... loading ...
قانونِ کرایہ داری کے تحت وطن عزیز میں جو ظلم روا رکھا جاتا رہا ہے اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ محرم کو مجرم بنا دیا جاتا رہا ہے موجودہ قانون کرایہ دار 2009 کے تحت Premises کو خالی کروانے کے لیے مالک کو بہت ہی بہتر انداز میں سہولت فراہم کی گئی ہے کہ اب وہ وقت دور نہیں جب کرائے دار مالک کا استحصال کرکے عمر بھر کے لیے اُسکو مالی اور ذہنی پریشانی کا سبب بنتے تھے کا خاتمہ ہو سکے گا۔
سیکشن 5 Rented Punjab Premsises Act 2009)- ( کے تحت کوئی بھی لینڈ لارڈ بغیر معائدہ کیے کرائے دار کو جگہ کرائے پر نہ دے گا۔ جائیداد کا مالک معائدہ کو رینٹ رجسٹرار کے سامنے پیش کرئے گا ۔اور رینٹ رجسٹرار اپنے رجسٹر میں کرایہ داری کی تمام شرائط لکھے گا اور اُس معائدے پر اپنی مہر ثبت کرئے گااور اصل معائدے کی کاپی لینڈلارڈ کو دے دے گا۔کرایہ داری کے معائدے کے بعد ایک قسم کا یہ ثبوت بن جاتا ہے کہ مالک اور کرایہ دار کا رشتہ معرض وجود میں آگیا ہے۔
این ایل آر 2004 سول 702 کے مطابق سول پٹیشن نمبر1704-L آف 2002 جو کہ 20-2-200 4کو ڈسمس ہوئی یہ اپیل ججمینٹ آرڈر بتاریخ 19-4-2002 تھی جو لاہور ہائی کورٹ لاہور نے رٹ پٹیشن نمبر 4407/1996 میں پاس کی تھی کیس کا عنون تھا برکت مسیح بنام منظور احمد متوفی بذریعہ ایل آر ایس اس کیس میں برکت مسیح پٹیشنر تھا اور منظور احمد مرحوم بذریعہ ایل آر ایس ریسپاونڈنٹ تھا کیس کی سماعت مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری اور مسٹر جسٹس میاں محمد اجمل نے کی (a) کرایہ داری آرڈینس of 1959 VI کے سیکشن 13 کے مطابق مالک اور کرائے دار کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے کہ کرایہ دار کی طرف سے مالک کے خلاف سول کیس کا التواء فیصلہ ہونے تک مکان کو کرائے دار سے خالی کراونے سے نہیں روکتا۔(b) سیکشن 13 کے مطابق یہ قانون کا ایک طے شدہ اصول ہے کہ اگر کرئے دار اپنے مالک کے ملکیتی حقوق ماننے سے انکاری ہے تو پھر کرائے دار اس امر کو ہر حال میں یقینی بنائے کہ اُس کے قبضے میں جو جگہ ہے اُس کو مالک کے حوالے کرئے اور پھر ملیکت کے حقوق کے لیے کیس لڑے اور اگر مقدمے کا فیصلہ اُس کے حق میں ہو جاتا ہے تو پھر اُس مقدمے کے فیصلے پر اُسکے تمام تر حالات و واقعات کے مطابق عمل درآمد کروایا جاسکے گا۔
مذکورہ کیس کی سماعت 20-2-2004 کو ہوئی جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے حکم میں لکھا کہ اِس پٹیشن میں جو نکتہ اُٹھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ 19 اپریل 2002کو ہائی کورٹ نے برکت مسیح کی رٹ پٹیشن کو ڈسمس کردیا تھا۔ (a) اس کیس کے مختصر طور پر حقائق یہ ہیں کہ ریسپاونڈنٹ نے ایک درخواست رینٹ کنٹرولر صاحب لاہورکی خدمت میں1986-87 میںگزار کی۔کہ پٹیشنر کو مکان نمبر 16 گلی نمبر31کینال پارک لاہور جو کہ خسر ہ نمبر 1650 پر تعمیر شدہ ہے کے ایک کمرے سے Ejectکیا جائے۔ پٹیشنر نے ایجیکٹمینٹ کی
کروائی کو کونٹیسٹ کیا جس میں خاص طور پر اس نکتے پر زور دیا گیا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیاں مالک اور کرائے دار کا تعلق نہ ہے ۔ رینٹ کنٹرولر صاحب نے مندرجہ ذیل Issueفریم کیے۔ (a)کیا دونوں پارٹیوں کے درمیان مالک اورکرائے دار کا تعلق وجود رکھتا ہے؟ Relief (b) کیا بنتا ہے؟دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں شواہد پیش کیے اور 25 جنوری 1992 کو رینٹ کنٹرولر صاحب نے یہ Judgementدے دی کہ پارٹیوں کے درمیان مالک اور کرائے دار کا تعلق موجود ہے۔
پس پٹیشنر کو حکم دیا گیا کہ وہ Premises کو خالی کردے ۔ ایڈیشنل سیش جج صاحب لاہور کے پاس رینٹ کنٹرولر صاحب کے حکم کے خلاف اپیل کی گئی جو کہ18دسمبر 1995 کو خارج کردی گئی۔ان دونوں احکامات کے خلاف پٹیشنر نے ہائی کورٹ جانے کی Remedy کو استعمال کیا اور آئین ِپاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت اس کی Jurisdiction کو وجہ تسمیہ بنایا۔لیکن اِس میں بھی پٹیشنرکو کامیابی نہ ہوئی اور یہ پٹیشن بھی 19 مارچ 2002 کو خارج کردی گئی بعدازاں پٹیشن Leave to Appeal کے خلاف دائر کی گئی ہے۔ (4) ریسپا ونڈ نٹ کونسل نے کہا کہ ریسپاونڈنٹ کی ملکیت والی پراپرٹی پر پٹیشنر قابض ہے۔اور ریسپاونڈنٹ درحقیت اپنے مالک ہونے بناء پر یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اِس پراپرٹی کو اپنے قبضہ میں لے۔ (جاری ہے)