وجود

... loading ...

وجود

پٹرول بم !!!!ایٹم بم

هفته 30 دسمبر 2017 پٹرول بم !!!!ایٹم بم

2017 کے پورے سال میں تیل کی قیمتوں میںبڑھوتری شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی رہی ہے جس سے عام اشیاء بھی مہنگی ترین قیمتوں پر ملتی رہی ہیں اب تو یکم جنوری2018کی صبح ملک بھر کے عوام پر قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑے گی اس کا سوچتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے کہ صنعتکار حکمرانوں کی حرکتوں نے ہمیں موت کے منہ میں دھکیل ڈالا ہے۔غریب عوام جو کہ پہلے ہی74فیصد سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے گزر بسر کرنے پر مجبور محض ہیںوہ جب نئے سال کے تحفہـ”مہنگائی کے جن “کو دیکھ کر سر پیٹ کر رہ جائیں گے جب اوگرا وزارت پٹرولیم و دیگر حکومتی ٹائوٹ ادارے اپنی من مرضیوں کی تیل کی قیمتیں مقرر کرکے اربوں روپے منافع اپنی جیبوں میں ڈال چکے ہوں گے۔

آپ جتنا بھی احتجاج کرتے رہیں ،چیخیں چلائیں کبھی آج تک ظالم حکمرانوں کے کانوں پر نہ جوں رینگی ہے اور نہ ہی اب رینگے گی کہ ان کا دھیان اِدھر کیسے جاسکتا ہے؟جب انہیں سرکاری خزانوں سے پٹرول بجلی فون نوکر چاکر جہازوں کی ٹکٹیں اور ائیر کنڈیشنڈ اعلیٰ رہائشیں ملیں گی اور ایوان صدر ،وزیر اعظم ہائوس اور دیگر وزراء کا خرچہ ہی اربوں روپے سالانہ ہوگا تو انہیں قطعاً معلوم تک نہ ہوگا کہ پٹرول کی قیمت بڑھی ہے کہ سرکاری گاڑیوں میں تو پٹرول پرچی سسٹم سے ڈالا جاتا ہے جس کی کسی کو کانوںکان خبر نہیں ہوتی۔

دوسری طرف اسلامی تاریخ کے روشن ستارے خلفائے راشدین تو مساجد میں بیٹھ کر فیصلے کرتے تھے اور اس طرح آدھی دنیا سے زائد پر ان کی حکمرانی قائم تھی اور دیگر غیر مسلم اقوام بھی ان کے کردارو اخلاق کی بلندیوںکو دیکھ کر جوق در جوق مسلمان ہورہی تھیں ادھر ہم ہیں کہ لاکھوں قربانیوں وشہادتوں سے حاصل کیے گئے ملک کا آدھا حصہ 1971میں اقتدار کی کشمکش میں گنوا کر اب بقیہ حصہ کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی ہم آہنگی قطعاً ناپید ہو چکی ہے اور فرقہ واریت کا شیطان ننگا ناچ رہا ہے اور ہماری کرتوتوں پر ہنستا رہتا ہے کہ بڑے آئے تھے اسلام کے چیمپئن!! میں انہیں فرقوں گروہوں مسلکوں اور علاقائی و لسانی بتوں میں بانٹ کر اور ایکدوسرے پر کفر کے فتوے لگوا کر ایسا لڑوائوں گا کہ پورا عالم اسلام ہی خون میں نہلایا ہوا نظر آئے گا۔

شنید یہی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں 10روپے فی لیٹر اضافہ ہوگا “خوئے بد رابہانہ ہائے بسیار “یہ کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں مگر حکمران اپنی اندرونی کمزوری کا قطعاً ذکر نہیں کرتے کہ جو سود در سودر پر اربوں روپوں کے قرضے لے رکھے ہیں اب ان کو واپس کرنے کے لیے کوئی راستہ نظر نہیں آتا صرف یہ کہ بھاری سودوں پر مزید قرضہ لیکر سابقہ قسطیں واپس ہوسکیں گی۔ سرکاری خزانہ پر ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہنے سے ہمارے روپے کی قیمت کی شدید کمی سے اس کی ویلیو ختم ہوجانے پر ہماری کمزور معیشت کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ہے۔ایوبی دور کا 4 روپے کا ڈالر اب 114کا ہو گیا ہے “شرم ہمیں مگرکیوںنہیں آتی” ہم دنیا کے ذلیل ترین اور مکمل غیر اسلامی نظام سود کو جب تک نہ چھوڑیں گے ہماری معیشت روز بروز مزید زوال پذیر ہوتی جائے گی۔

