... loading ...
5 جنوری 1928کو جنم لینے والے سر شاہنواز بھٹو کے فرزند ذوالفقار علی بھٹو جس کو سرشاہنواز بھٹوپیار سے زلفی کہا کرتے تھے پاکستان کی سیاست کا ایسا کردار ہے جس کو مورخ بھی نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی ولادت ہوئی اس وقت سر شاہنواز بھٹو نظام دکن کے منعم( وزیر خزانہ) تھے یوں ذوالفقار علی بھٹو نے جہاں پہلا قدم اٹھایا وہ کسی عام گھرکا دلان نہیں تھا بلکہ ایک ریاست کے وزیر کی رہائش گاہ تھی وہ ذوالفقار علی بھٹو کا پہلا قدم ہی ایوان اقتدار کی غلام گردشوںمیں اٹھا اور پھر یہ سلسلہ 4اپریل 1979تک چلتا رہا۔
ابھی ذوالفقار علی بھٹوکو گریجویشن مکمل کئیے چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے اور انہوں نے وکالت کا آغاز ہی کیا تھا کہ اس وقت ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں میں موجود عقابی نظروں نے اس نوجوان میں چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا یوں ذوالفقار علی بھٹو اوائل جوانی میں ہی اس مقام پر جا پہنچے تھے جس تک پہنچنے کے لیے سیاست کی خارزار کے مسافر عمریں بتا دیتے ہیں لیکن اقتدار کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوتی اور جس پر مہربان ہو بھی جائے اس کو اتنے طویل عرصہ اپنا محبوب نہیں رکھتی۔
50کی دھائی کے اوائل میں شروع ہونے والے سفر میں کئی اسٹیشن آتے ہیں۔ اسکندر مرزا سے جنرل محمد ایوب خان کا لاڈلا بننے کا مرحلہ پھر وزارت خوراک وزراعت سے وزارت خارجہ کا سفر اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچا یہ سب اس دور میں ہوا جب ذوالفقار علی بھٹو بھرپور جوانی کے دور سے گزر رہے تھے۔ جس وقت جنرل محمد ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ مقرر کیا اس وقت ذلفی نے زندگی کی صرف 34بھاریں دیکھی تھیںلیکن وزارت خارجہ میں موجود سینئر بیورو کریٹ اور خارجہ امورکے ماہر آغا شاہی اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین عمر کے واضع فرق کے باوجود ایسی ہم آہنگی تھی کہ جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی امور خارجہ کے باری پوشیدہ صلاحیتوں کو طشت ازبام کیا۔
ستمبر 1965میں جب ازلی دشمن بھارت نے تنگی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر کھلی جنگ مسلط کی تو جہاں جنرل محمد ایوب خان کی تقریر نے قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا اور وہ جذبہ پیدا ہوا کہ شہری لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے بھارتی ٹینکوں اور توپ خانہ کا مقابلہ کرنے نکل پڑے۔
پاکستان قوم کے اس جذبہ نے بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا وہیں اقوام متحدہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی گھن گرج نے بھارتی وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ کو بھیگی بلی بننے پر مجبور کردیا ۔ اس جنگ کے آغاز سے قبل جب بھارتی سورما اور ان کا کمانڈر جس خوش فہمی کا شکار تھے کہ بھارتی کمانڈر انچیف نے اپنی فوج کے جنرلز کو 6ستمبر کی شام لاہور جم خانہ میں شام کی شراب کے چھپے ہوئے دعوت نامے دیئے تھے اور بھارتی وزارت خارجہ نے دنیا بھر کے سفیروں کے لیے 7دستمبر کے لاہور جیم خانہ میں عشائیہ کے دعوت نامہ تقسیم کے لیے صرف کمانڈر انچیف کے اشارہ کے منتظر تھے اور بھارتی وزارت خارجہ نے سفیروں کو دہلی سے لاہورلانے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے تھے لیکن بساآرزوکہ خاک می شود۔وہ بھارتی سورماء جو لاہور میں جشن فتح منانے کے خواب آنکھوں میں سجائے رات کی تاریکی میں بزدلانہ انداز میں حملہ آور ہوئے تھے پاکستانی قوم کی زندہ دلی کے ہاتھوں ایسی شکست سے دوچار ہوئے کہ انہیں جوتے پہننے اور پتلونیں جسم پر چڑھانے کا موقعہ بھی نہیں ملا وہ نہ صرف محاورۃ نہیں عملا جوتے چھوڑ کر بھاگے بلکہ بھاری اسلحہ اور گولا بارودبھی۔ اس جنگ کی دو نشانیاں تو آج بھی حیدرآباد میں بھارتی سورماوں کی “بہادری”کی داستانیں سنانے کے لیے موجود ہیں جن میں ایک ٹینک اور دوسری معروف توپ “رانی”جس کے بابت بھارتی جنرلز کا کہنا تھا کہ اس کی گھن گرج سے دشمن کے پتہ پانی ہوتا ہے لیکن وہ بھارتی “سورماوں”کی داستانیں سنانے کے لیے پاکستانیوں کے پاس ہیں۔
