نسائی شاعری اور نسائیت کی شاعری۔ پہلی نوعیت میں وہ شاعری ہے جو خواتین نے تخلیق کی تاہم اگر نام حذف کردیا جائے تو اسے خاتون کی شاعری سمجھنے کا کوئی احتمال نہیں رہتا۔ اس شاعری کا تعلق فارسی شاعرہ زیب النسا سے آج تک گھریلو خواتین کی وہ شاعری ہے جو مختلف اہل قلم خاندانوں کی خواتین کرتی چلی آئی ہیں۔ تاہم اس شاعری میں عظمت کی راہ اس طرح نکلتی ہے کہ وہ شعری اظہار جو زندگی کے بارے میں شاعر کے حسی اورمشاہداتی تجربات سے رونما ہونے والے جذباتی اور حسیاتی یا احساساتی ردعمل سے وجود میں آتا ہے اس کی اکثریت صنفی احساسات سے ماورا ہے یعنی شاعری کی مجموعی اعلیٰ صورت اس بات سے عاری ہے کہ تخلیق کار مرد ہے یا عورت۔ ایسی شاعری کے ضمن میں البتہ 40 کی دہائی کے آخر میں خواتین شعرا کے یہاں اظہار میں تانیث کا صیغہ استعمال ہونے لگا تھا (اسے اختر شیرانی کا اثر بھی کہا جاسکتا ہے) جس سے پہچان کی عمومی شکل میں آسانی فراہم ہوئی تھی۔ شاعری کی اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ شعری اظہار میں نسوانی احساس کی شرط کو لازم نہ سمجھنے والی سب سے بڑی شاعرہ کے طور پر ادا جعفری کا نام لیا جاتا ہے جب کہ اس مختصر فہرست میں سحاب قزلباش، زہرہ نگاہ، شہناز مزمل اور صفیہ ملیح آبادی کے نام آتے ہیں۔
دوسری فہرست میں ان خواتین کے نام ہیں یا ایسی شاعری ہے جس میں خالص نسائی احساسات جذبات کے نازک مرحلوں کا اظہار کیا گیا ہے جسے پڑھ کر صاف پتا چل جاتا ہے کہ تخلیق کار عورت ہے۔ اس شاعری کو نسائی شاعری کہا جاتا ہے تاہم خاتون شاعر پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ نسانی احساسات کے اظہار تک محدود رہے بلکہ ایسی شاعرات کی اکثر شاعری ان کے صنفی احساسات سے ماورا بھی نظر آتی ہے۔
خاتون شعرا کی شاعری کی تیسری نوعیت وہ شاعری ہے جس میں عورت کے شخصی وجود ہونے کا اظہار بھی ہے اور شعری اظہار میں مردانہ معاشرے کے کسی بھی جبر کو نا مانتے ہوئے ہر اس موضوع پر گفتگو کا ادعا ہے جو معاشرے میں شجر ممنوعہ کہلاتا رہا ہے۔ شاعری کی یہ نوعیت جو مغرب کی نسائیت کی تحریک کے اثرات کے تحت رونما ہوئی ہے دراصل اس شعری اظہار پر مشتمل ہے جو عورت کے ہر نوعیت کے استیصال یعنی جنسی اور شخصی استیصال سے فکری استیصال تک کے خلاف احتجاج اور فریاد اور اس کے خلاف بغاوت پر دلالت کرتاہے۔ اس تحریک کے ابتدائی مراحل میں مغربی ادب میں ورجینیا وولف اور جیمس جوائس کا نام آتا ہے اور اس کی انتہائی شکل میں مغربی شاعرہ اور ادیبہ سلویا پلاتھ کا نام سب سے زیادہ اہم ہے۔
(سلویا پلاتھ کی زندگی کا اختتام خودکشی پر ہوا تھا)
ان تعریفات کی روشنی میں پروین شاکر کی نظم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس نے اول اول نو خیز لڑکی کے نو خیز رومانی جذبات کو مختصر نظموں کی صورت میں قلم بند کیا اور پھر خالص نسوانی احساسات کی ترجمانی کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہوئے نسبتاً طویل نظموں میں اپنے اظہار کو جاری رکھا۔ پروین شاکر کی شاعری کے اولین دور میں اپنی شاعری میں (جو اس کے پہلے مجموعے خوشبو کا حصہ ہے) نوخیز جذبوں سے آگے بڑھ کر نازک نسوانی احساسات اور پھر جنسی جذبے اور احساس کے اظہار کی شاعری کی۔ جس میں جنسی احساس اور اس کی تسکین کی صورت میں حاصل ہونے والی سرشاری کو بھی قلم بند کیا۔ پروین شاکر کی شاعری کا یہی دور اس کی شناخت اور مقبولیت کا دور ہے جس کا تسلسل آخری عمر تک یعنی اسلام آباد میں اس کی حادثاتی موت تک جاری رہا۔ اس پہلے دور کی شاعری میں اس نوعیت کے اظہار تک وہ بہت جلد پہنچ گئی تھی اور اس منزل پر ابتدا میں ان کا اظہار سادہ تھا مگر جلد ہی استعاراتی طرز اور تراکیب لفظی کی خوبصورتی اس میں شامل ہوگئی۔
اس بات کو محسوس کرنے کے بعد کہ ایک نوجوان شاعرہ کی طرف سے ایکسئیسی کے اتنے کھلے اظہار کی اس نظم نے ستر کی دہائی میں کیا دھوم مچائی ہوگی اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پروین شاکر کا اختصاص یہی رہا تھا اور ہے۔ تاہم جب اس کی عمر اور شعور میں اضافہ ہوا تو یہ اظہار بھی علامت اور استعارہ کے پیرہن اختیار کرتا چلا گیا اور موضوعات سخن میں وسعت آئی تھی مگر پروین شاکر نسائیت کی شاعری تک نہیں پہنچی اور نسائی شاعری تک محدود رہی۔ نسائیت سے ایک قدم بلکہ کئی قدم آگے بڑھ کر جنس کو موضوع بنانے اور اس کے احساسات کا کھل کر اظہار کرنے کی باغیانہ صفت اس کی شاعری کا حصہ ضرور بنی تھی مگر عورت کے استیصال کے بارے میں احتجاج اس کی شاعری کا اس طرح حصہ نہیں بنا کہ اسے نسائیت کی شاعرہ سمجھا جاسکے۔ سو میں اسے نسائی احساس کے اظہار کی بے حجاب شاعرہ کہتا ہوں۔
عہد موجود کی شاعرات میں نسائیت کی تحریک کی ترجمانی کرنے والی شاعرہ فہمیدہ ریاض ہیں۔ اس تحریک کے براہ راست اثرات میں فہمیدہ ریاض کے یہاں بغاوت یعنی سماج کی ان روایات سے بغاوت کا رجحان بلکہ اعلان پایا جاتا رہا ہے جو مردانہ حاکمیت کے مشاعرے نے نافذ کر رکھی ہیں۔ اس سے قبل کبھی کشور ناہید نے نسائیت کا چیمپئن بننے کی کوشش کی تھی مگر وہ بے باک مردانہ لہجے (شاعری میں کم اور گفتگو میں زیادہ) سے آگے نہیں بڑھ پائی تھیں۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ اردو میں شاعرات کی اکثریت ادا جعفری کی شعری روایت سے منسلک ہے جہاں نسوانی احساسات یا نسائی طرز اظہار شرط اول نہیں ہے بلکہ شاعری اور اس کی اقدا اور اس کی جمالیات اہم ہیں۔ لاہور میں ثمینہ راجا (مرحوم) یاسمین حمید منصورہ احمد(مرحوم) کے نام اہم ہیں جب کہ کراچی میں شاہدہ حسن، شاہدہ تبسم، پروین حیدر ، معصومہ شیرازی اور رخسانہ صبا قابل ذکر ہیں اور اس روایت کا حصہ ہیں۔ یہ تمام شاعرات پروین شاکر کی طرح شہرت حاصل نہیں کرسکیں کیونکہ انہوں نے جنسی جذبے اوراحساسات کو اس طرح موضوع نہیں بتایا جس طرح پروین شاکر نے بتایا تھا اور پھر یہ بھی ہے کہ ان کے زمانے تک میڈیا کے پھیلاؤ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے پھیلاؤ کے باوجود یعنی ٹی وی چینل کی بہتات کے باوجود اس میڈیا نے ادب اور شعر کو اپنی ترجیحات سے نکال دیا تھا۔ اور اب وہ اینکر پرسن بھی نہیں رہے جو کسی خاتون شاعر کے اشعار گاہ گاہ سناتے رہتے تھے۔
وہ اینکر پرسن تو نہیں رہے سوائے انور مقصود کے (جو اب اسٹیج ڈرامہ کے حوالے ہوگئے ہیں) مگر ان کے سبب پروین شاکر کی شاعری عوام کے حافظہ کا حصہ بہرحال بن گئی تاہم صرف ایسا نہیں تھا کہ اینکر پرسن کی عنایات کام آئی ہوں بلکہ پروین شاکر کی شاعری میں نو خیز ذہنوں کے ساتھ رومان پسند لوگوں کے لیے بھی جاذبیت موجود تھی۔
پھر یوں ہوا کہ ’’خوشبو‘‘ کی1977ء میں اشاعت اول کے ساتھ ہی مہدی حسن کی آواز نے پروین شاکر کی مقبولیت میں عوامی مقبولیت کا رنگ بھر دیا اور ہم جیسے اہل ادب نے اپنے تئیں سوچ لیا کہ اب پروین شاکر کے یہاں نو خیز عشق اور جنسی تجربے کی نوخیزیت کا زمانہ ختم ہوجائے گا اور ان کی غزل میں جو بلوغت فکر نظر آنے لگی تھی وہی ان کی نظم میں بھی نظر آنے لگے گی۔ مگر ان کے دوسرے مجموعے ’’صد برگ‘‘ میں ان کی یہ نظمیں محل نظر بنیں تو پتہ چلا کہ نوخیز عشق کی چاہت اور نو خیز جنسی تجربے کی حدت پروین کی شاعری کا مستقل موضوع بن چکے ہیں۔ یہ نظمیں ملاحظہ کریں جس کے توسط سے مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ عشق نوخیز اور جنسی تجربے کے نازک احساسات کا اظہار میں اس کے آخری مجموعے ’’انکار‘‘ تک تسلسل پایا جاتا ہے۔ جذبہ اوراحساس اور اس کے اظہار کی نوخیزیت کو تاحیات برقرار رکھنا یا اس کا برقرار رہنا ساری تنقیدی روش کا ہدف ہونے کے باوجود پروین کے کلام کی ایک منفرد صفت ٹھہرتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
وصال
خمار لذت سے ایک پل کو/جو آنکھیں چونکیں/تو نیم خوابیدہ سرخوشی میں/غرور تاراجگی نے سوچا/خدائے برتر کے قہر سے /آدم و حوا/بہشت سے جب بھی نکلے ہوں گے/سپردگی کی اسی انتہا پر ہوں گے/اسی طرح ہم بدن اور ہم خواب و ہم تمنا/
سپردگی
زمین اپنے قدیم محور کے گرد رقصاں ہے/اور فضا میں/کسی پراسرار سرخوشی کا سرور اس طرح/بہہ رہا ہے/کہ جیسے باد شمال نے جھوم کر ہرے موسموں/کے تن میں/کہیں رگ تاک کھول دی ہو/نظر سے اوجھل کوئی خوشی ہے/کہ جسم کی پور پور کو چھو رہی ہے آکر/لہو کی نیلی صداقتوں میں اترنے والی گلابی لذت/مرا بدن چومنے لگی ہے/ آب و آتش بہم ہوئے ہیں/ ہوانے مٹی کے سامنے سر جھکا دیا ہے
پروین کی ان نظموں کو پیش کرتے ہوئے ایک بار پھر میرا ادعا یہ ہے کہ نوخیزی عشق اور اس میں جنس کے نوخیز تجربے کی آنچ سے ہی پروین شاکر نے شاعری تخلیق کی اور اس کی شاعری کا یہ ڈھب اس کی شاعری کی ابتدا سے انتہائی دنوں تک یعنی ’’خوشبو‘‘ سے ’’صد برگ‘‘ اور پھر خود کلامی اور آخری مجموعے انکار تک موجود ہے اور جس طرح ہر شخص میں ایک بچہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اسی طرح پروین شاکر کے یہاں ایک نوخیز لڑکی ہمیشہ زندہ رہتی۔ عملی زندگی میں البتہ ایسے زمانے بھی آئے جب شاید پروین نے ایک جہاں دیدہ عورت کی طرح اپنے حسن کا خراج بھی حاصل کیا یا کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی شاعری میں ہمیشہ ایک نوخیز اور عشق شعار لڑکی ہمیشہ موجود رہی جو محبوب کی تمنا میں خود کو سپردگی کی منزل سے گزارنے کی خواہش رکھتی ہے۔ ’’خود کلامی‘‘ میں موجود نظمیں ’’سرشاری‘‘، بے بسی کی نظم، بے یقینی کی نظم اور، پھر پھولوں کا کیا ہوگا، اسی نوخیز عشق اور جنس کی دھیمی آنچ کی مظہر ہیں۔ آخری مجموعے ’’انکار‘‘ میں بھی یہی کیفیت اس کی نظموں کا محور ہے۔