سودی نظام کے بارے میں تو واضح ہے کہ یہ خدا اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مترادف ہے اور جو مسلمان قوم اپنے عزوجل اور رحمت اللعالمین کے خلاف ہی جنگ میں ملوث ہو وہ کیسے خوشحال ہو کر ترقی کرسکتی ہے؟سودی نظام کے مکمل خاتمے کے وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابقہ دور میں جناب شریف کی حکومت ہی نے سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر جاری کروایا تھا اور یہ قطعاً انہونی نہ ہے کہ اسی سراسر کافرانہ کام کے ارادتاً سرزد ہوجانے سے ہی نواز اینڈ کو خدا کے عذاب تلے غرق ہوتے جارہے ہوں ۔مٹی کا تیل 10روپے پٹرول سوا پانچ روپے اور ڈیزل وغیرہ ساڑھے چار روپے مزید جب بڑھے گا توٹرانسپورٹ کے کرائے بھی اسی تناسب سے بڑھیں گے اور فروٹ سبزیاں کھیتوں سے و دیگر مصنوعات کارخانوں سے پیدل چل کر نہیں بلکہ کسی نہ کسی ٹرانسپورٹ ویگنوں بسوں ٹرکوں ،ٹریکٹروں کے ذریعے ہی پہنچتی ہیں وہ مہنگا پٹرول ڈیزل استعمال کریں گے تو لا محالہ کرائے بڑھائیں گے جن کا براہ راست اثر تمام کھانے پینے کی روزمرہ کی استعمال کی اشیاء سبزی فروٹس پر پڑے گا۔

صنعتی مصنوعات بھی مزید مہنگی ہوں گی حتیٰ کہ گوشت مہیا کرنے والے جانور اور مرغی تک بھی ٹرکوں ویگنوں پر جب شہروں و دیگر سیل پوائنٹس پر لائی جائیں گی تو لازماً قیمت مہنگے تیل کا خرچہ ڈال کر بڑھ جائے گی صنعتکار حکمران ہیں کہ انہیں کسی قسم کے امن عامہ کے قیام ،غربت مہنگائی دہشت گردی بیروزگاری کے خاتمے کی کہاں ضرورت ہے ؟ انہیں تو بنکوںمیں اپنے سرمایوں کے بڑھانے اور کسی اور لیکس میں بیرون ملک جمع کروانے کا ہی دن رات خیال رہتا ہے اور پانامہ لیکس سے جان چھڑوانا بھی ان کی جان کا عذاب بنا ہوا ہے ۔اب شنید تو یہ بھی ہے کہ برائلر مرغی کی صنعت پر بھی شریفوں اور ان کے لواحقین کا قبضہ ہو چکا ہے اسی لیے تو ایک سال میں مرغی گوشت کی قیمت میں 88روپے کا اضافہ ہوچکا ہے قہر خداوندی کیوں نہیں نازل ہوتا؟ غرقاب کیوں نہیں ہو جاتے ؟چلوں بھر پانی میں ڈوب کیوں نہیں مرتے ؟پٹرول بم جب پھٹتا ہے تو مہنگائی کا جن خوشی سے الٹی چھلانگیں لگاتا ہے کہ اب میں ان لوگوں کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک بھی نچوڑ ڈالوں گا۔

مظلوم عوام اپنے ننھے منے بال بچوں سمیت نہروں دریائوں میں چھلانگیں لگاتے ڈوبتے مریں یا پھر خود سوزیاں کریں کہ”ٹھڈ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں چوٹھیاں”ایسا ہونا گڈ گورننس کے منہ پرایک زناٹے دار تھپڑ ہے شروع سال میں جب پٹرول بم پھٹے گا تو واقعی اس کی تکلیف ایٹم بم کے پھٹنے کی طرح ہی ہوگی در اصل پٹرول کی قیمت خرچے ڈال کر 43روپے فی لیٹر بنتی ہے مگر ایسا ہو تو حکمرانوں کے اللے تللے ،عیاشیاں و لن ترانیاںکیسے پوری ہوں گی؟اسی کمائی سے توووٹوں کی خرید وفروخت کرکے وڈیرے صنعتکار دوبارہ عوام کی گردنوں پر سوار ہوجائیں گے کہ” خون مزدور شرابوں میں ملادیتے ہیں”بالآخر پسے ہوئے طبقات کے لوگ اللہ اکبر اور ختم المرسلین کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں ظالمانہ پلید نظام و حکومت کے خاتمہ کا موجب بنیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر