... loading ...
ہر کس و ناکس کو اپنے کیے پر دنیا و آخرت میں جزا و سزا کا مستوجب ٹھہرنا ہے کہ یہی سنت خدا وندی ہے۔ہمیں آزاد ہوئے70سال ہوچکے ہیں اور ہم سے بعد میں آزادی پانے والے ممالک ترقی کی منازل طے کرچکے ہیں مگر ہم اپنی اندرونی لڑائیوں جھگڑوں سے ہی نہیں نمٹ سکے ،قائد اعظم کی وفات کے بعدبرسر قتدار ٹولوں میںانگریز کے ٹوڈی وڈیروںاور جاگیرداروں نے قبضہ جمالیاتھا جو آج تک جاری ہے اس لیے صبح آزادی کا سورج آج تک صحیح معنوں میں نصیب نہیں ہوا یہ طبقہ انتہائی مطلب پرست ،مفاد پرست ،کرپٹ ہے صرف اقتدار میں رہنا ہی ان کا مقصد ہوتا ہے وہ بار بار پارٹیاں تبدیل کرتے اور مسلسل مقتدر رہتے ہیں ۔
ہماری قوم مذہبی جذبات کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بجا طور پر یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ ختم نبوت جیسے حساس ترین مسئلہ پر آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی اور پھر کئی روز تک مرکزی وزیر قانون کا غذات لہرا لہرا کرکذب بیانی اور جھوٹ سے کام لیتے رہے کہ ان ترامیم میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر کلریکل غلطی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا مگر کسی بھی مسلک کے مسلمانوں نے ان کی یہ بات قطعاً نہیں مانی اور اصل بات تو یہ ہے کہ یہ آئینی ترمیمی بل لگ بھگ تین سال تک پارلیمانی کمیٹی کے زیر بحث رہا جہاں پر اسمبلی میں موجود سبھی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہوتی ہے کوئی ممبر غلطی کی نشاندہی نہ کرسکاجس سے ان کی علمی قابلیت کا اظہار ہوجاتا ہے پھر دونوں اسمبلیوں سے اس کی منظوری کیا ہمارے حکمرانوں سبھی ممبر ان اسمبلی،اسمبلیوں میں موجود سبھی سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں کے منہ پر ایک طمانچے کی حیثیت نہیں رکھتی؟سینٹ میں بل پیش ہوا تو جے یوآئی( ایف )کے حافظ حمد اللہ نے اس کی نشاند ہی کی مگر حکمرانوں پر تواس بل کی آڑ میں نااہل قرار دیے گئے نواز شریف صاحب کو پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار دلوانے کی دھن سوار تھی اس لیے اکیلے حافظ صاحب کی بات کو در خورِاعتناء ہی نہ سمجھا گیا ان کی توجہ کروانے پر کوئی نوٹس تک نہ لیا گیا۔
پھر جیسے سینیٹ سے ن لیگ نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود اس بل کو پاس کروایا وہ بھی ایک محیر العقول واقعہ ہے کہ کس طرح ممبران سینٹ کو اجلاس سے ہی باہر رکھا گیا اور کس طرح اپنی حمایتی جماعتوں کے علاوہ دوسرے ووٹ حتیٰ کہ ایم کیو ایم کا ووٹ بھی حاصل کیا گیا پھر جب قومی اسمبلی میں بل پیش ہوا تو صرف ایک جماعت اسلامی کے ممبر اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے اس پر توجہ کراوئی اور باقاعدہ اس میں ترمیم پیش کی مگر یہاں بھی ان کے ساتھ سینٹ والا حشر کیا گیا کوئی ان کی بات کا نوٹس یا انہیں اہمیت دینے کو بھی تیار نہ ہوابل پاس ہونے کے بعد شیخ رشید نے للکارا تو ملک بھر میں شور مچ گیا قادیانی 7ستمبر1974کو قومی اسمبلی میں مشترکہ قرارداد کے ذریعے غیر مسلم قرارپاچکے تھے۔