موضوع سخن اور نفس مضمون اس وقت شعری اظہار کی جان بنتے ہیں جب اس اظہار میں خوبصورتی پائی جاتی ہو۔ پروین شاکر کی نظم کا یہی ماجرا ہے۔ مندرجہ بالا نظم کے تو محض آخری چند مصرعے ہی جمالیاتی اظہار کی اکائی نہتے نظر آتے ہیں لیکن خوشبو سے انکار تک نوخیزی عشق اور نوخیز جنسی تجربے کے احساس اور اظہار کی نظمیں خوبصورت ہیں اور یہی جمالیاتی اظہار ہے جس کے سبب پروین شاکر کی مقبولیت محض نوخیز لوگوں تک اور نوجوانوں یا ٹین ایجرز تک محدود نہیں رہی بلکہ ہر عمر کے قاری نے اس کی شاعری میں کشش محسوس کی تھی۔ پروین کی ساری نظمیں یا بیشتر نظمیں آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں مگر ان میں وہ نغمگی ہے جو پابند نظموں کی نغمگی کے ہم پلہ ہے۔ پروین کی یہ شاعری موضوع کے اعتبار سے نسوانی احساس کی شاعری ہے جب کہ اظہار کی سطح پر بھی اس تمام ماجرے کو بیان کرنے میں پروین کو کومل لفظ عطا ہوئے ہیں اس لیے اس کی اکثر نظمیں دل میں گھر کرلیتی ہیں اور یہ اس کے اظہار کی خوبصورتی ہی ہے جس نے محدود موضوعات کے باوجود پروین شاکر کی شاعری کو مقبول عام بنا دیا تھا۔
تاہم اس مرحلے پر مجھے پروین شاکر کی سوچ اور اس کی شاعری میں ایک نوعیت کی دوئی کا ذکر کرنا ہے۔ پروین کی اس سوچ میں جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتابوں کے دیباچوں میںکیا ہے اور اس سوچ میں جوان کے تخلیقی اظہار کا حصہ بنی مجھے دوئی نظر آتی ہے۔ اپنے دیباچوں کے اعتبار سے انہیں ایک قادر الکلام شاعرہ ہونے کے ساتھ (بہ اعتبار غزل اور نثر) ان کے شعری موضوعات میں بھی بلوغت نظری نظر آنی چاہیے تھی اور موضوعات میں پھیلاؤ ہونا چاہیے تھا مگر ان کے کلام میں خصوصاً خود کلامی اور انکار میں کچھ موضوعات اپنے جھلک تو دکھاتے ہیں لیکن ان میں وہ وسعت نظری اور بلوغت فکر نہیں ہے جو ان موضوعات کا تقاضہ ہے۔ اسی لیے شعری اظہار میں بھی کچا پن نظر آتا ہے۔
اس ضمن میں یوں ہے کہ اپنے رومانی طرز اظہار اور موضوعات کے ساتھ اپنی شاعری میں پروین شاکر نے بے زمینی کے دکھ کو بھی موضوع بنایا ہے یعنی اردو بولنے والوں کو فرزند زمین ماننے سے سندھ کے مخصوص ذہن کے لوگوں کی طرف سے انکار پر بھی اظہار خیال بہ صورت نظم کیا ہے۔ ان کی نظمیں جو ان کے مجموعۂ شعر ’’انکار‘‘ میں شامل ہیں بہ عنوان ’’سندھ کی بیٹی کا سوال‘‘ اور ’’فرزند زمین‘‘ اسی موضوع اور احساس کا اظہار ہیں علاوہ ازیں وطن عزیز کے حوالے سے اور خصوصاً ماضی میں فوج کے قابل تنقید کردار کے بارے میں ان کی نظمیں ’’بہار ابھی بہار پر ہے‘‘ اور ’’شہزادی کا المیہ‘‘ قابل ذکر ضرورہیں۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں اہل علم و صحافت پر کوڑوں کی سزا کے موضوع پر ٹکٹکی نامی نظم یا ’’روز سیاہ‘‘ یا ’’کتوں کا سپاس نامہ‘‘ پروین کے یہاں موضوعات کی وسعت کا اشاریہ ہیں مگر یوں ہے کہ یہ ساری نظمیں احساس کی گہرائی اور بلاغت فکر سے عاری نظر آتی ہیں اسی لیے ان کے اظہار میں بھی وہ خوبصورتی نہیں جو عمومی طور پر پروین شاکر کی شاعری کا حصہ ہے۔ مجھے افسوس کی منزل سے یہ سوچ کر گزرنا پڑا کہ وہ بلاغت فکر جو پروین کے دیباچوں میں ہے وہ اس کی شاعری کا حصہ کیوں نہیں بن پائی۔ میں اپنے اس افسوس کا ماجرا بیان کرنے کے لیے پروین شاکر کے دیباچوں کی تحریر سے کچھ ٹکڑے پیش کرنا چاہتا ہوں جہاں بلوغت فکر نظر آتی ہے مگر جوان کی شاعری میں نہیں آئی۔