اس جنگ کے خاتمہ پر دونوں ممالک کے درمیان معاملات کو معمول پر لانے کے لیے روس کے شہر تا شقند میں میز سجائی گئی اورتاشقند معاہدہ طے پایا۔ جنرل محمد ایوب خان نے اس کو پاکستان کی کامیابی قرار دیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو کی نظر میں یہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہارنے کے مترادف تھا یوں جنوری1966میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ایوب خان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جو مختصر عرصہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت سے علیحدگی کا سبب بن گئے واقفاں حال بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل محمد ایوب خان نے وزارت سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جنرل محمد ایوب خان وضع دار آدمی تھے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے استفعیٰ طلب کیا اور یوں 1966کے وسط میں ذوالفقار علی بھٹو ایوان اقتدار سے باہر آگئے۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بھرپور عوامی مہم میں قاشقند کی بلی تھیلے سے باہر لانے کے عزم کا اظہار کیا لیکن 4اپریل1979تک یہ بلی تھیلے میں ہی بند رہی۔
1967میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرشاہنواز علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے خواب غفلت سے بیدار کیا اور 1970کے انتخابات میں سندھ اور پنجاب سے قومی اسمبلی کی مناسب تعداد میں سیٹ جیتنے میں کامیاب رہے ان انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے 4مقامات سے حصہ لیا تھا اور 3مقامات سے کامیاب رہے تھے جبکہ چوتھے مقام پر انہیں مفتی محمود کے مقابل شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اقتدار ایک نشہ ہوتا ہے اور اگر یہ نشہ اوائل جوانی میں لگ جائے تو پھر انسان اس کی تکمیل کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اگرچہ سندھ اور پنجاب سے مناسب انداز میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نا ہوسکی تھی شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں اتنی سیٹ جیت لی تھیں کہ حکومت سازی اس کے لیے مسئلہ نہیں تھا لیکن دستور ساز اسمبلی میں اسے 2/3اکثریت حاصل نہیں تھی یوں ملک کے دوسرے حصہ کی حمایت کے بغیر دستور سازی ممکن نا تھی لیکن جب اقتدار کی خواہش جنون بن جائے تو یہی ہوتا ہے جو ہوا۔
ملک دولخت ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار کی خواہش پوری ہوگئی ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر مملکت سے وزارت اعظمیٰ تک کاسفر طے کیا ۔ جس میں دنیا کی تاریخ کاعجوبہ بھی ہوا کر ایک سیاست دان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا عبوری دستور سے لیکر متفقہ دستور تک اور امت مسلمہ کے ناسور قادیانی مسئلہ کے حل تک ذوالفقار علی بھٹو کے ایسے کارنامہ ہیں جن سے ان کا بدترین مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا اس ہی طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بے کس مجبور عوام کو شعور اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا حوصلہ بخشا لیکن ان کا انجام افسوس ناک ہوا۔ اور 5جنوری 1928کو جنم لینے والا زلفی 51سال اور 3ماہ کی عمر میں04 اپریل1979 کو پھانسی کے پھندے پر جھول کر اپنے انجام کو پہنچا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو عدالتی قتل کہنے والوں ہر واجب ہے کہ اس فیصلہ پر نظرثانی کی اپیل کے ذریعہ ذوالفقار علی بھٹو کی نواب محمد احمد خان قصوری قتل کیس میں بے گناہی ثابت کریں۔