... loading ...
یہ (دوسری قسط)
بات بھی ذہن میں رہے کہ اسی کی دہائی سے اسرائیل نے پورا ایک ہوائی یونٹ تشکیل دے رکھا ہے جس کے قیام کا مقصد جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا ہے عرب صحافتی ذرائع کے مطابق اسرائیل میں صحرائے نقب میں مختلف دشمن ملکوں کی جوہری تنصیبات کے ماڈل نصب ہیں جہاں پر انہیں تباہ کرنے کے لیے اسرائیلی فضائیہ مشقیں کرتی رہتی ہے اس کے علاوہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی ایسے عسکری مقامات ہیں جنہیں اسرائیلی فضائیہ کے استعمال کے لیے فعال قرار دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے خوفناک ردعمل کے خوف نے ابھی تک بھارت کو اسبات سے مانع رکھا ہوا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس سہولت کے استعمال کی اجازت دے۔
نائن الیون کے ڈرامے کے بعد اور مشرف انتظامیہ کی مہربانیوں سے امریکا افغانستان میں پہلے ہی قدم جما چکا تھا اس لیے اس کی چھتری تلے اسرائیلی اور بھارتی فورسز بھی اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرسکتی ہیں۔ نائن الیون سے لے کر اب تک پاکستان میں ان صہیونی دجالی قوتوں نے بارہا ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ دنیا کو اس بات سے خوفزدہ کیا جائے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جس سے پوری دنیا کا امن دائو پر لگ جائے گا لیکن پاکستانی اداروں کی دانش مندی سے ان حالات کا بھی بڑی قربانیاں دے کر مقابلہ کیا گیا اور تاحال یہ جنگ جاری ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جارہی ہے لیکن امریکا اور اس کے حواری پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا کے خلاف حملوں میں پاکستان کی سرزمین استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن جب پاکستان کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کی جنگ پاکستان نے نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لڑنی ہے اور اس بات کا جواب مانگا جاتا ہے کہ مشرق وسطی سے داعش کے جنگجوئوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے افغانستان لانے کے کیا مقاصد ہیں تو امریکا کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ تزویراتی طور پر اب تک افغان طالبان نے امریکا کے سامنے افغانستان میں بند باندھ رکھا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا افغانستان میں کسی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر کارروائی ڈالنے کے لیے خطے میں وارد ہوا تھا، دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کسی طور بھی امریکا کا ’’پارٹنر‘‘ نہیں ہے خطے میں امریکا اور اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی بھارت ہے، اسرائیل کے لیے بھارت اس لیے اہم اتحادی ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیلی جنگ کا بڑا ونگ پاکستان کو تصور کیا جاتا ہے جس کا جوہری کانٹا نکالے بغیر اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت کا تصور بھی ممکن نہیں ۔
ان حالات واقعات کے پیش نظر پاکستان کو داخلی اور معاشی طور پر انتہائی استحکام کی ضرورت ہے نواز شریف اور زرداری لوٹ مار کی صورت میں عالمی دجالی قوتوں نے پاکستان کو معاشی طور پر پہلے ہی دیوالیہ کے قریب کردیا ہے ۔ صورتحال کی سنگینی کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحافتی ذرائع کے مطابق خلیجی ریاست بحرین نے مقبوضہ القدس کے مسئلے کو عالمی سطح پر غیر اہم قرار دے دیا ہے۔ایک اور’’ اہم عرب ملک‘‘ کے دارالحکومت میں ایسی یہودی مغربی کمپنیوں کے دفاتر قائم ہیں جو یہاں سے بیٹھ کربے ضمیر فلسطینی فرنٹ مینوں کے ذریعے مقبوضہ القدس میں مسلمانوں کی جائدادوں کے کئی گنا زیادہ قیمت پر سودے کرتی ہیں۔ ایک اور’’ اہم عرب ملک‘‘ کے ایک تزویراتی مطالعاتی ادارے (اسٹریٹیجک اسٹڈی)کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’’جس طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے اہم اور مقدس شہر ہیں اسی طرح یروشلم بھی یہودیوں کے لیے اہم اور مقدس شہر ہے‘‘۔ یعنی مسلمانوں کو مقبوضہ القدس سے دست بردار ہوجانا چاہئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
مشرقی وسطی میں صورتحال کو اس حد تک اپنے حق کرلینے کے بعد اب اسرائیل اور امریکا کی نظریں پاکستان پر ہیں ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو اچک کر خطے میں اسے کم از کم بھارت کے رحم کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن اس تمام عرصے میں پاکستانی اداروں کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہ داری کا منصوبہ اب براہ راست چین کو بھی تنازعہ میں لے آئے گا جس کے بعد ماسکو کا اس میں شامل ہونا بھی ناگزیر ہوجائیگا ۔ جبکہ یہ بات اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ امریکا پر روس اور چین کی جانب سے دبائو ہے کہ وہ خطے میں قیام امن کے لیے افغان طالبان سے مذاکرات کرے۔یہ وہ حالات ہیں جب امریکا پاکستان کو دھمکیاں لگا رہا ہے ۔یو این او میں اپنے خلاف رائے شماری پر خلاف ووٹ دینے والے ملکوں امداد بند کرنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، اس کے باوجود مخالف میں ووٹ پڑنے پر ٹرمپ کو شرم سے ڈوب مرجانا چاہئے لیکن شرم سے مرنے کے لیے غیرت کا ہونا ضروری ہے۔ پہلے یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ امریکا کی زیرک صہیونی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ جیسے پاگل کو وائٹ ہائوس کیسے لے آئی لیکن افغانستان میں بننے والی درگت کے بعد اب صاف محسوس ہورہا ہے کہ امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ ٹرمپ جیسے پاگل کی آڑ میں رپوش ہوا جائے یقینی بات تھی کہ کوئی ہوش مند اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش نہیں کرسکتا۔
(ختم شد)