ملاحظہ فرمائیں:
’’صد برگ تک آتے آتے منظر بدل چکا تھا۔ میری زندگی کا بھی اور اس سرزمین کا بھی جس کے ہونے سے میرا ہونا ہے۔ رزم گاہ جہاں میں ہم نے کتنے معرکے ایک ساتھ ہارے اور بہت سے خوابوں پر اکھٹے مٹی برابر کی۔ شام غریباں کی پینٹنگ کیسی بنے گی؟ کوفہ شہر کے منارے سبز تو نہیں ہوسکتے نا۔ سچائی جب مخبروں میں گھر جائے تو گفتگو علامتوں کے سپرد کردی جاتی ہے۔‘‘
(’’صد برگ‘‘ کے انتسابی جملے)
’’گریز پالمحوں کی ٹوٹی ہوئی دہلیز پر ہوا کے بازو تھامے ایک لڑکی کھڑی ہے اور سوچ رہی ہے کہ آپ سے کیا کہے۔ برس بیتے گئی رات کے سناٹے میں اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اس پر اس کے اندر کی لڑکی منکشف کردے۔ مجھے یقین ہے یہ سن کر اس کا خدا اس دعا کی سادگی پر ایک بار تو ضرور مسکرایا ہوگا (کچی عمر کی لڑکیاں یہ نہیں جانتیں کہ آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا) پر وہ اس کی بات مان گیا اور اسے چاند کی تمنا کرنے کی عمر میں ذات کے شہر ہزار در کا اسم عطا کردیا گیا … شہر ذات … کہ جس کے سب دروازے اندر کی سمت کھلتے ہیں اور جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔‘‘
(خوشبو)
یہ بلوغت احساس و اظہار اور تفکر کی یہ لہریں جو پروین شاکر کی نثر میں موجود تھیں اس طرح ان کے کلام میں جلوہ گر نہیں ہوسکیں جس طرح توقع کی جاسکتی تھی۔ تاہم جذبہ واحساس کی لہروں کی فراوانی ان کے کلام کا حصہ ضرور بن گئی۔ اور کیونکہ شاعری کی اصل تعریف یہی ہے کہ ’’وہ کلام جو جذبہ اور احساس کی شدت سے تخلیق ہوتا ہے اور جس میں جذبے اور احساس کی کروٹیں محسوس ہورہی ہوتی ہیں شاعری کہلاتا ہے۔‘‘ اس لیے پروین شاکر شاعری تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور پڑھنے والوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئیں۔ کیا ہے اگر وہ تفکر اور تعقل کی سرحدیں عبور کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی اور موضوعات کی وسعت محض برائے وسعت ہی رہی اور یوں ہوا کہ ’’خوشبو‘‘ کے دیباچے کا یہ جملہ درست ثابت ہوتا چلا گیا کہ وہ لڑکی شہر ذات میں داخل ہوئی اور پھر واپس نہ آسکی۔ مگر یوں بھی ہوا کہ اس شہر ذات کی ایسی ایسی شبیہیں اس نے اپنی شاعری میں پیش کیں اور کلیڈا اسکوپ کی طرح ایسے خوبصورت نقش اس نے ابھارے کہ شاعری کا حق ادا کردیا یعنی اس شاعری کا جو شہر ذات سے شروع ہوتی ہے اور وہیں تک ختم ہوجاتی ہے۔ اس لڑکی نے اگر باہر دیکھا تھا تو بہت کم دیکھا۔ اس نے شہر ذات میں ایک نوخیز لڑکی طرح جو کچھ دیکھ لیا وہ کسی اورکے حصے میں بہت کم آیا۔ نسائی احساس کی اتنی غنائیت سے بھرپور شاعری دوسری خواتین شعرا کو کم ملی کیونکہ یہ غنائیت لفظوں اور اظہار کی خوبصورتی سے نہیں برآمد ہوئی بلکہ نوخیزی عشق اور نوخیزیٔ جذباتِ جنسی کے اظہار سے مرتب ہوئی ہے۔
