... loading ...
ڈاکٹر پیرزادہ قاسمؔ
لڑکھڑاتے ہوئے بھی اور سنبھلتے ہوئے بھی
اس کے در پر ہی گئے خواب میں چلتے ہوئے بھی
عشق آثار تھی ہر راہ گزر اس کی تھی
ہم بھٹک سکتے نہ تھے راہ بدلتے ہوئے بھی
عشق ہے عشق، بہرحال نمو پائے گا
یعنی جلتے ہوئے بھی اور پگھلتے ہوئے بھی
زندگی تیرے فقط ایک تبسم کے لیے
ہم کہ ہنستے ہی رہے درد میں ڈھلتے ہوئے بھی
ایک مدت سے ہیں ہم عشق میں آوارہ بکار
یعنی اک عمر ہوئی پھولتے پھلتے ہوئے بھی
سلسلہ تجھ سے ہی تھا تیرے طلب گاروں کا
برف ہوتے ہوئے بھی، آگ میں جلتے ہوئے بھی
بن تیرے ایسا اندھیرا تھا مرے اندر یار
ڈر لگا عشق کے سورج کو نکلتے ہوئے بھی
رفیع الدین رازؔ
اس دھوپ میں ہوتا رہوں تحلیل کہاں تک
اے وقت ترے حکم کی تعمیل کہاں تک
بکھرا ہے بدن گردِ رہِ شوق کی صورت
لے آئی مجھے خواہشِ تکمیل کہاں تک
آئینے پہ کب تک یہ غبارِ رہِ وحشت
خوابوں کے لیے آنکھ کی تذلیل کہاں تک
ہر آن نیا حرف ، نئے لوگ ، نئی بزم
آخر کوئی خود کو کرے تبدیل کہاں تک
گر ترکِ تعلق کا ارادہ ہے تو کہہ دو
تمہید کی صورت میں یہ تاویل کہاں تک
اب قطرۂ غم، قطرہ نہیں، بحر میں ضم ہے
لکھّو گے اس اجمال کی تفصیل کہاں تک
لو آنکھ کا یہ آخری قطرہ بھی ہوا خشک
صحراؤں سے لڑتی بھلا یہ جھیل کہاں تک
فراستؔ رضوی
دیکھتے جاتے ہیں نم ناک ہوئے جاتے ہیں
کیا گلستان خس و خاشاک ہوئے جاتے ہیں
ایک اک کر کے وہ غم خوار ستارے میرے
گم سرِ وسعتِ افلاک ہوئے جاتے ہیں
خوش نہیں آیا خزاں کو میرا عریاں ہونا
زرد پتے مری پوشاک ہوئے جاتے ہیں
دیکھ کر قریۂ ویراں میں زمستان کا چاند
شام کے سائے الم ناک ہوئے جاتے ہیں
ظلم سب اہلِ زمیں پر ہیں زمیں والوں کے
ہم عبث دشمنِ افلاک ہوئے جاتے ہیں
دیدۂ تر سے میسر تھا ہمیں دل کا گداز
قحطِ گریہ ہے تو سفاک ہوئے جاتے ہیں
کوزہ گر نے ہمیں مٹی سے کیا تھا تخلیق
کیا تعجب ہے اگر خاک ہوئے جاتے ہیں
ڈاکٹر نزہت عباسی
دل کے زخموں کی یہ ترتیب نئی لگتی ہے
ہم کو اپنوں کی یہ ترکیب نئی لگتی ہے
میری تحسیں سے کیا آپ نے دانستہ گریز
کیوں قصیدے میں یہ تشبیب نئی لگتی ہے
کچھ نئے خواب ، نئی خواہشیں دامن میں لیے
ہر نئے سال کی ترغیب نئی لگتی ہے
کیوں حقیقت کی طرح اس کو نہ تسلیم کریں
زندگی کی کوئی تادیب نئی لگتی ہے
وقت کے ساتھ بدل ڈالے ہیں آدابِ وفا
آپ کے عشق کی تہذیب نئی لگتی ہے
سحر حسن
دل کے آنگن میں چاند ٹھہرا ہے
چار سو اب نیا سویرا ہے
موسموں کا بدل گیا ہے مزاج
تتلیوں کا چمن میں ڈیرا ہے
وہ جو مجھ سے خفا رہے برسوں
اُنھی رنگوں نے آ کے گھیرا ہے
پھول کھلنے کا ہو رہا ہے گماں
چال میں بھی خمار گہرا ہے
آج تارے ٹنکے ہیں آنچل میں
پیرہن سرخ اور سنہرا ہے
دھڑکنیں دھڑکنوں سے ملتی ہے
آسماں پر مرا بسیرا ہے
سیدہ صدف اکبر
آنکھوں کے سب خواب ادھورے سے رہ گئے
روح سے دل کے ملاپ ادھورے سے رہ گئے
تیاگ دیا جب سے ہم نے سولہ سنگھار اپنا
آئینے کے سب سوال ادھورے سے رہ گئے
زندگی ،پڑھ ہی رہے تھے تیری کتاب غم
یک لخت سارے حرف ادھورے سے رہ گئے
بکھیر رہی تھی پھولوں پہ اپنے پیار کے رنگ
اس تتلی کے سارے رنگ ادھورے سے رہ گئے
ہم ، تم اور اس پر کتاب زیست کا یہ سفر تنہا
مٹے مٹے سے یہ ورق کچھ ادھورے سے رہ گئے
آنکھوں کی پتلیوں پہ دیر تک ٹھہرا رہا وہ عکس
اُس کے بعد سارے خیال ادھورے سے رہ گئے
ماہ کامل تھا مگر ہم پہ تو یوں گُزری کے بس
تم سے جدا تو میں اور چاند ادھورے سے رہ گئے