وجود

... loading ...

وجود

کیا امریکا پاکستان پر حملہ آور ہوگا؟

منگل 02 جنوری 2018 کیا امریکا پاکستان پر حملہ آور ہوگا؟

دو اہم معاملات کا ایک ساتھ وقوع پذیر ہونا اپنے اندر بہت سے معنی رکھتا ہے خصوصا اس ملک اور اس کے ذمہ دار اداروں کے لیے جو خود براہ راست ان معاملات کا ہدف بھی ہو۔ایک طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا امریکی سفارتخانہ مقبوضہ القدس منتقل کرنے کا اعلان تو دوسری جانب افغانستان کے معاملے میں پاکستان کو آنکھیں دکھانا ، امریکی نائب صدر مائیک پینس نے ’’اچانک‘‘ افغانستان کا دورہ کیا ، امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چار ماہ قبل ’’نئی افغان پالیسی‘‘ کے اعلان کے بعد یہ کسی بھی بڑی امریکی سرکاری شخصیت کا پہلا دورہ افغانستان تھا جہاں بگرام بیس پر انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور دیگر افغان سرکاری شخصیات سے ملاقات کی انہوں نے افغان جنگ کے احوال سے متعلق تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جہاں سے افغانستان میں حملے کئے جاتے ہیں پاکستان کو ان کے خلاف حرکت میں آنا ہوگا۔

صدر ٹرمپ نے پاکستان کو اپنی نوٹس لسٹ میں رکھا ہوا ہے‘‘۔ اس قسم کے دھمکی آمیز بیانات دے کر امریکی نائب صدر افغانستان سے رخصت ہوئے۔ امریکیوں کے ان احمقانہ بیانات کا پاکستانی اداروں نے تسلی بخش جواب دے دیا ہے لیکن خطرے سے منہ نہیں موڑا جاسکتا کیونکہ اب بات صرف ایک خطے یا ملک کی نہیں بلکہ اب سب کچھ عالمی تناظر میں طے ہورہا ہے اس لیے پاکستان کو بھی صرف علاقائی تناظر میں معاملات کو نہیں دیکھنا ہوگابلکہ پاکستان پر لٹکائی جانے والی معاملات کی تلوار افغانستان سے مشرق وسطی تک دراز ہے۔

سب سے پہلے ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان اور اس کے بعد اقوام متحدہ میں عالمی رائے عامہ کا موڈ چیک کرنے کے لیے رائے شماری اور اس میں بری طرح ناکامی بنیادی طور پر عالمی صہیونیت کے دجالی اقدامات میں سے پہلا قدم تھااس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ اقوام متحدہ میں ہونے والی رائے شماری اور اس میں امریکی ناکامی کے باوجود معاملات یہیں پر رک نہیں جائیں گے چند ماہ بعد ہی ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ امریکا اور اسرائیل اس رائے شماری میں ناکامی کو اس بات پر منتہج کریں گے کہ’’ دنیا نے شرافت سے انہیں مقبوضہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت میں ڈھالنے کا موقع فراہم نہیں کیا جو کہ ان کا مذہبی اور تاریخی حق ہے‘‘۔ اس حوالے سے یہ حقیقت انتہائی تلخ ہے کہ کچھ ’’اہم عرب ملکوں‘‘ نے ٹرمپ کے اس اقدام پر زبانی خرچ کیا ہے وہ درحقیقت مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکیوں نے خطے میں ایران کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا یہ کھیل اس حد تک آگے بڑھا کہ عرب حکومتوں کو اسرائیل کی بجائے ایران سب سے بڑا خطرہ نظر آنے لگا،یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے دہائیوں کی منصوبہ کی گئی تھی جس کا ثمر سمیٹنے کے لیے اسرائیل مکمل طور پر تیار کھڑا ہے لیکن اس وقت چین اور روس کی معاشی اور عسکری پیش قدمی اور پاکستان کے جوہری ہتھیار آڑے آئے ہوئے ہیں۔

افغانستان میں موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کہا ں تک جائیں گے اس کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ امریکا طاقتور لابیوں پر مشتمل ایک ملک ہے جس میں سب سے اہم اور باثر لابی صہیونی کہلاتی ہے اس کے زیر سایہ باقی تمام لابیاں کام کرتی ہیں۔ ایسا نظام اس ملک میں ہوتا ہے جو ایک قوم یا جغرافیہ کی بنیاد پر معرض وجود میں نہ آیا ہو۔ ایسے ملک کی مثال عالم تاریخ میں صرف امریکا کی ہی ملتی ہے جسے ملک سے زیادہ ایک پلیٹ فارم یاجنگشن قرار دیا جاتا ہے امریکی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ اس کو وجود میں لانے والوں کے پیش نظر کیا مقاصد تھے۔اس بات کو بھی تمام دنیا کے مسلمانوں کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ امریکا یا مغربی ممالک میں رہنے والے عوام کی اکثریت چاہئے وہ عیسائی ہوں یا یہودی، صالح اور امن پسند ہوتے ہیں ٹرمپ کے اس حالیہ اقدام کے بعد خود امریکا میں یہودی تقسیم ہوگئے یہ بھی یاد رہے کہ امریکا میں بسنے والے ایسے یہودی گروپ بھی موجود ہیں جو اسرائیل کے قیام کو سرے سے تورات کی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں اور ایک پینی چندہ دینا بھی حرام قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح یورپ میں بھی ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ۔ اس لیے نہ تو سارے یہودی صہیونی ہیں اور نہ ہی سارے عیسائی مسلمان دشمن۔یہ سب کچھ بیان کرتے ہوئے ایک 23سالہ سفیر فام امریکی عیسائی لڑکی راکیل کوری Rachel Corrie یاد آجاتی ہے جو غزہ میں ایک فلسطینی مسلمان کے گھر کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے اسرائیلی بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی اور اس اسرائیلی بلڈوزر کے ڈرائیور نے اس عیسائی لڑکی کو کچل کر ہلاک کردیا تھااب انسانیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا پیش کی جائے۔

صہیونی لابی کے شکنجے میں کسا ہوا امریکا کبھی پاکستان کے حق میں سودمند نہیں رہا اور نہ ہوگا، پاکستان کے حوالے سے یہی صورتحال پھر سر اٹھا چکی ہے، یہ بات ہم پہلے بھی تواتر سے کہتے آئے ہیں کہ امریکا خود سے افغانستان سے نہیں نکلے گا امریکیوں نے پاکستانی سرحدوں کے قریب جو تنصیبات قائم کی ہیں وہ یہاں سے جانے کے لیے نہیں ہیں ، خود اسلام آباد میں امریکی ـ’’سفارتخانہ ‘‘ جو سفارتخانہ کم ایک فوجی اڈہ زیادہ ہے۔ امریکا چونکہ ایک کارپوریٹیڈ ملک ہے اس کے سارے معاملات ٹھیکیداری نظام والے ہوتے ہیں، اس کی جنگیں بھی ٹھیکیداری اور کرائے کے نظام کے تحت لڑی جاتی ہیںامریکا سے متعلق یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس بات کی ہوا بہت پہلے نکل چکی ہے کہ امریکا اور اس کے صہیونی دجالی اتحادیوں نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے باقاعدہ ایک ٹاسک فورس تشکیل دے رکھی ہے جو ہمہ وقت چاک وچوبند رہتی ہے۔ (جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر