... loading ...
لاہور کینٹ کے یاسمین کلب میں اپنے بیٹے کی دعوت ولیمہ کے موقع پر اکرام اللہ خان نیازی جنرل حمید گُل ، لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان اور امجد اسلام امجد کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ ہم وہاں پہنچے ۔ میں نے لمبا اور کھلا کرتا اور شلوار زیب تن کی ہوئی تھی وہ مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکے اور مجھے گلے لگالیا یہ دیکھ کر جنرل حمید گل خان کہنے لگے کہ ’’ لگتا ہے کہ میانوالی آگیا ہے ‘‘ ۔۔ وہاں جنرل حمید گل سے بھی کافی باتیں ہوئی اس دوران انہوں نے بتایا کہ جوانی میں وہ ’’ وڑچھہ ‘‘ ضلع خوشاب کے علاقے سے لوگوں کے ساتھ پیدل چل کر میانوالی کے علاقے شادیہ میں کبڈی کے میچ دیکھنے آیا کرتے تھے ۔
یہ سب باتیں اُس شخص نے بتائی ہیں جسے اکثر اوقات مَیں قبرستان میں مختلف قبروں پر ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ پڑتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ دریائے سندھ کے کنارے تقریباً ایک کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے اس قبرستان کی مٹی سینکڑوں نہیں ہزار سال سے زائد عرصے سے مرنے والوں کے جسد خاکی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ پہلے جب کبھی مجھے رات کے وقت اس قبرستان کا سینہ چیر کر گذرنے والی سڑک سے گذرنا پڑتا تو انجانا خوف اور ڈر طاری ہوجاتا تھا ایک طویل عرصہ تک رات کے وقت میں اس سڑک سے نظریں سیدھی رکھ کر خوفزدہ ہو کر گذرتا رہا لیکن گذشتہ ڈیرھ سال سے میںرات کو کسی بھی وقت بے دھڑک اور بغیر کسی خوف کے اس قبرستان میں چلا جاتا ہوں مجھ پر کسی قسم کا خوف طاری نہیں ہوتا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس شہر خموشاں کے مکینوں کے درمیان میری ماں بھی جا بسی ہے ۔لہذا اب اس کے قریب جاتے ہی مامتا کی خوشبو محسوس ہونے لگتی ہے۔
میری اُس شخص سے شناسائی صرف اتنی ہے کہ وہ اپنے عزیزو اقربا کی قبروں پر اور میں اپنے والدین کے مرقد پر آتے جاتے ایک دوُسرے سے ملتے ہیں ۔
ایک رو ز وہ اپنے قریبی رشتہ دار اکرام اللہ خان نیازی ولد ڈاکٹر محمد عظیم خان نیازی کے قبر پر فاتحہ پڑھ واپس ہورہا تھا تو راستے میں علیک سلیک کے بعد میں نے حال احوال جاننا چاہا تو کہنے لگا ۔ میں فاتحہ پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ دنیا کتنی ظالم ہے اس کے بارے میں کیا کیا کہتی ہے ۔ پھر ایک آہ سرد بھرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ کہ شاید یہ لوگ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔
یہ سُن کر مجھے محسوس ہوا کہ مجھے اس سے کچھ پوچھنا چاہیے ۔۔ میرے استفسار پر اُس نے بتانا شروع کیا کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں اکرام اللہ خان نیازی مرحوم سے زیادہ نفیس اور ایماندار شخص شاید ہی کوئی دوسرا دیکھا ہو ضلع خانیوال میں میاں چنوں سے ملحقہ چکوک 4 ، 53 اور 92 اکرام اللہ خان کو اپنے والدڈاکٹر محمد عظیم خان سے ورثے میں کئی مربع اراضی ملی تھی ۔ اس کے علاوہ 88 سوکنال اراضی ضلع جھنگ میں بھکر کے علاقہ ’’ ڈھینگانہ ‘‘ کے قریب ان کی اراضی تھی ۔
اکرام اللہ خان ایمپیریل کالج لند ن سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سرکاری ملازمت میں آئے انہوں نے محکمہ PWD میں بطور سپریٹنڈنٹ انجینئر (SE ) ملتان اور لاڑکانہ میں خدمات سر انجام دیں ، لاڑکانہ میں تعیناتی کے دوران ان کی ذوالفقار علی بٹھو سے بھی کئی ملاقاتیں تھیں ۔ ایوبی آمریت کے خلاف میانوالی میں ان کے خاندان کی سرگرمیوںکی وجہ سے گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ ان کے درپے ہوئے تو انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ ملازمت چھوڑ کر انہوں نے ’’ ریپبلک انجینئرنگ کارپوریشن ‘‘ کے نام سے اپنی ایک فرم قائم کی ۔ ان کی فرم نے مغربی پاکستان میں ٹھیکے لیے تو ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کے گورنر عبد المنعم خان کو کہہ کرادائیگیاں رُکوادی گئی تھیں ۔ فرم کے سربراہ اور پیشہ ورانہ خدمات کی بدولت ایک مقدمے میں عدالت نے انہیں کمیشن مقرر کیا ۔ اس مقدمے ایک پرائیویٹ فرم کا حکومت کے ساتھ ادائیگیوں کے بارے میں تنازعہ چل رہا تھا ۔ حکومت مخالف فریق کی جانب سے انہیں لالچ اور ترغیبات بھی دی گئی تھیں مگر انہوں نے تمام پیشکشوں کو مسترد کرتے ہوئے حکومتی موقف کے حق میں میرٹ پر فیصلہ دیا تھا ۔ ان کی اس انجینئرنگ فرم نے اپنے لیے خاطر خواہ نیک نامی کمائی تھی۔ پنجاب میں سیم و تھور کے خاتمے کے لیے انہیں ٹھیکہ دیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر مبشر حسن خان ، سابقہ چیئر مین واپڈا شاہنواز خان ان کے شراکت دار تھے ۔ اس پروجیکٹ میں انہوں نے میانوالی کے لوگوں کو بہت ساری ملازمتیں دی تھیں ۔ ان میں سے جو قابل تھے انہیں انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے وظائف بھی فراہم کیے تھے۔
اکرام اللہ خان نیازی کی نفاست اور پسند بھی خوب تھی وہ اکثر سوٹ پہنتے تھے۔ انہیں سویڈن اور فرانس کے ٹیلرز کے تیار کردہ سوٹ بہت پسند تھے۔وہ اپنے ایک غیر ملکی خاص ٹیلر کا نام بھی بتایا کرتے تھے ۔لاہورسے خانیوا ل اپنی زمینوں پر آنے کے لیے ’’شاہین ایکسپریس ‘‘کا ایئر کنڈیشنر سیلپر استعمال کیا کرتے تھے ۔خانیوال سے کچہ کھو تک وہ اپنی مرسڈیز پر آتے اور اُس کے بعد زمینوں پر جانے کے لیے جیپ استعمال کیا کرتے تھے ۔ ’’ تھری کیسل ‘‘ برانڈ کی سگریٹ کے دلدادہ تھے ایک مرتبہ میں ان کے دو بھائیوں کرنل فیض اللہ خان اور ظفر اللہ خان کے ہمراہ خانیول کے ایک ہوٹل میں کھانا کھانے اور تین گھنٹے کی ایک نشست میںشامل تھا۔ کھانے کے بعد میں نے بل دینا چاہا تو انہوںنے مجھے منع کر دیا کہ میرے بڑے بھائی موجود ہیں ۔ حفظ مراتب یہی ہیں کہ وہ بل ادا کریں گے۔ اس نشست میںانہوں نے اُس وقت تک سگریٹ کا ہاتھ نہیں لگایا جب تک ان کے بڑے بھائی وہاں موجود رہے ۔ اپنے بڑے بھائیوں کا احترام ہمیشہ ان کا وصف رہا ۔ وہ کھانے میں ایک سے زائد ڈشیں پسند کرتے تھے ۔ ’’ڈرائیور ہوٹل ‘‘ انہیں بہت زیادہ پسند تھے ۔ کھانا کھاتے اور وہاں موجود لوگوںسے گپ شپ کرتے تھے ۔ بل ادا کرنے معاملے میں خاصے کشادہ دل تھے ۔
ایک مرتبہ میں ان کے ساتھ خانیوال کے 92 چک میں تھا کہ عمران خان انگلینڈ میں اپنے کریئر کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے ریڈیو تلاش کرنے کو کہا ۔ میں نے ’’ پائی ‘‘کمپنی کے ایک ریڈیو کا بندوبست تو کر لیا ۔رات آٹھ بجے والا پورا ریڈیو خبر نامہ سُنا مگر کرکٹ کی کوئی خبر نہیں تھی ۔ اگلے دن تمام اخبارات بھی دیکھے مگر کوئی خبر نہیں تھی ۔اکرام اللہ خان اُس روز خاصے بے چین رہے اور پھر اگلے روز واپس لاہور لوٹ گئے تھے ۔
وہ ایک دیانت دار انسان تھے ۔ ان کے واسکٹ یا کوٹ کی اندر والی جیب میں ’’ پنج سورہ ‘‘ ہوا کرتا تھا وہ فارغ اوقات میں اکثر اس کی تلاوت کرتے دیکھے جاتے تھے ۔ بیٹیوں سے بہت محبت کرتے تھے اُس وقت انہوں نے اپنی ہر بیٹی کے نا م پر پچاس پچاس ہزار روپے جمع کروا رکھے تھے ۔عمران خان جونیئر کیمرج کرنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے ساتھیوں خاص کر اپنے خالہ زاد کے ساتھ خرگوش کا شکار کھیلنے آئے تھے ۔
یہ ساری کہانی اُس نے ایک نشست میں بیان کردی اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنے لگا کہ مجھے اُس وقت بہت زیادہ دکھ لگتا ہے جب مخالفین اُسے ایک ایس ڈی اور قرار دے کر کرپشن کا الزام لگاتے ہیں ۔ یہ سارے حقائق عوام تک پہنچانے کا وعدہ مجھ سے لینے کے بعد وہ آگے بڑھ گیا۔