قادیانیوں نے 26مئی1974کو نشتر کالج کے سوات کو سیر جاتے ہوئے طلباء کو ربوہ اسٹیشن پر اپنا مذموم لٹریچر تقسیم کیا تو نشتر کے طلباء نے راقم کے لکھے ہوئے پمفلٹ آئینہ مرزائیت سے ان کے کفریہ عقائد پڑھ کر سنائے جن میں قادیانیوں نے آقائے نامدار محمد مصطفیﷺ کے آخری نبی ہونے پرتنقید کی تھی اور یہ کہ مرزائی اپنے آپ کو خدا کا بیٹا خدا کی بیٹی خدا کی بیوی خدا کا باپ اور پھر خود کو خدا قرار دیا تھا اور( مرزاغلام احمد ) نے کہا تھا کہ میں نے زمین و آسمان تخلیق کیے بیشتر ان کی ایسی نام نہاد تحریروں سے مسلمانوں اسلام انبیائے اکرام حضرت فاطمتہ الزاہرا، حضرت علی شیر خد،ا حضرت امام حسین عالی مقام اور قرآن مجید کے بارے میں توہین آمیز کلمات دکھائے تو مرزائیوں نے ربوہ اسٹیشن پر جھگڑا شروع کردیا گاڑی چل پڑی اور جب29مئی1974کو طلباء سوات کی سیر سے واپس آئے تو مرزائیوں نے پورے ملک سے مسلح قادیانی نوجوان اکٹھے کررکھے تھے اور نشتر کے نہتے 178طلباء پر سخت ترین تشدد کیا ۔جب راقم اور نشتر میڈیکل کالج ملتان سٹوڈنٹس یونین کے منتخب عہدیدران نے پریس کانفرنس کی تو یہ بات بین الاقوامی میڈیا تک جا پہنچی اور اگلے دن تمام سرکاری نیم سرکاری اخبارات حتیٰ کہ بی بی سی لندن پر بھی اس تشدد کی لیڈنگ سٹوری شائع ہوئی اور ان کے خلاف تحفظ ختم نبوت کی تحریک چل پڑی۔
اب بھی بیعنہہ ویسی ہی صورت پیدا ہوئی ہے کہ بڑے غندہ سامراج امریکا اور یہودیوں کی شہہ پر ہمارے حکمران طبقات نے انتہائی ہوشیاری سے نہیں بلکہ عیاری و مکاری سے بل کے اندر کئی جگہ مرزائیو ں کے حق میں تبدیلیاں کر ڈالیں اب جب کہ دونوں اسمبلیو ں سے بل پاس ہوا تو اوپر بیان کردہ 2ممبران کے علاوہ باقی سبھی نا سمجھی اور اپنی جہالت کی ہی وجہ سے ملوث تو ہیں ! مکمل انصاف مطلوب ہے۔مرزائی مرتدین و زندیقین کو آئینی تبدیلیوں سے دوبارہ غیر مسلموں کی فہرست سے نکال ڈالنے جیسی غلیظ اور قبیح اسلام دشمن حرکت کر نے اور پھر اس کو منظور کرنے والے سبھی ممبران اسمبلی و سینٹ سزا سے کیونکر بچ سکتے ہیں۔ تو سبھی موجود ممبران سینٹ و قومی اسمبلی پر295Cکی دفعہ لاگو کرکے ان پر مقدمہ چلا کر انھیں بھی قرار واقعی سزا دی جاویں کسی وزیر کو ہٹا دینا کوئی سزا ہی نہ ہے سبھی ممبران اسمبلی اپنی نا اہلیوں جاہلیت کی مکمل سزا بھگتیں تاکہ وہ اسمبلیوں میں صرف ہاتھ کھڑا کرنے اور ہاں نہ میں جواب دینے والے نہ رہیں اور آئندہ اسمبلیوں میں منتخب ہونے کے لیے باشعور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہی حصہ لیں اور ستر سال سے ان پڑھ اجڈ لاپرواہ اور نا اہل وٖڈیرہ شاہی سے جان چھوٹ جائے ۔