تاہم اس کے علاوہ بھی پروین شاکر کے کلام میں خوبصورت نظمیں ستاروں کی طرح چمکتی اور جھلملاتی نظر آتی ہیں۔ نظم خوشبو، نظم خود کلامی کے علاوہ، نئی رات، کوئی رات کی رانی سے یہ کہہ دے، خوبصورت نظمیں ہیں۔ ’’مشترکہ دشمن کی بیٹی‘‘ خوبصورت اور فکر انگیز نظم ہے۔
سو یوں ہے کہ پروین شاکر کی نظم کی شاعری میں خوبصورتی جذبہ وا حساس کی ان لہروں کے سبب ہے جو پڑھنے والے کو محسوس ہوتی ہیں اور یہ کہ پروین کی شاعری میں جذبہ و احساس کی شدت ایمائیت، شعری اصطلاحات اور استعارہ اور علامت سے ترتیب پاتی ہے۔ جہاں جہاں یہ التزام نہیں ہے وہاں پروین کی شاعری میں بے رنگی آگئی ہے۔ اسی لیے پروین شاکر کی نثری نظموں میں اکثر ایک طرح کی بے رنگی ہے۔
اس مضمون کے اختتامی مرحلے پر پروین شاکر کے کلام میں دوئی کی ایک اور صورت کا ذکر ضروری ہے جو دیگر شاعروں کے یہاں بھی پائی جاتی ہے یعنی نظم اور غزل کی جمالیات کی دوئی۔ پروین شاکر کی شاعری کے ضمن میں اس دوئی کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ نظم اور غزل کی جمالیاتی سطح میں جتنا فرق پروین کے یہاں ہے اتنا بہت کم ہوا کرتا ہے۔ منتخب نظموں کو چھوڑ کر یہ فرق بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح نثری نظموں میں پروین شاکر کی شاعری مکمل بے رنگی کا شکار نظر آتی ہے اسی طرح اس کی بہت سی نظمیں بے رنگ ہیں۔ تاہم اس فرق کے احساس سے یہ بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ پروین شاکر کی غزل خوبصورت غزل ہے۔ وہ اپنا ذاتی اسلوب تو نہیں بنا سکی مگر خوبصورت غزل کی تخلیق میں کامیاب نظر آتی ہے۔ پروین کی غزل میں جہاں اکثر لفظوںکے دروبست سے یہ جھلک رہا ہو کہ یہ کلام کسی عورت کا کلام ہے یعنی نسائی احساس اشعار سے جھلکتا ہو بہت خاصے کی چیز ہے۔ پروین کی غزل پر مضمون مجھ پر قرض ہے۔
چلتے چلتے پروین شاکر کی نظم کے حوالے سے ایک بات اور یاد آگئی جس کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ اس نظم سے ایک بڑی شخصیت قرۃ العین حیدر کا تعلق ہے اور جس نظم پرقرۃ العین حیدر ناراض ہوئیں اور پروین شاکر نے اسے تنازعہ بنا دیا۔ اس واقعے اور اس نظم سے پروین شاکر کی خود پسندی کا پہلو بھی عیاں ہوتا ہے۔ ہوا یوں کہ 70 کی دہائی کے آخری دنوں میں پروین بمبئی گئیں۔ قرۃ العین سے ملیں اور ان کے لیے ایک نظم لکھ کر پاکستان آکر شائع کرادی۔ نظم میں ایک عظیم عورت کا ذکر تھا جس کی محرومیاں کوئی نہیں سمجھتا۔ نظم میں بین السطور جنسی محرومی کا تاثر بھی تھا۔ قرۃ العین تک یہ نظم پہنچی تو وہ بہت برافروختہ ہوئیں اور رسالے کے مدیر نسیم درانی کو اس نظم کی اشاعت پر سرزنش بھی کی۔ یہ نظم اچھی تھی اگر اس کا عنوان ’’قرۃ العین حیدر‘‘ نہ ہوتا۔ خود پسندی کی بات یہ ہے کہ پروین شاکر نے قرۃ العین حیدر کی شخصیت پر اپنی شخصیت کا قیاس کیا۔ خود پسندی شاعر کے لیے ضروری ہے مگر اپنے پرقیاس کرنا ٹھیک نہیں۔ اب وہ دونوں ہی دنیا میں نہیں ہیں مگرذکر باقی ہے۔
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...